ہوم << دو سال سے چھوٹے بچوں کو کیسے مخاطب کریں -عبدالعلام زیدی

دو سال سے چھوٹے بچوں کو کیسے مخاطب کریں -عبدالعلام زیدی

چند ماہ کا بچہ جب کچھ غلط چیز منہ میں ڈالتا ہے ، غلط چیز پکڑتا ہے تو بہت ساری مائیں اس کا نام لے کر اسے پکارتی ہیں. اس پکار میں ایک ڈانٹ ہوتی ہے، تنبیہ ہوتی ہے، اس کے ساتھ نگاہوں کی گرمائش ہوتی ہے ، یہ سب بچے کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے ۔

ایسا کرنے سے معصوم بچے اندر سے دہل سکتے ہیں، ڈر سکتے ہیں، یہ ایسے ہے کہ جیسے آپ کسی بچے کو تھپڑ ما ریں۔ یہ نامناسب ہے ۔ اسی طرح چھوٹے بچے کی ٹنڈ کرنا، یہ تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔ بلا وجہ بچے کی ٹنڈ کراتے رہنا، اس کی عزت نفس پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ہر وہ چیز جو ایک بڑے انسان کے لیے تکلیف دہ ہے ، وہ چھوٹے بچے کے لیے بھی نامناسب ہوتی ہے ۔ ہر وہ عزت جو آپ بڑے کو دیتے ہیں، ایک بچہ بھی اس کا حق رکھتا ہے۔ ہر وہ لفظ جو آپ اپنے لیے مناسب نہیں سمجھتے، وہ ایک بچے کے لیے بھی مناسب نہیں ہوتے۔

ہم اکثر چھوٹے بچوں کے سامنے ان کی صحت ، شکل و صورت ، یا دیگر منفی باتیں آرام سے کر لیتے ہیں، اس کا یہ مسئلہ ہے، وہ رولا ہے، روتا رہتا ہے، سوتا نہیں ہے، تنگ کرتا ہے،ضدی ہے ، کالا ہے وغیرہ وغیرہ . یہ سب ان کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے، وہ چاہے الفاظ کو نہ بھی سمجھ سکیں، جذبات انھیں واضح طور پر منتقل ہوتے ہیں، انرجی ٹرانسفر ہوتی ہے، نگاہوں کی گرمی اثر کرتی ہے۔

یہ سب باتیں کرنا آسان ہے ، شاید آج کل تو بہت سارے لوگوں کو ان باتوں کا پتا ہوتا ہے، لیکن ان پر عمل کرنا آسان نہیں ہوتا ، اس کی وجہ تکلیف دہ ہو سکتی ہے ۔

ہم جس قدر خود زخمی رہتے ہیں، اسی قدر ہم اپنے بچوں اور پیاروں کی معمولی معمولی باتوں پر ابنارمل رویہ اپناتے ہیں، جس قدر ہمارے اپنے زخم بھرے ہوتے ہیں، اسی قدر ہم بڑے سے بڑے واقعے کو بڑے حوصلے، اللہ سے اچھے گمان اور مثبت رہتے ہوئے ڈیل کرتے ہیں۔ اس لیے خود پر کام کرنا نہایت اہم ہے ، ورنہ ہم اپنے معصوم بچوں سے لے کر ہر رشتے کو غلط انداز میں ڈیل کرتے ہوئے ، ان زخموں کو کھرچتے رہیں گے، غلط پیٹرنز پر بھاگتے رہیں گے . معلومات ہمارے اخلاق کو نہیں بدل سکیں گی!

بچوں کی ڈانٹ کے پیچھے ضروری نہیں ہے کہ صرف بچے کی خیر و بھلائی کا جذبہ ہی ہو ۔ جی ہاں ! آپ کے اندر کے خوف ، ''کچھ بڑا نقصان نہ ہو جائے ''کے ڈر کے پیچھے آپ کے اپنے ٹراماز بھی ہو سکتے ہیں۔ ایک بچے کو پالتے ہوئے آپ اپنی زندگی کو پھر سے، صفر سے شروع کرتے ہیں۔ بچپن سے آپ کے ساتھ ہونے والا سلوک بار بار آپ کے اپنے پیٹرنز میں اترتا ہے، آپ کی اپنی محرومیاں بار بار آپ کے لہجوں ، خیالات اور انداز میں بولتی ہیں۔ آپ کے ساتھ ہونے والا ابیوز آپ کے ایکشنز میں دھاڑتا ہے۔

تو بچے کو پالنا ایک لحاظ خود اپنا بچپنا رپیٹ کرنا ہے۔ بچوں پر لگائی جانے والی پابندیوں ، نظم و ضبط اور بچوں سے کام کاج کی توقع ، ذمہ داری اٹھانے کی امید ، نہ اٹھانے پر دکھ اور غصے کے پیچھ، خود آپ کی اپنی کہانی رپیٹ ہوتی ہے۔ اس لیے بچے کی تربیت ، بچہ پالنے میں نارمل رہنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ خود پر کام کیا جائے۔ تبھی ہم اپنے بچوں میں اپنی بیماریاں منتقل کرنے سے رک پائیں گے۔ دعا ہے کہ باری تعالیٰ ہمارے زخموں پر مرہم رکھ دے اور ہمارے بچوں کی اعلیٰ تربیت کرنے کا ہمیں حوصلہ اور بلندی عطا فرمائے. آمین یارب العالمین

Comments

Avatar photo

عبدالعلام زیدی

عبدالعلام زیدی اسلام آباد میں دینی ادارے the REVIVEL کو لیڈ کر رہے ہیں۔ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے بی ایس کے بعد سعودی عرب سے دینی تعلیم حاصل کی۔ زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم اے اسلامیات اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولہور سے ایم اے عربی کیا۔ سرگودھا یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ سید مودودی انسٹی ٹیوٹ لاہور میں تعلیم کے دوران جامعہ ازھر مصر سے آئے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ دارالحدیث محمدیہ درس نظامی کی تکمیل کی۔ دینی تعلیمات اور انسانی نفسیات پر گہری نظر رکھتے ہیں

Click here to post a comment