یہ کرکٹ کا موسم ہے! پاکستان ایک طویل عرصے کے بعد آئی سی سی چیمپئن شپ کی میزبانی کر رہا ہے، مگر اس کی اپنی ٹیم ٹورنامنٹ سے تقریباً باہر ہو چکی ہے، وہ بھی اپنے روایتی حریف ہندوستان کے ہاتھوں شکست کے بعد۔ اس صورتحال نے مجھے دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں ہونے والے ایک کرکٹ ٹورنامنٹ کی یاد دلا دی۔ تہاڑ جیل دراصل آٹھ مختلف جیلوں کا مجموعہ ہے، جس میں سب سے بڑی تین نمبر جیل ہے۔ ایک جیل خواتین کے لیے مخصوص ہے۔ یہ ایک طرح سے چھوٹا موٹا ٹاؤن شپ ہے، جہاں 15سے 17ہزار افراد سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارتے ہیں۔
ہر سال اکتوبر میں جیلوں کے درمیان مختلف کھیلوں کے مقابلے ہوتے ہیں، جن کو تہاڑ اولمپکس کہتے ہیں۔اگست سے ہی ان کی تیاریا ں شروع ہوتی ہیں۔ کھلاڑیوں کے سلیکشن سے لے کر، کوچنگ اور پریکٹس وغیرہ کروانے کے لیے جیل حکام سرگرم ہو جاتے ہیں۔ ہر جیل کا کسی نہ کسی مخصوص کھیل کے شعبہ میں دبدبہ ہوتا ہے۔ میرے قیام کے دوران جیل نمبر تین کرکٹ کے لیے مشہور تھی، اورپچھلے کئی برسوں سے وہ کرکٹ کا کپ لےکر آتی تھی۔ اسی طرح ایک نمبر جیل، والی بال کے لیےمشہور تھی۔ یہی حال دیگر جیلوں کا بھی تھا۔ ان میں سے کوئی فٹ بال کےلیے مشہور تھا۔
جیل نمبر تین کی کرکٹ ٹیم میں پانچ پاکستانی قیدی کھلاڑی تھے۔اس لیے اس کو پاکستانی ٹیم کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا تھا۔ جیل حکام کوچنگ کے لیے باہر سے بھی ماہرین کو بلاتے تھے۔ کرکٹ کوچنگ کے لیے ایک بار مشہور کرکٹر سچن ٹنڈولکر بھی جیل میں آئے اور ٹیم کو اپنے مشوروں سے نوازا۔ اس جیل کے ملاحظہ وارڈ میں ان کے نام سے ایک بیرک بھی موسوم کی گئی۔
اگست2002میں جب اولمپک کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہو گئی تھیں کہ وزارت داخلہ نے کسی انٹلی جنس رپورٹ کا حوالہ دے کر جیل حکام کو خبردار کیا کہ پاکستانی قیدی کوئی شورش برپا کر سکتے ہیں یا جیل توڑ کر فرار ہونے کا راستہ تلا ش کر رہے ہیں، اس لیے ان کوشدید حفاظتی انتظامات کے تحت رکھا جائے۔ اگلے ہی دن پاکستانی قیدیوں کو انتہائی نگہداشت یعنی ہائی سکیورٹی وارڈ میں منتقل کیا گیا، جو جیل کے اندر ایک جیل ہے۔ اس کا براہ راست خمیازہ کرکٹ ٹیم کو بھگتنا پڑا۔ بیک وقت اس کے پانچ کھلاڑی نااہل قرار دیے گئے۔ اولمپک میں میڈل اور میچ جیتنا جیل کی عزت و وقار کا مسئلہ ہوتا ہے، اور اس کے لیے جیل حکام کسی بھی حد تک جاتے ہیں۔ ان پاکستانی کھلاڑیوں کا متبادل تلاش کرنا ٹیڑھی کھیر ثابت ہو رہا تھا۔
بالی ووڈ کی شعلے فلم میں ہری رام نائی کے کردار جیل میں واقعی موجود ہوتے ہیں، جن کا کام جیل حکام کےلیے مخبری کرنا ہوتا ہے۔ ایسے ہی کسی ہری رام نائی نے جیل حکام کو بتایا کہ پچھلے سات سالوں سے ہائی سکیورٹی وارڈ میں بند لاجپت نگر بم بلاسٹ کیس میں ملوث کشمیری قیدی لطیف احمد وازا، نہایت ہی اچھا فاسٹ بالر ہے۔ بس اب کیا تھا کہ جیل افسران نے لطیف کے کردار اور جیل میں اس کی اصلاح و حسن سلوک کے حوالے سے ایک فائل بناکر اعلیٰ حکام کو بھیجی، جس میں اس کو جنرل وارڈ میں منتقل کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ اجازت ملنے پر اس کو وارڈ نمبر 11، جہاں عام طور پر اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی میں زیر تعلیم قیدیوں کو رکھا جاتا ہے، منتقل کیا گیا۔ یہ ایک ایسا وارڈ ہے، جہاں تعلم یافتہ افراد یا سفید پوش ملزمین رکھے جاتے ہیں اور یہاں کا ماحول بھی دیگر وارڈں کے برعکس اتنا تناؤ والا نہیں ہوتا ہے۔ ایک طرح سے تقریباً ہوسٹل جیسا ماحول ہوتا ہے۔ یہاں کئی کلاس رومز اور لائبریری بھی موجود ہے۔ باہر سے جب بھی کوئی وی آئی پی، جیل کے دورہ پر آتا ہے، تو اسی وارڈ میں اس کو لایا جاتا ہے، اور وہ سمجھتا ہے کہ پوری جیل ایسی ہی ہے۔
کئی روز کی تگ و دو کے بعد لطیف کو اس وارڈ میں منتقل کیا گیا۔ ان کھیلوں کے اختتام تک،یا ٹیم کی ہار تک، کھلاڑیوں پر نوازشوں کی بارش ہوتی ہے۔ ان کے لیےصبح ناشتے میں انڈے، بریڈ، مکھن، دودھ، اور لنچ و ڈنر کے لیے لنگر سے اسپیشل چاول اور سویا بین پک کر آتے تھے۔ سات سال تک ہائی سکیورٹی وارڈ میں قید تنہائی کی زندگی گزارنے کے بعد لطیف اس جنرل وارڈ میں حیران و پریشان تھا۔ برسوں بعد پہلی بار اپنے ارد گرد مجمع دیکھ کر اس کا جی گھبرا نے لگا۔ وہ شور اور باتیں سننے کا اب عادی نہیں تھا۔ وہ اس حد تک پریشان ہوگیا کہ اس نے ایک اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کو واپس ہائی سکیورٹی میں لے جانے کے لیے رشوت کی پیش کش کی۔ مگر چونکہ جیل حکام کو میچ اور جیل کے وقار کی فکر تھی، اس لیے انھوں نے اس کے لیے کونسلنگ کا انتظام کیا. کونسلنگ کےلیے مجھے اور ایک کشمیری پنڈت انجینئر( ان کا نام جان بوجھ کر نہیں لکھ رہا ہوں) جو بیوی کی خود کشی کے کیس کی وجہ سے زندان میں تھے، کو مامور کیا گیا۔ اس دوران لطیف کےلیے جو اسپیشل کھانا لنگر سے آتا تھا، وہ ہمیں بھی اس میں حصہ دار بناتا تھا۔ کئی ماہ بعد انڈے کی شکل دیکھنے کو ملی تھی۔ جب روز پانی میں تیرتی ہوئی دال یا سبزی کھانے کی عادت پڑی ہو، تو تڑکے والی دال، چاول، سویابین، تو کسی فائیو اسٹار کے مینو لگتے ہیں۔ جیسا مجھے یاد ہے کہ کوچنگ اور پریکٹس کے مراحل سے گزرنے کے بعد ٹیم نے شاید فائنل یا سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر لی تھی۔
اس دوران ٹیم کو ایک اور مشکل درپیش ہوگئی۔ ٹیم کا کپتان امت کمار ڈکیتی کے الزام میں پچھلے آٹھ سال سے بند تھا۔ اس کے کیس کی عدالتی کارروائی ایک سال قبل ختم ہوچکی تھی اور جج نے اس کا فیصلہ محفوظ رکھا ہوا تھا۔ ستم تو یہ ہوا، کہ اہم میچ کے ایک دن قبل امت کا عدالت سے بلاوا آگیا کہ اس کے کیس کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ صبح اس کو عدالت روانہ کرتے وقت، جیل حکام و قیدی،اس کی قید کی مد ت میں اضافہ کی دعا کر رہے تھے۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ سیشن جج شیونارائن ڈھنگرہ نے اس کو تمام الزامات سے بری کرکے رہائی کا حکم دے دیا. ٹیم کے پانچ بہترین کھلاڑیوں کی عدم موجودگی اور پھر کپتان کا اہم میچ سے ایک ددن قبل رہا ہونا سانحہ تھے۔ ملزم، جو ٹیم کا کپتان تھا، نے آخری حربہ کے طور پر کورٹ روم میں جج سے درخواست کی کہ اس کو کچھ اور دن جیل میں گزارنے کی اجازت دی جائے۔ ڈھنگرہ صاحب کا موڈ اس دن انتہائی خراب تھا۔ وہ اس درخواست سے اکھڑ گئے اور امت کو فی الفور عدالت کے کمرے سے ہی رہا کرنے کے احکامات جاری کیے، اور بتایا کہ یہ لڑکا جیل میں شاید کسی گینگ کا حصہ ہے اور حصہ بٹائی کے لیے جیل واپس جانا چاہتا ہے۔ جیل حکام کو حکم دیا گیاکہ اس کا سامان وغیرہ، اس کے گھر پہنچایا جائے اور اس کو کسی بھی صورت میں جیل کے آس پاس بھی پھٹکنے نہ دیا جائے۔ بغیر کپتان کی ٹیم کا اگلے روز وہی حشر ہوا، جس کا اندیشہ تھا۔ ٹیم بری طرح پٹ کر ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئی۔ کرکٹ گراؤنڈ جیل نمبر ایک میں واقع تھا۔ جب ٹیم واپس آگئی، تو اس پر لعن و طعن کی ایسی بارش ہو رہی تھی کہ پاکستانی یا ہندوستانی ٹیم کو بھی ہار کر ایسی خفت نہیں اٹھانی پڑتی ہوگی۔ ان کو مختلف وارڈوں میں گھمایا گیا، جہاں وارڈوں کے صحن میں ان کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ان پر قیدیوں نے جوتے، لاتیں و تھپڑ برسائے۔ ناشتہ اور کھانے میں سبھی نوازشیں بند ہوگئیں. اگلے دو روز کے اند ر سبھی کھلاڑیوں کو الگ الگ وارڈوں میں بکھیر کر احساس دلایا گیا کہ وہ قید میں ہیں اور جیل کی عزت و وقار ان کی وجہ سے مٹی میں مل گئی ہے۔
اس سے جڑا ایک اور واقعہ یاد آیا. بیرک کے ایک معمر ضعیف قیدی، جو چرس یا گانجہ کے سلسلسے میں قید تھے، نے اعلان کیا کہ ان کے پاس وظیفہ ہے۔ اگر ان کو ٹیم ساتھ لے جاتی ہے، تو تماشائیوں کے اسٹینڈ سے وہ وظیفہ پڑھتے جائیں گے، تو رن بنتے جائیں گے۔ باولر کے رن اپ لیتے وقت جب وہ یہ وظیفہ پڑیں گے، تو مخالف کھلاڑی کے بلےباز کی آنکھوں پر جیسے پٹی لگے گی۔ اس پڑے میاں کی ایک ٹانگ میں لنگ تھا، جس کو وہ گھسیٹ کر چلتے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ ٹانگ پولیس کسٹڈی میں ناکارہ ہو گئی تھی۔ جیل نمبر ایک جہاں کرکٹ گراونڈ تھے کے منتظم ٹیم کے ساتھ بیس یا تیس تماشائیوں کو آنے کی اجازت دیتے تھے۔ مگر اس کےلیے اصول نہایت ہی سخت تھے، کہ تماشائی قیدی ڈرگ، دہشت گردی، گینگ وار وغیرہ کے کیس میں ملوث نہ ہو اور جیل کے قیام کے دوران ان کا سلوک اچھا ہونا چاہیے۔ غصہ ور قیدیوں کو بھی بطور تماشائی لے جانے پر پابندی تھی۔ چونکہ میچ کا جیتنا مذکورہ جیل حکام کےلیے بھی چیلنج ہوتا ہے اور وہ اس کو وقار کا ایشو بنا دیتے ہیں، توہم پرستی کی حد کہ جیل نمبر تین کے حکام نے اس بڑے میاں کو بطور کوچ کے رجسٹر کروایا، تا کہ وہ پویلین میں بیٹھ کر ٹیم کےلیے میچ کے دوران وظیفہ پڑھ کے۔ جیل نمبر ایک اور تین اندر سے جڑی ہوئی ہیں۔ جیل نمبر ایک کی حدود میں پہنچ کر جب ٹیم اور اس کے ساتھ قیدی تماشائیوں کی چیکنگ ہو رہی تھی، تو وہاں کے جیل اسٹاف نے بڑے میاں کو روک دیا۔ ان کی بڑی منتیں کی گئیں کہ بڑے میاں کوچ ہیں اور ان کے بغیر میچ نہیں ہوسکتا ہے۔ مگر وہ بھی استاد تھے، وہ ان منتوں سے نہیں پسیجے۔ ان کو اندازہ تھا کہ کچھ گڑبڑ ہے اور پھر چرس گانجہ کے الزام کے وجہ سے بڑے میاں ڈرگ کیس کے زمرے میں آتے تھے۔ ٹیم اور جیل نمبرتین کے اسسٹنٹ اسپریڈنٹ جو ان کے ہمرا تھے، نے ان کو گیٹ کے پاس ہی گارڈوں کے پاس ہی رکنے کےلئے کہا اور وہیں سے وظیفہ داغنے کی ہدایت دی۔ وہ وہاں تو بیٹھ گئے، مگر میچ دیکھنے سے محرومی اور اسٹینڈ سے وظیفہ نہ پڑھنے کا ان کو کلک رہا۔ وہ واپسی پر بار بار جیل نمبر ایک کے حکام پر تبرہ پڑھتے رہے، اور کہتے رہے کہ اگر ان کو اسٹینڈ میں بیٹھنے دیا ہوتا تو کھلاڑیوں کے بغیر بھی وہ میچ جتوا سکتے تھے.
تبصرہ لکھیے