قلم علم و دانش اور تہذیب انسانی کے ارتقاء کا ذریعہ ہے۔ جنگلوں اور غاروں میں رہنے والا انسان قلم ہی کی بدولت وحشیانہ زندگی سے نکل کر مہذب دور میں داخل ہوا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ پہلی وحی میں قلم کے ذکر سے لگایا جا سکتا ہے۔ معاشرے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اٹھا ہوا قلم قوموں کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ قلم کو جہاد کے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ قلم خواب غفلت میں سوئی ہوئی قوموں کو جھنجوڑنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا جس طرح علامہ اقبالؒ نے قلم کی طاقت سے مسلمانوں کے اندر آزادی کی روح پھونکی۔قلم وہ کام کرتا ہے تلوار بھی نہیں کرسکتی قلم تلوار سے بھی تیز ہے۔اسی قلم کار کی بھی بہت اہمیت ہے.
لاہور شہر اور اس کے علاؤہ شہریوں میں ہر روز ادبی مجالس و سیمینار کا انعقاد ہوتا ہے ان محفلوں میں کتابوں کی تقریب اجرا اور تنقیدی گفتگو کی جاتی ہے، شرکا محفل میں اکثر لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں علم و ادب کی الف ب سے بھی واقفیت نہیں ہوتی لیکن بولتے ضرور ہیں کہ وہ اپنا نام اخبارات میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں، ان حضرات کے علاوہ وہ قلمکار بھی تشریف فرما ہوتے ہیں جن کا حقیقتاً گلستان ادب میں اہم مقام اور ان کی تحریروں کو اعتبار حاصل ہے لیکن اکثر اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اقربا پروری اور گروہ بندی کو پروان چڑھایا جاتا ہے، اپنے دوست احباب کی حمایت میں اچھی اور معیاری تحریروں کو رد کرنے میں اس قسم کے قلمکاروں کا کوئی ثانی نہیں۔ بہرحال ایسا رویہ آج سے نہیں سالہا سال سے دیکھنے میں آرہا ہے، اچھے برے ہر طرح کے لوگ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ بہت اچھے، مخلص، بے غرض اور وسیع النظر لوگوں کی کمی نہیں ہے۔
انعام و ایوارڈ کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہاں بھی اپنوں اپنوں کو نوازنے کا چلن برقرار ہے۔ اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا ہے کہ کب کتابوں کا انتخاب عمل میں آیا؟ ایسی بھی تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے جن کے ایوارڈز کو دیکھ کے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ستائش باہمی کا انعقاد کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک اور روایت رواج پکڑتی جا رہی ہے کہ آن لائن میڈل 🏅 آن لائن سرٹیفیکیٹ اور آن لائن ایوارڈز دیے جا رہے ہیں کہ خود تیار کروائیں جس سے ادبا ء و شعرا کی حوصلہ افزائی یا ان کے گراں قدر خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن ملک خداداد پاکستان ایسی بھی تنظیمیں موجود ہیں جو حقیقتا اور ادبا و شعراء کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو ایوارڈز میڈل تاریخیت کیش نعمان دیتی ہیں تحسین پیش کیا۔انہی تنظیموں میں سے ایک نامور تنظیم پہچان پاکستان نیوز گروپ ہے جس کی قیادت ذکیر احمد بھٹی صاحب اور آمنہ منظور صاحبہ کر رہی ہیں پہچان پاکستان نیوز گروپ نے ملک پاکستان کے نامور ادبا اور شعراء کی صلاحیتوں کا صحیح معنوں میں اعتراف کرتے ہوئے ان میں ایوارڈز میڈلز اور تعریفی اسناد تقسیم کرنے کے لیے ایک پروگرام"پہچان پاکستان میگا ادبی ایوارڈ شو" کا انعقاد کیا۔
محترم ذکیر احمد بھٹی صاحب چیف ایڈیٹر و سرپرست پہچان پاکستان (پہچان پاکستان ذکیر احمد بھٹی کی وطن سے حد درجہ کی محبت کی عکاسی کرتا ہے۔ سعودی عرب میں رہتے ہوئے ملک پاکستان کے نام کو سر بلند رکھنا بھٹی صاحب نے اپنا مشن بنا رکھا ہے۔ گزشتہ تین سال سے روزنامہ پہچان پاکستان کی مسلسل اشاعت کسی کارنامے سے کم نہیں اور سارے اخراجات اپنی ذاتی کمائی سے پورے کرتے ہیں)، اورڈپٹی ایڈیٹر آمنہ منظور صاحبہ(ہمہ جہت شخصیت کی مالکہ) کی زیرِ سرپرستی تقریباً پونے چار بجے تقریب کا پہچان پاکستان ادبی ایوارڈ کی تقریب کاباقاعدہ آغاز ہوا۔ محترم علی زریون صاحب، شہزاد واثق صاحب، صابر علی صابر صاحب، چوہدری شفقت محمود صاحب اور محترمہ فاطمہ قمر صاحبہ بطور مہمانانِ خصوصی سٹیج پہ جلوہ افروز ہوئے۔ محفل کی نقابت کے فرائض محترم کامران حسانی اور عبدالحفیظ شاہد صاحب نے ادا کیے۔ اللہ رب العزّت کے پاک کلام کی سعادت محترمہ غزالہ سلطانہ صاحبہ نے حاصل کی اور سورۃ الرحمن کی آیات کی تلاوت سے ایسا سماں باندھا انتہائی دلکش انداز میں تلاوت قرآن پاک کی تقریب کے مہمانِ خصوصی محترم شفقت محمود چوہدری صاحب نے محترمہ غزالہ سلطانہ اور ان کے والدِ گرامی کے لیے عمرہ کے دو ٹکٹ کا اعلان کردیا۔ بعدازاں محترم اللہ رکھا تبسم صاحب ایڈوکیٹ نے نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیش کرکے ہمارے قلوب و اذہان کو عشق مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم سے منور کیا۔ اس کے بعد قومی ترانے کی دھن سنائی دی اور تمام شرکاء قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ پھرانتہائی جامع الفاظ میں ادارہ ہذا کا تعارف، اغراض و مقاصد، صحافت میں اس کی خدمات اور ادارہ کی ترویج و ترقی کے سفر پر عمدہ انداز میں روشنی ڈالنے کے لیے محترمہ آمنہ منظور صاحبہ کو بلایا گیا آپ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں ۔
اس کے بعد پروگرام کے اصلی مقصد مطلب ایوارڈز، میڈلز اور تعریفی اسناد کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایوارڈز کے لیے نامزدگان تالیوں کی گونج میں سٹیج پہ بلایا گیا اور اپنا اپنا ایوارڈ وصول کیا یہ حقیقت ادبا و شعرا کی صلاحیتوں کا اعتراف تھا. ایک سو سے زائد اہل فن میں ایوارڈز، میڈار اور تعریفی اسناد پیش کی گئیں۔ ہردلعزیز شاعر جناب علی زریون صاحب کی تاج پوشی بھی کی گئی. اس کے بعد علی زریون صاحب نے اپنی شاعری کے ساتھ شرکاء محفل کے دلوں کو گرمایا۔ ذوالفقار علی بخاری صاحب شہزاد واثق صاحب فاطمہ قمر صاحبہ نے ذکیر احمد بھٹی صاحب آمنہ منظور صاحبہ ادرہ پہچان پاکستان کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا . آہستہ آہستہ پروگرام اپنے اختتام تک جا پہنچا۔ یہ ہرلحاظ سے ایک بہترین تقریب تھی. جناب محترم ذکیر احمد بھٹی صاحب، محترمہ آمنہ منظور صاحبہ اور انکی پوری ٹیم صحیح معنوں میں مبارکباد کی مستحق ہے کہ انہوں نے اس کامیاب تقریب کا اہتمام کیا۔ میری دعا ہے کہ اللّٰہ رب العزت محترم ذکیر احمد بھٹی صاحب آمنہ منظور صاحبہ اور ان کی تمام ٹیم کو صحت و سلامتی اور ایمان والی لمبی زندگی نصیب فرمائے اور ادارے کو دن دگنی رات چوگنی ترقی نصیب فرمائے آمین
تبصرہ لکھیے