تابِ بیان بھی نہیں شاید کہ اذن سخن بھی نہیں۔ ابتدا کا سلیقہ بھی نہیں، انتہا کا قرینہ بھی نہیں۔ میرے ہاتھ میں کچھ ایسا ہنر بھی نہیں کہ لفظ درد کی دوا بنیں یا زخموں کی ردا۔ بے بسی سی بےبسی ہے، کچھ کہنا چاہوں اور کہہ نہ سکوں۔
اک دیا اور بجھا اور بڑھی تاریکی۔ آسمان تاروں سےخالی ہو رہا ہے اور چاند جیسے چاندنی سے الگ ہو بیٹھا ہے. چراغ بجھے جاتے ہیں اور تاریکی گہری اور گہری ہوتی جاتی ہے۔ عربی ادب کی بہترین کتاب "مقاماتِ حریری " میں لکھا ہے
"میرا توشہ دان خالی تھا ام موسیٰ کے دل کی طرح"
ہاں دل خالی ہو ہی جاتے ہیں، یوں خالی کہ پھر خلا بھرنے میں نہیں آتے۔ سورہ کہف میں حضرت موسیٰ نے خضر سے کہا۔
ھذا فراق بینی و بینک
یہاں سے راستے جدا ہیں اب ہم کبھی نہ ملیں گے۔
ہاں یہ حقیقت ہے کہ اب کبھی نہ ملیں گے اور حقیقتیں تو تلخ ہی ہوتی ہیں۔ تلخ اتنی کہ پینے سے زباں جلتی تھی۔ اور پھر ہم یہ تلخی گھونٹ گھونٹ پیتے رہتے ہیں یہاں تک کہ خاک میں جا ملتے ہیں۔
یہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے نہ آخری مسکن۔ یہاں جو بھی آیا اسے لوٹ کر جانا ہے۔ نہ یہاں کسی کے حصےدوام آیا نہ ہمیشہ کا قیام۔ یبقی وجہ ربک ذو الجلال والاکرام۔
خرچ کرتے کرتے نقدی تمام شد، بس پھر کوچ کا نقارہ بج اٹھا۔ دروازے پہ اک آخری دستک ہوئی اور پیام اجل کو لبیک کہنے کا حکم بھی۔ رخشِ عمر تھم گئی اور زندگی آخری منزل کے پہلے کنارے پہ جا لگی۔
ہمیں کیا برا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا
قافلے والے روکتے رہ گئے کہ سفر باقی ہے، ہمارے ساتھ رہو۔۔۔کچھ دور تک سہی ساتھ تو چلو۔ نگاہیں ملتجی ہیں کہ دیکھو بیچ منجدھار کے نہ چھوڑو، پر اس کا سفر تو مکمل ہو چکا۔اس کی آنکھوں میں اگلے جہان کی داستان لکھ دی گئی۔۔ وہ جو زبانِ حال سے ادا نہ ہوئی کہ
نے ہاتھ باگ پر ہے
نہ پا ہے رکاب میں
جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے
پھر ہم کسی کے نہیں رہتے، بس انھی کے ہو جاتے ہیں جو ہمارے درمیان نہیں رہتے، وہ ہمارے اندر بکل مار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ غم دلوں کو لگ جائیں تو لگے رہتے ہیں، انھیں کھائے جاتے ہیں۔۔
غم دل کو کھا رہا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے
نہیں دور دور سایہ
کہاں اپنا سر چھپائیں
دنیا میں رہنا اور پھر دنیا سے چلے جانا، دو متضاد باتیں ہیں لیکن جب ہمارے اپنے دنیا سے چلے جاتے ہیں تو دنیا میں ہم بھی نہیں رہتے۔ کبھی قبرستان سے ڈرا کرتے تھے اب نہیں ہے ایسا، اب ڈرکیسا، اب تو وہ دل کے مکینوں کے مکان ہیں، آنا جانا لگا رہتا ہے۔ سانس باقی ہے، ملنے کی امید بھی ہے، اسی اک اور جہاں میں،افق کے اس پار، جا ملیں گے ان سے سینہ چاک لیے ہوئے۔
کہنے کو اور کچھ بھی نہیں۔ چلے جا رہے ہیں وہاں تک ، جہاں تک زندگی لے چلے۔ وہاں رک جائیں گے جہاں وہ اذنِ رہائی دے۔ قیام گاہ وہی جسے باغِ بہشت کہتے ہیں۔ جہاں ہمارے پیارے رہتے ہیں ان شاءاللہ۔
اللھم اغفر لھم وارحمھم
تبصرہ لکھیے