ہوم << دنیا میں کیوں آئے ہیں، کہاں جائیں گے؟ عائشہ نورین

دنیا میں کیوں آئے ہیں، کہاں جائیں گے؟ عائشہ نورین

”ہم اس دنیا میں کہاں سے آئے ہیں؟ کیوں آئے ہیں؟ اور مرنے کے بعد ہم کہاں جائیں گے؟“

میری نو سال کی بھتیجی عزہ مریم مجھ سے کہہ رہی تھی کہ جب بھی میں اکیلی بیٹھ کر اپنے دماغ کو ریلیکس کر رہی ہوتی ہوں، تو میرے ذہن میں بہت سے سوال آتے ہیں. یہ کہ کیا یہ دنیا واقعی ہی میں ہے یا ہم خواب دیکھ رہے ہیں؟ اگر ہم خواب دیکھ رہے ہیں تو ہم سچ مچ میں کیا ہیں؟ کیا اللہ تعالی واقعی میں ہیں؟ ہم اس دنیا میں کیا کرنے آئے ہیں؟ ایسے ملتے جلتے سوالات عبدالاحد (میرا بھتیجا) کم عمر ی سے مجھ سے پوچھتا آ رہا ہے کہ پرانی تصویروں میں بھیا اور اینا (بہنا) ہیں، میں کدھر ہوں؟ جب میں پیدا نہیں ہوا تھا تو کہاں تھا؟ دادا ابو کہاں گئے ہیں؟ ہم سب کب مریں گے؟ ایلیئنز اور بھوت کیا سچ مچ میں ہوتے ہیں؟

شاید ہی ہم میں سے ایسا کوئی ہوگا جس کے ذہن میں ایک بار بھی یہ سوال نہ آیا ہو کہ ”میں کون ہوں ؟ کہاں سے آیا/آئی ہوں؟ مرنے کے بعد میں کہاں جاؤں گا/گی؟“
انسانوں اور جانوروں کے درمیان جو چیز فرق کرتی ہے وہ ہے عقل/شعور۔ اسی عقل/شعور کی بنیاد پر انسان جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟ کیوں آیا ہے؟ اور مرنے کے بعد اس کا کیا ہوگا؟
ہم میں سے اکثر لوگ ان سوالوں کا جواب اپنے معاشرے/ماحول سے لیتے ہیں۔ شاید اسی لیے اب طہ (میرا بھتیجا، جو اب بارہ سال کا ہو گیا ہے) نے ایسے سوال پوچھنا کم کر دیے ہیں، کیونکہ اس کو ان سوالوں کا جواب اس کے بڑوں، اساتذہ وغیرہ سے مل چکا ہے۔

ہم میں سے اکثر بغیر سوچے سمجھے اپنے ان سوالوں کے جوابات (جو ہمارا معاشرہ ہمیں دیتا ہے) کو قبول کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو کے لیے انسان، حیات، کائنات کے وجود کا تصور کسی عیسائی، مسلمان، بدھ مت یا کسی اور مذہب کے پیروکار سے مختلف ہوگا. ہر مذہب کے پیروکار کے لیے معاشرے کا دیا گیا تصور درست ہوگا۔ یہ سوالات اتنے بنیادی اور ضروری ہیں کہ نہ صرف مذاہب بلکہ اسلام کے علاوہ دو بڑی آئیڈیالوجیز کیپیٹل ازم اور کمیونزم نے بھی ان سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن جیسے مذاہب میں انسان، حیات، اور کائنات کے تصور کو لیکر مختلف نظریات پائے جاتے ہیں، ان آئیڈیالوجیز کا انسان، حیات، اور کائنات کا تصور بھی ایک دوسرے سے متضاد ہے۔ تو یہاں یہ بات تو واضح ہے کہ انسان، حیات، اور کائنات کا جو تصور معاشرہ ہمیں دیتا ہے ضروری نہیں وہ درست ہو۔ اور اگر معاشرے کے دیے گئے تصور میں امکان ہے کہ وہ غلط بھی ہوسکتا ہے تو پھر ان سوالوں کے جواب کہاں سے حاصل کیے جائیں؟؟؟ کیسے فیصلہ کیا جائے کہ معاشرہ مجھے جو انسان، حیات، اور کائنات کے بارے میں تصور دے رہا ہے، وہ درست ہے یا غلط؟؟

کیا ہمیں اپنے عقائد پر سوال اٹھانے کا خوف ہے؟
ذرا سوچیے کہ اگر ایک انسان یہ کہے کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی سواری کس سمت اور کس مقام پر جا رہی ہے، بس جس سواری میں دل کیا بیٹھ جاؤ۔ تو کیا آپ اس شخص کی بات مانتے ہوئے، بنا منزل کے بارے میں سوچے، منہ اٹھا کر کسی بھی سواری میں بیٹھ جائیں گے؟ اگر ایک شخص کو پتوکی جانا ہے تو وہ پتوکی کی بس میں اس لیے نہیں بیٹھتا کہ وہ کھٹارا ہے اور کراچی کی لگژری بس میں بیٹھ جاتا ہے کیونکہ سفر بڑا آرام دہ اور پرآسائش ہے تو ہم میں سے کون ایسے شخص کو بے وقوف نہیں کہے گا؟ اسی طرح اگر آپ کو ہیلی کاپٹر پر بٹھا کر کہا جائے کہ آئیے آپکو مریخ پر لے چلیں تو کیا آپ یہ نہیں سوچیں گے کہ ایسا ممکن بھی ہے یا نہیں؟؟؟

اپنی روزمرہ کی زندگی میں سفر کرتے ہوئے ہم کئی بار اپنی ٹکٹ چیک کرتے ہیں، اور سواری پر سوار ہوتے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہم غلط سواری پر سوار نہیں ہوئے، اور یقین دہانی کرتے ہیں کہ جس سواری پر ہم سوار ہو رہے ہیں وہ واقعی ہماری مطلوبہ منزل تک پہنچائے گی۔ لیکن جب زندگی کے سفر کی بات آتی ہے، ہمارے مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ انسان کی پیدائش کا کیا مقصد ہے؟ اس کائنات کا انجام کیا ہوگا؟ جیسے سوالات غیر ضروری اور غیر متعلق کیسے ہو جاتے ہیں؟ کیسے ہم کسی بھی نظریے/عقیدے پر زندگی گزار لیتے ہیں؟؟

ہمیں اس دنیا میں کس نے اور کیوں بھیجا؟ ہمارے علاوہ باقی جاندار اور کائنات کے وجود کا کیا مقصد ہے؟ ہمارے مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ جیسے سوالات کا ہماری عملی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ اگر ہمارا عقیدہ ہے کہ ہم ارتقاء کا نتیجہ ہیں اور مادے سے بنے ہیں، اور مرنے کے بعد یہ مادہ ماحول میں ری سائیکل ہو جائے گا، تو ہمارا قصہ تمام۔ تو ایسے میں لازما ہمارے تمام اعمال اسی دنیا کی زندگی کو کامیاب اور خوشحال بنانے کے لیے ہوں گے۔ ہم یہ سوچ کر کوئی بھی کام کرنے سے نہیں کترائیں گے کہ جو ہے بس اسی دنیا میں ہے، تو چار دن کی زندگی کو عیش اور مزے میں گزاریں۔ لیکن اگر ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد پونر جنم ہوگا، اور اگلے جنم میں پچھلے جنم کے کرموں کا انجام بھگتنا ہے؟ یا ہمارا یہ ایمان ہے کہ مرنے کے بعد اپنے خالق کو اپنے ہر عمل کا حساب دینا ہوگا اور ان اعمال پر جزا اور سزا دی جائے گی، تو یقینا ہمارے اعمال صرف اسی دنیا کی زندگی کو بہتر بنانے پر فوکسڈ نہیں ہوں گے۔

کیونکہ “انسان، حیات اور کائنات کی پیدائش کا مقصد، اس سے پہلے کیا تھا، اور بعد کیا ہوگا” جیسے سوالات کا ہماری عملی زندگی اور انجام سے گہرا تعلق ہے، تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ جن عقائد/نظریات پر سوار ہو کر ہم زندگی کا سفر طے کر رہے ہیں، اس کی منزل کیا ہے؟ کیا مجھے کسی فریب کے ذریعے اس سواری میں تو نہیں بٹھایا گیا؟ اور جس منزل کا بتایا جا رہا ہے کہ کیا وہ ریشنلی ممکن بھی ہے یا نہیں؟

کسی ملحد یا تشکیک کا شکار ذہن کے سامنے یہ کہنا درست نہیں ہو سکتا کہ ایسے سوالات کا ہم مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں، یہ ملحدوں نے ہمارے ذہن میں ڈالے ہیں، یا یہ کہ ایسے سوالات کم ایمان اور اللہ پر یقین کامل نہ ہونے کا نتیجہ ہیں۔
جہاں تک اللہ کی ذات پر یقین کامل نہ ہونا اور ایمان کی کمزوری کی بات ہے تو کیا اللہ پر یقین اور ایمان ہوا میں پیدا ہوتا ہے یا یہ عقلی کوشش ہے؟

ابراہیم علیہ السلام ایسے معاشرے میں پیدا ہوئے جہاں بتوں کو پوجا جاتا تھا۔ انسان، حیات، اور کائنات کا جواب ان کے معاشرے نے یوں دیا کہ انھیں بتوں نے بنایا ہے، تو کیا ابراہیم علیہ السلام نے اس جواب کو قبول کر لیا؟ یا اس سوال پر سوچا کہ کیسے وہ بت انسان، حیات، اور کائنات کو بنا سکتے ہیں جن کو انسان اپنے ہاتھ سے بناتا ہے؟ ان کے اس غوروفکر کو اللہ رب العالمین نے بہت سراہا اور بطور مثال ہمارے سامنے رکھا۔

اگر ایک مسلمان نے زندگی میں ایک بار بھی سنجیدگی سے ان سوالات کے بارے میں نہیں سوچا اور اس سے متعلق تصورات/نظریات کو جانچنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس پر سوچنے کو گناہ سمجھ کر جس بھی معاشرے میں وہ پیدا ہوا، اس کے نظریات کو قبول کر لیا تو وہ اللہ پر کامل ایمان کی نشانی نہیں بلکہ معاشرے کے دیے گئے تصورات پر اندھے ایمان کی دلیل ہے۔ ایسے شخص کو اپنے انجام سے زیادہ اپنے آباؤ اجداد سے ملنے والے عقائد کو اپنانے اور اس کے دفاع کی فکر ہے، ایسے پیدائشی مسلمان کسی اور مذہب کے پیدائشی پیروکار سے کیسے مختلف ہیں؟

کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ تاریخِ انسانی میں ہمیشہ کسی نہ کسی خالق یا ہستی کی عبادت کیوں کی جاتی رہی ہے؟ قدیم تہذیبوں کے آثار بتاتے ہیں کہ ہر دور میں انسان کسی نہ کسی برتر ہستی کو مانتا آیا ہے، اس کے آگے جھکتا، دعا کرتا، اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتا اور اس کے قہر سے خوف کھاتا آیا ہے۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ اتنی طویل انسانی تاریخ میں کسی خالق یا طاقتور ہستی کے وجود کا انکار کبھی جڑ نہ پکڑ سکا۔

اس کی ایک بڑی وجہ انسان میں موجود جبلّتِ تعظیم ( (Instinct of Reverence) ہے۔ جبلّت یا انسٹنکٹ (instinct) کسی جاندار میں پیدائشی طور پر موجود وہ رجحان ہوتی ہے جو بیرونی ذرائع سے سیکھنے یا تجربے کے بغیر اس کے رویے کو متاثر کرتی ہے۔ جیسے اپنی جان کی حفاظت و بقا کی جبلّت (Survival Instinct) ہمیں خطرے کے وقت دفاع پر مجبور کرتی ہے، اور نسل کی بقا کی جبلّت (Procreational Instinct) ہمیں اولاد پیدا کرنے، اس سے محبت اور اس کی حفاظت پر ابھارتی ہے، اسی طرح انسان کے اندر ایک فطری میلان موجود ہے جو اسے کسی برتر ہستی کی تعظیم کی طرف مائل کرتا ہے۔

یہ جبلّت کسی خاص سماجی یا ثقافتی اثر کا نتیجہ نہیں، بلکہ فطری طور پر ہر انسان میں موجود ہے۔ اسی جبلّت کے مختلف مظاہر ہمیں ہر تہذیب، ہر قوم اور ہر معاشرے میں نظر آتے ہیں۔ انسان اس جبلت کو کئی طریقوں سے پورا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر:

۱۔ مذہبی عقیدت: لوگ اللہ، بھگوان، یسوع مسیح، سوپر نیچرل مخلوق، انبیاء، اولیاء اور مقدس کتابوں کی تعظیم کرتے ہیں، ان کے آگے جھکتے، دعا مانگتے اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔

۲۔ بزرگوں کا احترام: والدین، اساتذہ اور معاشرتی رہنماؤں کی عزت کرنا، ان کے آگے مؤدب رہنا بھی اسی جبلّت کا حصہ ہے۔

۳۔ قومی علامات کی توقیر: لوگ اپنے ملک کے پرچم کو سلام کرتے، قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہوتے اور شہداء کی قبروں پر جھکتے ہیں۔

۴۔ قائدین اور ہیروز کی تعظیم: عظیم رہنماؤں، سائنسدانوں، یا مشہور شخصیات کو عزت دینا اور ان کے خیالات کو فالو کرنا بھی جبلّتِ تعظیم کا ایک مظہر ہے۔

یہ جبلّت انسان کی فطرت میں اس حد تک رچی بسی ہے کہ اگر وہ حقیقی برتر ہستی (یعنی اللہ سبحان تعالی) کی تعظیم نہ کرے، تو وہ کسی اور چیز کو برتر ماننے لگتا ہے۔ کچھ لوگ بتوں، بھگوان، یا مذہبی اور روہانی پیشواؤں کی عبادت کرتے ہیں، جبکہ کچھ پیسے، طاقت، شہرت، یا مشہور شخصیات کے آگے جھکتے ہیں۔ یہاں تک کہ جدید دور میں کچھ لوگ سائنس، نظریات، یا سیاسی رہنماؤں کو تقریباً مذہبی عقیدت کے ساتھ مانتے ہیں۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگ مشہور گلوکاروں، اداکاروں، اور کھلاڑیوں کے پیچھے پاگل ہو جاتے ہیں، ان کے کنسرٹ میں شرکت کے لیے میلوں سفر کرتے ہیں، اور انہیں دیکھ، سن کر جذباتی ہو کر روتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے کوئی ہندو یاترا میں جاتا ہے اور بھجن سن کر روتا ہے۔

یہ جبلّت ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کی تصدیق نہ صرف تاریخ سے ملتی ہے جہاں ہر دور میں انسان نے کسی نہ کسی کو برتر مانا ہے، چاہے وہ دیوتا ہوں، بادشاہ، نظریات، یا قومی علامتیں۔ اگر یہ جبلّت نہ ہوتی، تو دنیا میں کبھی کوئی مذہب، فلسفہ، یا قیادت کا نظام پروان نہ چڑھتا۔ ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ کے مطابق، مذہب اور برتر ہستی کا تصور انسانی لاشعور (Subconscious) میں گہرائی سے جڑا ہوتا ہے، کیونکہ انسان اپنی کمزوریوں اور خوف کی وجہ سے کسی اعلیٰ ہستی پر انحصار کرنا چاہتا ہے۔ ماہر نفسیات کارل یونگ کے مطابق برتر اور طاقتور ہستی کی تلاش انسان کی "Collective Unconscious" کا حصہ ہے۔ سماجیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر معاشرہ کسی نہ کسی درجہ بندی (Hierarchy) کو تسلیم کرتا ہے اور برتر شخصیات یا اداروں کی تعظیم کرتا ہے۔

یہی جبلّت وہ فطری احساس ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا: تم ہر باطل سے الگ ہو کر اپنا چہرہ اللہ کی اطاعت کے لیے سیدھا رکھو۔ (یہ) اللہ کی پیدا کی ہوئی فطرت ہے، جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا۔ (سورہ الروم آیت 30)

تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگرچہ جبلّتِ تعظیم ہمیں کسی برتر ہستی کو ماننے پر مجبور کرتی ہے، لیکن کیا ہم صرف اس جبلّت کے زیراثر اپنی عقیدت کا رخ درست سمت میں موڑ سکتے ہیں؟ کیونکہ جبلّتِ تعظیم کے زیراثر ہم جذباتی طور پر جس عقیدے کو اپناتے ہیں، وہ تو ہمیں بتوں، جانوروں، افسانوی مخلوقات کی پوجا، توہمات پر یقین، اور پیروں فقیروں کی اندھی تقلید پر مجبور کرتا ہے۔

تو کیا کسی ہستی کو محض اپنی جبلت کی تسکین کے لیے خدا، محافظ، اور ہدایت کا ذریعہ مان لینا درست ہے؟ اگر نہیں، تو پھر وہ کون سا ذریعہ ہے جو ہمیں ہماری پیدائش کا مقصد، انسان، حیات، اور کائنات کے وجود کی حقیقت، اس سے پہلے کیا تھا، اور اس کے بعد کیا ہوگا کا درست ادراک دے سکتا ہے؟ میرے نزدیک وہ ذریعہ عقل اور فکری تجزیہ (Rational Inquiry) ہے۔

اللہ تعالیٰ نے بارہا قرآن پاک میں عقل کے استعمال کا حکم دیا ہے، تاکہ ہم سچ اور جھوٹ میں فرق کر سکیں۔ خاص طور پر جب بھی “انسان، حیات، اور کائنات کی پیدائش کا مقصد، اس سے پہلے کیا تھا، اور بعد میں کیا ہوگا” کے متعلق بات آئی، تو اللہ سبحان تعالی نے ہمیں غور و فکر اور تدبر کا حکم دیا ہے۔ اسی لیے محض کسی برتر ہستی کے احترام کا جذبہ کافی نہیں، بلکہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ ہستی واقعی برتر ہے یا نہیں۔ ہم لاکھ کہہ لیں کہ ہم اللہ، اس کے رسول، اور روز آخرت پر ایمان لائے ہیں لیکن اگر یہ ایمان محض زبانی ہو، اور ہماری عملی زندگی میں نظر نہ آئے، تو یہ ایمان حقیقی نہیں بلکہ رسمی ہے۔۔ اس کو اللہ رب العالمین یوں فرماتے ہیں: اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے، حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں (البقرہ آیت 8 )

اگر ہم واقعی اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لائے ہوتے، تو یہ عقیدہ ہماری عملی زندگی میں ظاہر ہوتا۔ مگر ہمارا ایمان زیادہ تر جذباتی یا جبلّتِ تعظیم کی تسکین کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ عقلی بنیاد پر۔ ہم زبان سے اللہ تعالی کو مانتے ہیں، مگر عمل میں کسی سیکولر سے مختلف نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے، تو ہم جذبات میں آ کر اللہ سبحان تعالیٰ کا انکار یا نافرمانی کر بیٹھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے رسمی ایمان کو ناپسند کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟ اللہ کے نزدیک یہ بات سخت ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں۔ (سورہ الصف آیت 2-3)

لہٰذا ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ جذباتی ایمان یا جبلّتِ تعظیم ہمیں سچائی تک نہیں لے جا سکتی۔ ہمیں عقل اور استدلال کی روشنی میں یہ جانچنا ہوگا کہ حقیقت کیا ہے؟

کیا صرف دماغ (brain) حقیقت جاننے کے لیے کافی ہے؟
اگر ہم نے یہ جان لیا ہے کہ یہ بنیادی سوالات صرف جبلّتِ تعظیم کی مرہون منت رہ کر حل نہیں ہو سکتے، تو پھر ہمیں ان کا جواب تلاش کرنے کے لیے عقل کا سہارا لینا ہوگا۔ یعنی محض جبلت و جذبات ہمارے اندر کسی بڑی/طاقتور ہستی کو تلاش کرنے کا جوش تو پیدا کر سکتے ہیں، لیکن وہ طاقتور ہستی کون ہے؟ اور کیا وہ ہستی عبادت، پیروی، اور تعظیم کے لائق ہے؟ جبلت ہمیں یہ نہیں بتا سکتی۔ یہ معلوم کرنے کے لیے ہمیں گہری سوچ، مطالعہ، اور دلیل کی ضرورت ہے۔ اور وہ دلیل حاصل کرنے کے لیے ہمیں عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے: کیا ہر وہ چیز جو بظاہر "عقلی" (rational) نظر آتی ہے، واقعی عقلی بنیاد پر استوار بھی ہوتی ہے؟ کیا یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ عقل کیا ہوتی ہے؟ یا صرف یونانی منطق کو عقل مان لیا گیا ہے؟ عقل استعمال کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی سوچ (thought) اور کسی شے کے بارے میں تصور و تفہیم کیسے پیدا ہوتی ہے؟ کیا یہ بنیاد پہلے حل کر لی گئی ہے؟ نہیں! ہم ان بنیادوں کو طے کئے بغیر لفظوں کے گنجل میں پھنسنے کو عقل کہتے ہیں۔ کیسے؟ آئیے سمجھتے ہیں۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص نہایت اعتماد اور چالاکی کے ساتھ، خوبصورت الفاظ میں کوئی بات بیان کرتا ہے تو اس کی بات سن/پڑھ کر لگتا ہے کہ یہ شخص کیا کمال عقل رکھتا ہے! مگر جب غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ شخص محض الفاظ کا جال بُن رہا ہے۔ اگرچہ ہم فوری طور پر وضاحت نہ کر سکیں کہ اس میں خرابی کیا ہے۔ مگر ہمارا ذہن فوراً خبردار کر دیتا ہے کہ اس شخص کی گفتگو کسی عقلی بنیاد پر نہیں کھڑی، صرف الفاظ کا ہیر پھیر ہے۔ اسی طرح، ہر وہ چیز جو دماغ میں پیدا ہوتی ہے، ضروری نہیں کہ وہ عقلی ہو۔ جذبات، مفروضے، تخیلات، تکے، اور خواہش پسند سوچ (wishful thinking) بھی دماغ میں پیدا ہوتے ہیں، مگر کیا ہر ذہنی سرگرمی کو "عقل" کہا جا سکتا ہے؟ کیونکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ ہمارے دماغ کے لیے عقل استعمال کرنے کے علاوہ بھی بہت سے کام ہیں۔

تو ذرا رک کر سوچیے، کیا ہم جس کو عقل استعمال کرنا سمجھتے ہیں وہ کچھ اور تو نہیں؟ جیسے منطق (logic) کا استعمال! اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ منطق کا استعمال شاید عقل استعمال کرنے کے مترادف ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ منطق تو در اصل عقل سے حاصل ہونے والے نتائج کی جانچ پرکھ کے بہت سے طریقوں میں سے صرف ایک طریقہ ہے، جو یونانیوں نے ایجاد کیا۔ یہی وجہ ہے کہ منطق ہر فیلڈ میں درست نتائج نہیں پیدا کرتا۔ مثال کے طور پر، "منطقی استدلال" (logical reasoning) کمپیوٹر سائنس اور الیکٹرانکس میں بہترین نتائج دیتا ہے، مگر روزمرہ کی زندگی میں اگر ہر چھوٹے بڑے مسئلے کو اسی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی جائے تو ہولناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ کیسے؟ آئیے اس مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں۔

آپ جانتے ہیں کہ:
۱۔ اگر “بجلی کا سرکٹ مکمل ہو، تو ہی کرنٹ گزرے گا۔” ورنہ نہیں۔
۲۔ اب کسی دن آپ نے دیکھا آپ کے گھر میں ایک جگہ “بجلی کی تار کٹی ہوئی ہے۔”
۳۔ تو آپ فوراً نتیجہ نکالتے ہیں کہ کرنٹ یہاں سے آگے نہیں جا سکتا۔”

اب آپ سوچنے کا یہ انداز اپنی روزمرہ کی زندگی میں اپنائیں تو تصور کریں کہ کیا ہو گا۔ جیسا کہ یہ مثال لیں:
۱- "بدتمیزی کرنا برے انسان کی نشانی ہے۔"
۲- "میرے دوست نے مجھ سے بدتمیزی کی۔"
۳- "لہٰذا، میرا دوست ایک برا انسان ہے!"

اب آپ فورا کہیں گے کہ ایسے معاملات میں منطقی استدلال غلط ہو سکتا ہے، کیونکہ انسان بجلی کے سرکٹ کی طرح سیدھے اصولوں پر نہیں چلتے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کا دوست کسی پریشانی یا کسی دباؤ (stress) میں ہو اور اس وجہ سے غصے میں بات کر رہا ہو، اس کی نیت بری نہ ہو، بس الفاظ غلط استعمال کر گیا ہو۔ تو ایسی بہت سی مثالوں کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر صورتحال میں ایک ہی طریقہ سے سوچنا غلط نتائج تک لے جاتا ہے۔ لہٰذا، قبل اس کے کہ میں آپ کے سامنے ان سوالات کا عقلی استدلال پیش کروں، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ عقل ہوتی کیا ہے؟ یہ کیسے کام کرتی ہے؟ اور عقل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سوچ (thought) کیا ہوتی ہے؟ اور کیوں ہر ذہنی سرگرمی عقلی نہیں ہوتی؟ آئیے چند مزید مثالوں سے دیکھتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں عقل (reason) اور سوچ/فکر (thought) کو سمجھنے میں کیا غلطیاں کی گئیں اور یہ سوالات حل کرنا کیوں ضروری ہے۔

جب انسان نے “انسان، حیات، اور کائنات کی پیدائش کا مقصد، اس سے پہلے کیا تھا، اور ان کے بعد کیا ہوگا” کے متعلق جاننے اور سچ کی تلاش کرنے کی کوشش کی، تو اس نے کئی مختلف راستے اختیار کیے۔ ان میں سب سے نمایاں چار راستے یہ تھے:
۱- یونانی فلسفہ (Greek Philosophy)
۲- منطقی استدلال (Logical reasoning)
۳- علم الکلام (Ilm al-Kalam)
۴- جدید سائنسی طریقہ کار (Scientific Method)
بدقسمتی سے، یہ تمام راستے حقیقت تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کیوں۔

یونانی فلسفی وہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے عقل کے ذریعے انسان، حیات، اور کائنات کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے سچ تک پہنچنے کے لیے عقل کو سب سے اعلیٰ معیار سمجھا، مگر انہوں نے حقیقت (reality) کو محسوس کرنے کے بجائے محض قیاس آرائیوں (speculations) پر انحصار کیا۔ یعنی انہوں نے فرض کر لیا کہ دماغ تنہا حقیقت کو جاننے کے لیے کافی ہے، اور عقلی طور پر سچ تک پہنچنے کے لئے کسی چیز کے حواس میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ "حقیقت کو محسوس کرنے" سے کیا مراد ہے اور کسی چیز کا "حواس میں آنا" عقل سے کیا تعلق رکھتا ہے؟ تو آئیے اس بات کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔

اگر میں آپ سے یہ سوال پوچھوں کہ میں یہ مضمون کس جگہ بیٹھ کر لکھ رہی ہوں تو کیا آپ بتا سکتے ہیں؟ بے شک آپ سب کا دماغ اس وقت آپ کی کھوپڑی میں موجود ہے۔ اور اگر صرف دماغ ہی عقلی نتیجے تک پہنچنے کے لئے کافی ہے، تو بتائیے کہ میں یہ مضمون کہاں بیٹھ کر لکھ رہی ہوں؟

اب جو مجھے جانتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ یہ مضمون لکھتے وقت یا تو میں اپنے ہاسٹل کے کمرے میں ہو سکتی ہوں، یا لیب، یا کسی ٹرانسپورٹ میں۔ لیکن یہ صرف تکا یا قیاس (guesswork) ہوگا— درحقیقت کوئی بھی درست جواب تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ مجھے اپنی آنکھوں سے براہ راست یا ویڈیو کال کے ذریعے نہ دیکھ سکے۔ اگر صرف دماغ ہی حقیقت جاننے کے لیے کافی ہوتا، تو آپ کو فوراً معلوم ہو جاتا کہ میں کہاں بیٹھی ہوں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سچ تک پہنچنے کے لئے دماغ (brain) کے علاوہ بھی کچھ درکار ہے۔

لیکن یہی سوال مجھ سے پوچھا جائے کہ میں یہ مضمون کس جگہ بیٹھ کر لکھ رہی ہوں، تو میں آسانی سے اور درست بتا سکتی ہوں، کیونکہ میری سراؤنڈنگ میرے حواس میں آ رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، جو چیز میرے حواس میں آ رہی ہے، وہ میرے لیے "حقیقت (reality) ہے۔ اب فرض کریں کہ بجلی چلی گئی اور مجھے آنکھوں سے کچھ نظر نہیں آرہا، تب بھی میں اپنے دوسرے حواس— لمس، سماعت، نیویگیشن— کی مدد سے اپنی لوکیشن کا اندازہ لگا سکتی ہوں۔ لیکن کیونکہ میری سراؤنڈنگ آپ کے حواس کے مشاہدے میں نہیں آ رہی، اس لیے آپ لاکھ ذہین کیوں نہ ہوں، آپ کا دماغ اکیلا درست نتیجہ نکالنے سے قاصر ہو گا، اور آپ محض educated guess یا تکے لگائیں گے۔ اور آپ کی عقل تب تک کام نہیں کرے گی جب تک کہ میری سراؤنڈنگ آپ کے حواس یا جانچ میں استعمال ہونے والے ٹولز (کیمرہ، مائیکروسکوپ، ٹیلی سکوپ، ریڈی ایشن ڈیٹیکٹر، وغیرہ) کے مشاہدے میں نہ آجائے دوسرے لفظوں میں میری سراؤنڈنگ آپ کی ریالٹی نہ بن جائے۔

یہی غلطی یونانی فلاسفروں سے ہوئی کہ انہوں نے اسی "حقیقت کی جانچ" کے پہلو کو نظرانداز کر دیا تھا، جس کی وجہ سے وہ عقل کی بنیاد پر سچائی تک پہنچنے کے بجائے قیاس آرائیوں میں الجھ گئے۔ اور ہوائی قلعے گھڑنے لگے۔ مثلاً، افلاطون (Plato) نے کہا کہ یہ دنیا حقیقت نہیں، بلکہ اصل حقیقت "مثالی دنیا" (World of Forms) میں ہے، جسے ہم محسوس نہیں کر سکتے۔ یعنی، جو کچھ ہمارے سامنے ہے، وہ حقیقت نہیں بلکہ اصل حقیقت کہیں اور ہے، جسے ہم جان ہی نہیں سکتے۔ یہ کہنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ "جو پانی ہم پیتے ہیں، وہ اصل پانی نہیں، بلکہ پانی کا ایک عکس ہے۔ اصل پانی کہیں اور موجود ہے، مگر وہ ہمارے حواس میں نہیں آ سکتی۔ ایک اور مثال کہ آپ آئینے میں اپنا عکس دیکھیں اور یہ سوچیں کہ "اصل میں جو میں دیکھ رہا ہوں، وہ حقیقت نہیں، بلکہ حقیقت کہیں اور موجود ہے، جو میرے حواس میں نہیں آ سکتی!

اب آپ خود سوچیں، ایسے سوچنے کے طریقے سے حقیقت تک پہنچنے میں کیسے مدد دے سکتی ہے؟

اسی طرح ارسطو (Aristotle) کا خیال تھا کہ “ عورتیں مردوں سے کمزور اور کمتر ہیں، کیونکہ ان کے دانت کم ہوتے ہیں۔” اس نے اس بات کو بغیر کسی عورت کے دانت گنے (حواس کے ذریعے مشاہدہ کئے) محض دماغ میں آنے والے خیال کی بنیاد پر درست مان لیا۔ اسی طرح ارسطو کا کہنا تھا کہ “سوچنے کے لئے دل، دماغ سے زیادہ اہم ہے۔ دماغ صرف خون کو ٹھنڈا کرنے کا ایک عضو ہے، جبکہ سوچنے اور جذبات پیدا کرنے کا اصل مرکز دل ہے۔” یعنی اس نے محض دماغ میں اٹھنے والے خیال کو بغیر حواس کے مشاہدے کے درست مان لیا۔ اگر وہ یہ دیکھتا کہ پاگل انسان درست سوچنے سے قاصر ہوتے ہیں جبکہ انکے دل میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ تو شاید دل کو سوچنے کا مرکز نہ قرار دیتا۔

اسی طرح زینو (Zeno) نے کہا کہ حرکت (motion) حقیقت میں ممکن نہیں!" اس نے دلیل دی کہ "اگر کوئی چیز اپنی منزل تک پہنچنا چاہتی ہے، تو اسے پہلے اپنی نصف (half) منزل طے کرنی ہوگی، پھر باقی فاصلے کا آدھا، پھر اس آدھے کا آدھا، اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ لہٰذا، حقیقت میں حرکت ممکن نہیں!" یہ بات سننے میں زبردست لگتی ہے، مگر حقیقت میں غلط ہے! اگر حرکت ممکن نہ ہوتی تو ہم چل نہ سکتے، گاڑیاں نہ چل سکتیں، دنیا میں کوئی سفر ممکن نہ ہوتا۔ یعنی زینو کا مغالطہ محض دماغ میں سوچا گیا خیال تھا، جسے اس نے حقیقت میں پرکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

یونانی فلسفہ حواس کی ذریعے سے ریالٹی/حقیقت کا مشاہدہ کئے بغیر "تخیلات" پر چل رہا تھا۔ اس لئے وہ خیالی دنیا میں الجھ گیا، اور حقیقت تک پہنچنے میں ناکام رہا- یہی وجہ ہے کہ ان کے نظریات آج تک بحث و مباحثے کا حصہ تو ہیں، مگر وہ انسان، کائنات، اور زندگی کے مقصد کا کوئی حتمی جواب دینے میں ناکام رہے۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے: اگر یونانی فلسفہ ناکام ہوا، تو پھر ہمیں کس طریقے سے سوچنا چاہئے۔ اگلی تحریروں میں، ہم باقی تین طریقوں پر بات کریں گے اور جاننے کی کوشش کریں گے کہ:
۱- منطقی استدلال کہاں ناکام ہوا؟
۲- علم الکلام میں کیا خامیاں تھیں؟
۳- کیا سائنسی طریقہ حقیقت تک پہنچنے میں کامیاب رہا؟

Comments

Avatar photo

عائشہ نورین

عائشہ نورین سنگاپور میں مقیم ہیں۔ میڈیسن میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ زندگی کا بیشتر حصہ سائنس اور طبی تحقیق میں گزرا ہے۔ انسان، حیات اور کائنات کی پیدائش کے مقصد جیسے بنیادی حل طلب سوالات کی جستجو میں رہتی ہیں۔ منطق، فلسفہ اور استدلال کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، اسے تقلید بلکہ اندھی پیروی سمجھتی ہیں۔ اس کھوئی ہوئی عقل کی تلاش کی جستجو ہے، جو صرف کتابی دلائل میں نہیں، بلکہ حقیقت کے براہِ راست مشاہدے میں پوشیدہ ہے۔

Click here to post a comment