برکت ایک روحانی شے ہے۔ اس کا مادیت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگرچہ اس کا ظہور مادی اشیاء میں ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ جان، مال اور اولاد میں برکت کی دعا مانگی جاتی ہے، اور یہ سب مادی چیزیں ہیں۔ مگر خود برکت سراسر روحانی چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا سوال انسان یا کسی اور مخلوق سے نہیں کیا جاتا۔ کوئی دوسرے سے یوں نہیں کہتا کہ مجھے تھوڑی یا زیادہ برکت دے دو۔
برکت کا تعلق روحانیت سے ہے اور روحانیت روح سے متعلق ہے اور روح امر ربی ہے۔ چنانچہ برکت کا منبع اللہ کی ذات ہے۔ اس لیے اسی سے برکت کا سوال کیا جاتا ہے اور اسی کی طرف سے برکت ملتی ہے۔
برکت چونکہ نری غیرمادی چیز ہے، اس لیے یہ اُس عقل کو سمجھ نہیں آتی جو صرف اسی شے کو تسلیم کرتی ہے جو حواس کے دائرے اور تجربے میں آئے۔ اسے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ دودھ کا ایک گلاس متعدد افراد سیر ہو کر کیسے پی سکتے ہیں؟ یا قمیص کے چہرے پر ڈالنے سے کسی کی بینائی کیسے واپس آسکتی ہے؟ یا ظاہری مادی اسباب کے بغیر یا ان کی انتہائی قلت کے ساتھ کوئی کیسے مطمئن اور سکون بھری زندگی گزار سکتا ہے ؟ یا صدقات و خیرات سے مال بڑھ کیسے جاتا اور سود وغیرہ سے گھٹ کیسے جاتا ہے؟
برکت کا معنی پائیداری اور بڑھوتری کے ہیں۔ جب ایک چیز میں برکت آتی ہے تو وہ قلیل ہو کر بھی کافی وافی ہوجاتی ہے۔ مقدار میں کم ہونے پر بھی زیادہ افراد اس سے فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔ اس میں پائیداری اور مضبوطی ہوتی ہے۔ وہ نقصان سے محفوظ رہتی ہے۔ مال میں برکت کا ایک معنی یہ ہے کہ وہ صاحب مال کو فائدہ دے گا۔ بےمقصد، بےفائدہ اور فضول کاموں میں ضائع نہ ہوگا۔ اولاد میں برکت کا یہ مطلب بھی ہے کہ وہ نیک و فرماں بردار ہوگی۔ والدین کی خدمت گزار اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گی، ان سے آگے نیک نسل چلے گی۔
برکت کا مطلب کثرت نہیں ہے، بلکہ اکثر اسے کثرت کی ضد کے طور پر بولا جاتا ہے۔ سیانے لوگ کہتے ہیں کہ کثرت نہیں برکت کے طالب بنو۔ اس دور کا ایک المیہ یہ بیان کیا جاتا ہے ہے ہر چیز کی کثرت تو ہو گئی ہے، مگر برکت اٹھ گئی ہے۔
اگر مال و اسباب، ساز و سامان، تعلقات وغیرہ سب ہے مگر ان سب کے باوجود مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ دل کا سکون اٹھا ہوا ہے۔ روز نئی سے نئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ تو اس کا مطلب کثرت تو ہے مگر برکت نہ دارد۔ برکت کثرت کے ساتھ جمع بھی ہو سکتی ہے، مگر برکت کا سبب کثرت نہیں۔ یہ ایک عطائے ربی ہے جو کسی کو بھی عطا ہو سکتی ہے۔
برکت چونکہ ایک روحانی چیز ہے، اس لیے اس کا وجود روحانی اعمال میں ہوتا ہے۔ روحانی اعمال وہ ہوتے ہیں جو ہم روح اور اس کی تسکین کےلیے انجام دیتے ہیں۔ ان اعمال سے کوئی مادی غرض یا مفاد وابستہ نہیں ہوتا۔ اس لیے اگر کوئی شخص ایک بظاہر روحانی عمل کو مادی غرض سے انجام دیتا ہے تو وہ روحانی نہیں رہتا بلکہ مادی بن جاتا ہے۔ جیسے تلاوت قرآن کے عمل کا تعلق سراسر روح اور خدا سے ہے، اب اگر کوئی شخص یہ عمل کسی مالی معاوضہ کےلیے انجام دے تو وہ روحانی اور اخروی نہ رہے گا بلکہ مادی اور دنیاوی بن جائے گا۔
الغرض برکت کا تعلق روح اور خدا سے ہے اور یہ روحانی اعمال میں پائی جاتی ہے۔ جو جس قدر زیادہ اور اچھے طریقے سے یہ اعمال انجام دے گا، اس کی جان، مال اور اعمال میں اسی قدر برکت ہوگی۔ چنانچہ اللہ کے پاک پیغمبر روحانیت کے اعلی درجے پر فائز ہوتے ہیں اور دوسری طرف ان کی زندگیوں میں برکت بھی انتہا درجے کی ہوتی ہے۔ اسی طرح درجہ بہ درجہ دیگر اولیاء اللہ کا حال ہے۔
تبصرہ لکھیے