ہوم << راستے جدا ہیں، اب ہم کبھی نہ ملیں گے- کبرٰی رسول

راستے جدا ہیں، اب ہم کبھی نہ ملیں گے- کبرٰی رسول

تابِ بیان بھی نہیں شاید کہ اذن سخن بھی نہیں۔ ابتدا کا سلیقہ بھی نہیں، انتہا کا قرینہ بھی نہیں۔ میرے ہاتھ میں کچھ ایسا ہنر بھی نہیں کہ لفظ درد کی دوا بنیں یا زخموں کی ردا۔ بے بسی سی بےبسی ہے، کچھ کہنا چاہوں اور کہہ نہ سکوں۔

اک دیا اور بجھا اور بڑھی تاریکی۔ آسمان تاروں سےخالی ہو رہا ہے اور چاند جیسے چاندنی سے الگ ہو بیٹھا ہے. چراغ بجھے جاتے ہیں اور تاریکی گہری اور گہری ہوتی جاتی ہے۔ عربی ادب کی بہترین کتاب "مقاماتِ حریری " میں لکھا ہے
"میرا توشہ دان خالی تھا ام موسیٰ کے دل کی طرح"
ہاں دل خالی ہو ہی جاتے ہیں، یوں خالی کہ پھر خلا بھرنے میں نہیں آتے۔ سورہ کہف میں حضرت موسیٰ نے خضر سے کہا۔
ھذا فراق بینی و بینک یہاں سے راستے جدا ہیں اب ہم کبھی نہ ملیں گے۔

ہاں یہ حقیقت ہے کہ اب کبھی نہ ملیں گے اور حقیقتیں تو تلخ ہی ہوتی ہیں۔ تلخ اتنی کہ پینے سے زباں جلتی تھی۔ اور پھر ہم یہ تلخی گھونٹ گھونٹ پیتے رہتے ہیں یہاں تک کہ خاک میں جا ملتے ہیں۔

یہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے نہ آخری مسکن۔ یہاں جو بھی آیا اسے لوٹ کر جانا ہے۔ نہ یہاں کسی کے حصےدوام آیا نہ ہمیشہ کا قیام۔ یبقی وجہ ربک ذو الجلال والاکرام۔
خرچ کرتے کرتے نقدی تمام شد، بس پھر کوچ کا نقارہ بج اٹھا۔ دروازے پہ اک آخری دستک ہوئی اور پیام اجل کو لبیک کہنے کا حکم بھی۔ رخشِ عمر تھم گئی اور زندگی آخری منزل کے پہلے کنارے پہ جا لگی۔

ہمیں کیا برا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا

جانےوالوں کو آواز دینے کا تکلف بھی کریں تو کیا۔ انھیں کون سا مان رکھ لینا ہے سو چپ ہی سادھ لیں کہ بھرم رہ جائے۔ جس کا نام پکارا گیا، وہ اٹھا اور پا بہ رکاب چل دیا کہ جانا ٹھہر گیا، اب رکنا محال تھا.
قافلے والے روکتے رہ گئے کہ سفر باقی ہے، ہمارے ساتھ رہو۔۔۔کچھ دور تک سہی ساتھ تو چلو۔ نگاہیں ملتجی ہیں کہ دیکھو بیچ منجدھار کے نہ چھوڑو، پر اس کا سفر تو مکمل ہو چکا۔اس کی آنکھوں میں اگلے جہان کی داستان لکھ دی گئی۔۔ وہ جو زبانِ حال سے ادا نہ ہوئی کہ

نے ہاتھ باگ پر ہے
نہ پا ہے رکاب میں

اسے جانا ہی تھا۔ ہم راہ میں کھڑے رہے اور وہ سامنے سے گزر گیا اس نے پیچھے پلٹ کر دیکھا نہ پیچھے والوں کا چہرہ اور خسارہ ۔ یہ بھی ممکن نہیں رہتا ہم بات کریں کہ سنتا کون ہے۔ ہم تو بس چپ چاپ ہجر کی آگ تاپنے لگ جاتے ہیں۔ جدائی کی فصلیں ہاتھوں ہاتھ کاٹنے لگتے ہیں اور جنگل جیسے گھر کی دیواروں سے آن لگتا ہے ہم کھڑکیاں اور دروازے کھول رکھتے ہیں مگر
جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے
پھر ہم کسی کے نہیں رہتے، بس انھی کے ہو جاتے ہیں جو ہمارے درمیان نہیں رہتے، وہ ہمارے اندر بکل مار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ غم دلوں کو لگ جائیں تو لگے رہتے ہیں، انھیں کھائے جاتے ہیں۔۔

غم دل کو کھا رہا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے

اور عمر طویل ہو یا قلیل اس کا کاسہ خالی ہو ہی جاتا ہے، اس میں پڑے سکے ایک ایک کر کے گرتے جاتے ہیں اور فنا کا جام بھر جاتا ہے۔ اپنوں سے جدائی کا دکھ دائمی ہوتا ہے۔ یہ خلا کبھی نہیں بھرتا ، دل قطرہ قطرہ پگھلتا ہے اور ہجر آنکھوں سے بہتا ہے، کبھی چہرے سے جھلکتا ہے۔ ہر لمحہ یہ احساس جاگتا ہے کہ ہم یکدم چھاؤں سے کڑی دھوپ میں آ گئے ہیں۔ ایسے صحرا میں پہنچ گئے ہیں جہاں ریت کے طوفان ہیں اور جدائی کے درد ہماری جڑیں تک ہلا گئے ہیں۔

نہیں دور دور سایہ
کہاں اپنا سر چھپائیں

یہ احساس ماں باپ کے بچھڑ جانے اور پیاروں کے ساتھ چھوڑ دینے پہ ہوتا ہے، تب پتا چلتا ہے کہ وہ ہمارے لیے مضبوط سائبان تھے، وہ کمزور جسم بھی جیسے ہر مشکل میں ہمارے سامنے چٹان تھے۔ وہ تھے تو جیسے دکھ دِکھتا نہ تھا کانٹا چبھتا نہ تھا۔ ان کے بعد دل دکھا دکھا سا ، حال بجھا بجھا سا۔ خارِ مغیلاں سے پاؤں بھرے رہتے ہیں اور آبلے پھوٹ پھوٹ کر بہتے ہیں۔ہم وہ نہیں رہتے جو ہوتے ہیں ہم ایسے ہو جاتے ہیں جیسے نہیں ہوتے۔

دنیا میں رہنا اور پھر دنیا سے چلے جانا، دو متضاد باتیں ہیں لیکن جب ہمارے اپنے دنیا سے چلے جاتے ہیں تو دنیا میں ہم بھی نہیں رہتے۔ کبھی قبرستان سے ڈرا کرتے تھے اب نہیں ہے ایسا، اب ڈرکیسا، اب تو وہ دل کے مکینوں کے مکان ہیں، آنا جانا لگا رہتا ہے۔ سانس باقی ہے، ملنے کی امید بھی ہے، اسی اک اور جہاں میں،افق کے اس پار، جا ملیں گے ان سے سینہ چاک لیے ہوئے۔

کہنے کو اور کچھ بھی نہیں۔ چلے جا رہے ہیں وہاں تک ، جہاں تک زندگی لے چلے۔ وہاں رک جائیں گے جہاں وہ اذنِ رہائی دے۔ قیام گاہ وہی جسے باغِ بہشت کہتے ہیں۔ جہاں ہمارے پیارے رہتے ہیں ان شاءاللہ۔
اللھم اغفر لھم وارحمھم