ہوم << انجینیر محمد علی مرزا، تجدد پسندی اور فرقہ واریت کی بحث - ڈاکٹر حسیب احمد خان

انجینیر محمد علی مرزا، تجدد پسندی اور فرقہ واریت کی بحث - ڈاکٹر حسیب احمد خان

ہر کبھی انجینیر محمد علی مرزا جیسے کردار کھڑے ہوتے ہیں اور پوری امت پر گمراہی کا الزام دھران شروع کردیتے ہیں. اور ان کا سب سے بڑا ہتھیار یہ ہوتا ہے کہ امت بحیثیت مجموعی فرقہ پرست ہے اور درحقیقت ان پر صحیح دین نازل ہوا ہے اور ان سے پہلے کے تمام مسلمان تو گمراہی میں پڑے ہوئے تھے .

اس تحریر میں ہم فرقہ واریت کی بنیادی تعریف کے ساتھ ساتھ تجدد پسندی کی نفسیات اور خاص محمد علی مرزا جیسے کرداروں کو جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔

اسلام مسلمان اور فرقہ واریت
اکثر ہوتا یہ ہے کہ ہم پہلے اپنے ذہن میں ایک آئیڈیل منظر تخلیق کرتے ہیں اور پھر اس منظر کی بنیاد پر ایک مقدمہ قائم فرماتے ہوۓ موجودہ پوری امت کو فرقہ پرست ثابت کر دیتے ہیں۔ مگر شاید ہم اس فطری امر سے واقف نہیں کہ جو چیزوں کو سمجھنے میں علمی اختلاف کے نتیجے میں واقع ہوا کرتا ہے اس فطری امر سے اختلاف کیا جانا ممکن نہیں آپ چاہے کتنی ہی افسانویت اور رومانویت کے شوقین کیوں نہ ہوں اختلاف تو ہوگا کہ ہر دو افراد اپنی اپنی افتاد طبع مزاج علمی صلاحیت اور ادوار کے مطابق آراء قائم کرتے آۓ ہیں اور کرتے رہیں گے۔

آراء و افکار کی ترویج شخصیات کی علمی اور روحانی صلاحیت اور معاشروں میں انکی اثر پذیری کی بنیاد پر ہوا کرتی ہے جو شخصیت جتنی بلند ہوگی اتنے ہی لوگ اس سے متاثر ہونگے اور اتنی ہی دیر تک اس کا اثر باقی رہے گا۔غور کیجئے کیا امام ابو حنیفہ رح یا ا مام مالک رح یا امام احمد بن حنبل رح یا امام شافعی یا ا بن تیمیہ رح نے کسی عالمی سازش کی بنیاد پر اپنی اپنی فقہ کو عوام میں مقبول یا رائج کروا یا کیا یہ ایک فطری عمل اور شخصی وجاہت اور علمی جلالت کے سبب نہ تھا بلکہ اس کے پیچھے کوئی سازش تھی ؟ دین کے کچھ امور واضح اور دو ٹوک ہوا کرتے:

١.اللہ ایک ہے اور اسکا کوئی شریک نہیں.
٢.محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں۔
٣. اسلام انسانیت کیلئے اللہ کا آخری اور مکمل ترین دین ہے۔
٤. اس کائنات کو ایک دن فنا ہو جانا ہے اور اسکے بعد یوم حساب ہے۔
٥.قرآن اللہ کا کلام اور اسکی آخری کتاب ہے۔

فرق اسلامی کی تاریخ کا جائزہ لیجئے تو پوری امت ہر دور میں ان تمام نکات پر متفق نظر آتی ہے اور انکی بابت کبھی کوئی اختلاف امت کی سطح پر موجود نہیں رہا اور جب کبھی کسی نے ان نکات پر اختلاف کی کوشش کی وہ امت سے باہر جا کھڑا ہوا۔لیکن دوسری جانب امت کے ابتدائی سیاسی معاملات یا دین کی مختلف تعبیرات یا پھر فقہی مستدلات کے حوالے سے پیدا ہونے والے اختلافات کا انکار کیسے کیا جا سکتا ہے جبکہ وہ تمام اختلافات دلیل کی بنیاد پر قائم ہوں۔ یہ بیانیہ ہی غلط ہے کہ مذہب کے اندر فرقے متعارف کرواۓ گئے یعنی آپ ان تمام شخصیات کو مذہب ساز قرار دے رہے ہیں کہ جو تاریخ اسلامی کے ہیرے ہیں۔

اس سے زیادہ عجیب ترین بات اور اس سے زیادہ شدید ترین الزام کیا اور کوئی ہو سکتا ہے ؟یعنی بیک جنبش قلم تمام موجود مسالک و مکاتب فکر کو اسلام سے باہر کھڑا کر دینا .خود نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے بعد خلافت کے عنوان پر ایک اختلاف رو نما ہوا گو کہ اس وقت کی صالحین کی جماعت نے اپنے اندر موجود خیر کی بنیاد پر اس اختلاف راۓ کو رفع فرما دیا لیکن۔کیا بعد کے دور میں خلافت راشدہ اور امامت بلا فصل کی بنیاد پر امت میں دو بڑے گروہوں اہل تسنن اور اہل تشیع نے جنم نہ لیا ؟ ایک جانب اہل سنت کا نظریہ خلافت ہے تو دوسری جانب اہل تشیع کا نظریہ امامت ہے.
جدید فکر ہر دو گروہوں کو اسلام سے باہر لا کھڑا کرتی ہے اور یہ سوچ اپنی فکر میں اتنی ہی تکفیری ہے کہ جتنی کسی بھی تکفیری گروہ کی ہو سکتی ہے۔

جب آپ کسی ایک گروہ سے سوال فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنے ساتھ سنی یا شیعہ کیوں لگایا تو آپ کے اندر اتنا صبر اور حوصلہ نہیں ہوتا کہ اس سوال کا جواب سننے سمجھنے یا جاننے کی کوشش کیجئے۔یہ کوئی فروعی مسئلہ نہیں بلکہ ایک اصولی اختلاف ہے جس کا مخصوص پس منظر اور تاریخ ہے چشم زدن میں اسکا رفع کر دیا جانا ایک ایسا واہمہ ہے کہ جس کا علاج شاید حکیم لقمان کے پاس بھی نہ ہو۔ضرورت تو اس امر کی ہے کہ بین المسالک ہم آہنگی کی بات ہو مکالمے کی فضاء پیدا کی جاوے لیکن مسالک کا ہی انہدام ایک ایسی فکر ہے کہ جس سے ایک نئے فساد کی بو آتی ہے۔

دوسری جانب غور فرمائیں اہل سنت کے اندر دو بڑے مکاتب فکر دکھائی دیں گے فقہاء اور ظواہر یا اہل الحدیث ہر دو گروہ اپنی اپنی اصولی بنیادیں رکھتے ہیں ایک کے نزدیک ظاہر الحدیث کے حکم پر قائم ہونا لازمی امر ہے تو دوسرے کے نزدیک استنباط کر کے حدیث کے کے حقیقی حکم تک پہنچنا ضروری ہے۔ ایک گروہ سے حفاظت حدیث کا کام لیا گیا تو دوسرے گروہ سے تدوین فقہ و اجتہاد کی خدمت لی گئی اور یہ ایک تکوینی امر تھا۔ اب عقل اس امر کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ ہر دو گروہوں کی دینی خدمات کو صرف اس وجہ سے فساد قرار دے دیا جاوے کہ ان کے درمیان فکری اختلاف تھا ۔

غور فرمائیں کہ اگر اس فکری اختلاف کا ظہور نہ ہوتا تو کیا الفاظ حدیث کی وہ معیاری حفاظت ہو سکتی تھی کہ جو مطلوب تھی یا جدید امور کے حوالے سے وہ اجتہادی روح بیدار ہو سکتی تھی کہ جسکی ضرورت تھی ۔اصول فقہ ہو یا اصول حدیث ہر دو شعبہ جات کی ابتدا انکا ارتقاء اور انکا درجہ کمال تک پہنچنا دراصل اہل الحدیث اور اہل الراۓ فقہاء کی محنتوں کا اجر ہے۔ مزید اس فطری پھیلاؤ کو سمجھنے کی کوشش کیجئے ۔ عراق میں بیٹھا ایک فقیہ دینی مسائل کے حوالے سے کچھ اصول قائم کرتا ہے دوسری جانب مدینے میں بیٹھا ایک دوسرا فقیہ کچھ دوسرے اصول پیش کرتا ہے ہر دو کی علمی جلالت اور قوت استدلال سے عوام نہیں بلکہ علماء متاثر ہوتے ہیں "Islamic Jurisprudence" کا ایک عظیم ذخیرہ وجود میں آنا شروع ہو جاتا ہے.

یہاں کوئی زور نہیں کوئی زبردستی نہیں بلکہ خلیفہ وقت ان میں سے ایک فقیہ سے پوچھتا ہے کہ کیا آپ کی فقہ کو ریاستی قوت کے ساتھ نافذ کر دیا جاوے تو وہ سختی سے منع فرما دیتے ہیں۔ فقہی مکاتب فکر کا یہ پھیلاؤ اتنا ہی فطری ہے کہ جتنا فطرت انسانی کا پھیلاؤ ہے موجودہ اسلامی دنیا کی عظیم اکثریت کہ جو ان فقہی مکاتب فکر سے منسلک ہے اسے بزور قوت یا جبر کے ساتھ ان فقہی مکتب فکر کے ساتھ نہیں جوڑا گیا بلکہ یہ صدیوں پر محیط ایک جاری علمی تسلسل ہے۔
اب کوئی صاحب کھڑے ہوں اور اس بات کا مطالبہ کریں کہ جناب ان تمام فقہی مکاتب فکر کو دریا برد فرما دیجئے تو جواب میں انہیں کسی اچھے نفیساتی معالج سے رجوع کا مشوره ہی دیا جا سکتا ہے کہ کہیں انکی یہ نرگسیت انہیں باقی تمام کی تردید و تذلیل پر ہی آمادہ نہ فرما دے . پھر مزید غور کیجئے کہ ایک گروہ علوم اسلامی کی تشکیل کی جانب راغب ہوتا ہے۔

کہیں علوم القرآن پر کام ہو رہا ہے
کہیں علوم الحدیث پر محنت چل رہی ہے
کہیں تدوین فقہ کا کام جاری ہے
کہیں تاریخ مدون ہو رہی ہے
ایسے میں ایک گروہ روحانیت کی بات کرتا ہے اور اسلامی اخلاقیات اور اوصاف کے بیدار کرنے کو اپنی محنت کا میدان بناتا ہے یہاں ایک نیا شعبہ وجود میں آتاہے کہ جسے " صوفیاء " کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔اب امت میں دو جدید مکاتب فکر وجود میں آتے ہیں:

زاہدان خشک اور عاشقان معرفت
یہ تقسیم بھی اس فطری امر کی متقاضی تھی کہ جو دین کی آبیاری کا ضامن ہے۔ علوم اسلامی کی حفاظت بے شک زاہدان خشک کی محنتوں کا نتیجہ ہے تو دوسری جانب تزکیہ نفس دراصل عاشقان معرفت کا ، کار اصلی ہے ۔
"یہ تو ایک بنیادی تقسیم ہے وگرنہ ایک صوفی محدث بھی ہو سکتا ہے اور ایک محدث فقیہ بھی ہو سکتا ہے تاریخ اسلامی میں ایسی متعدد شخصیت گزری ہیں کہ جنہیں جامع قرار دیا جا سکتا ہے ".

آج اگر ہم اپنے اطراف میں نظر دوڑائیں تو ہمیں مختلف گروہ دیوبندی ، بریلوی ، اہل حدیث وغیرہ کے نام سے دکھائی دیں گے اس سے پہلے کہ ان تمام گروہوں کو لعنت ملامت کی جاوے سوال یہ ہے کہ کیا کسی نے بیٹھ کر ان گروہوں کو کسی تجربہ گاہ میں تخلیق کیا ہے ۔ کیا یہ گروہ آسمان سے اترے ہیں یا پھر زمین سے برآمد ہوے ہیں ؟ فرقہ واریت کی پھبتی کسنے سے پہلے غور فرمائیں کہ کیا ان کا کوئی تاریخ پس منظر ہے بھی یا نہیں ۔ چند نکات کی جانب متوجہ کرنا چاہوں گا اول تو یہ کہ دیوبندی و بریلوی مکتب فکر میں فقہی اختلاف نہیں ہے ہر دو گروہوں کی فقہی ، کلامی اور صوفی روایت مشترک ہے۔

دوسرا نکتہ یہ کہ جن اعتقادی تعبیرات پر ہر دو گروہوں کا اختلاف ہے و دیوبندی و بریلوی مکتب فکر بننے سے پہلے کے مسائل ہیں۔ بر صغیر میں اور عالم اسلام میں بعض صوفی تعبیرات کو اور بعض ثقافتی معاملات کو جب کچھ علماء نے مصادر شریعت سے ثابت کیا تو بریلوی منہج فکر وجود میں آیا وہ صوفی تعبیرات و روایات پہلے سے موجود تھی لیکن اہل علم نے انہیں باقاعدہ منہج فکر اور مدون منہج فکر کے طور پر نہیں اپنایا تھا۔ ایسا بھی نہیں کہ ہر دو مکاتب فکر کے اہل علم نے افہام و تفہیم کی سرے سے کوئی کوشش نہ کی ہو ایسی کوششیں ہوئیں اور بہت سے اہل علم نے اس حوالے سے اپنا کردار بھی ادا کیا۔

در حقیت غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے کوئی سازش نہ تھی بلکہ ان کا ایک علمی اور تاریخی پس منظر ہے دوسری جانب تقلید شخصی کے کلی انکار اور اسکی ہر صورت تائید کے نتیجے میں مقلد و غیر مقلد {عرف عام میں اہل حدیث} نامی گروہ وجود میں آۓ جبکہ بنیادی طور پر ان تمام کا انتساب ہی اہل سنت کی طرف تھا گو کہ ان کے درمیان چند حقیقی اور اصولی اختلاف بھی موجود ہیں لیکن اکثریت فروعات کی ہی ہے ۔ ان اختلافات کو کسی غیر فطری طریقے سے ختم کرنے کی خواہش یا کوئی بے جا کوشش معاشروں میں مزید تباہی اور انتشار کا سبب بن سکتی ہے ، دوسری جانب یہ سوال کہ مساجد اور مدارس کیوں الگ ہیں اتنا ہی عجیب ہے کہ جیسے کوئی یہ پوچھے کہ ہندوستان و پاکستان کیوں الگ ہیں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کیوں فرق ہے برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ کی تقسیم کیوں ہے ۔

جہاں جغرافیائی سرحدات ہوا کرتی ہیں وہیں علمی اور فکری سرحدات کا وجود بھی ہوتا ہے چونکہ عام طور پر دنیا میں اور خاص طور پر بر صغیر پاک ہند میں مذہبی عبادت گاہیں اور تعلیمی ادارے اپنی مدد آپ کے تحت وجود میں آۓ ہیں اسلئے جس گروہ کی علمی و فکری مناسبت جس جانب تھی اس نے اس کے حساب سے مساجد ، مدارس اور خانقاہوں کو تفریق کی۔ چونکہ حکومتوں کو اس کار خیر میں حصہ لینے سے کوئی دلچسپی ہی نہ تھی اسلئے کوئی حکومتی مسجد ، مدرسہ یا خانقاہ وجود میں نہ آ سکا ہاں زکات و اوقاف اور مذہبی امور کے نام پر جیبیں گرم کرنے کا بازار ضرور گرم رہا ۔ اب مسالک اور مکتب فکر سے یہ سوال کہ اپنی علمی اختلافات کو چھوڑ کر اپنی مساجد اپنے مدارس اور اپنی خانقاہیں کرپٹ حکومتوں کے حوالے کر دیجئے انتہا درجے کا ظلم اور نا انصافی ہی شمار ہوگی۔ کرنے کا کام صرف باہمی روابط میں احسان اور ہمدردی کی سوچ کو پیدار کرنا ہے تاکہ مسلکی انہدام یا مسلکی انضمام کی بجاۓ مسلکی احترام کی حقیقی فضاء قائم ہو سکے۔

تجدد پسندی کیا ہے ؟
اسلامی دنیا پر تجدد کی پہلی یلغار فلسفہ یونان کے راستے سے ہوئی اعتزال نے اسی فلسفے کی کوکھ سے جنم لیا یہ تحریک اپنی اصل میں سیکولرائیزیشن کی تحریک ہی تھی ، پھر تقارب ادیان اور وحدت ادیان کی بات چلی دین اکبری تخلیق ہوا باطنیت نے پر پھیلائے پھر استشراقی فکر استعمار کے کاندھوں پر سوار ہوکر آئی اسکے بعد نیچریت زدگی نے مادیت کے دروازے کھولے پھر الحاد براستہ سوشل ازم آیا اسکے بعد لبرل سیکولر اپروچ آئی اور اب ہیومنزم کا ڈول ڈالا جا رہا ہے۔

مذہب میں تغیر اگر اجتہاد ہے تو محمود ہے لیکن کیا یہ اجتہاد کے دائرے میں مقید رہ پاتا ہے ایک جانب تو ہماری تاریخ نے اسی تغیر کے نام پر بدعات کو جھیلا باطنیت نے جنم لیا رفض کے سائے پھیلے تو دوسری جانب تجدد کی آواز بلند ہوئی تشکیل نو کے نام پر علوم اسلامی کی جڑیں کھودی گئیں سوال یہ ہے کہ اجتہاد کا راستہ بدعت و تجدد کے درمیان سے گزرتا ہے اور بال سے باریک تلوار سے تیز ہے اب اس راہ پر چلا جائے تو کیسے چلا جائے اور کس طرح دامن کو تار تار ہونے سے محفوظ رکھا جائے۔

بدعت اگر علاقائی ثقافتوں اور رسوم و رواج سے مذہب کے پاکیزہ پانی کو آلودہ کر دینے کا نام ہے تو تجدد اسلام کے اصول و قوانین کو دریا برد کرنے کی کوشش یہ راستہ کمپرومائز کا راستہ ہے ہم نے مغربی سیاست سے کمپرومائز کیا تو اسلامی جمہوریت نے جنم لیا .ہم نے انکی معیشت سے کمپرومائز کیا تو اسلامی بینکاری نے جنم لیا ہم نے انکے فلسفہ سیاست سے کمپرومائز کیا تو اسلامی سیکولرزم نے جنم لیا ہم نے انکے تصور جہاں سے کمپرومائز کیا تو اسلامی اشتراکیت اور اسلامی سرمایہ داریت نے جنم لیا .ہم نے انکے قومی معیارات سے کمپرومائز کیا تو وطنی قومیت اور قومی وطنیت نے جنم لیا ہم نے انکی اخلاقی اقدار سے کمپرومائز کیا تو لبرلزم اور ہیومنزم نے جنم لیا .

ہم نے انکے اصول صنفی مساوات اپنائے تو اسلامی فیمینزم سامنے آیا .ہم نے انکی مذہبی اپروچ سے کمپرومائز کیا تو تقارب ادیان کی گفتگو شروع ہوگئی. کتنے ہی جان لاک ہمارے یہاں کبھی غلام احمد پرویز کبھی ڈاکٹر فضل الرحمان اور کبھی محترم جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر میں نمودار ہوئے۔ اجتہاد ادیان کی تاریخ میں ایک فطری عمل ضرور ہے لیکن اجتہاد کے نام پر تجدد کی کوشش شاید ایک فطری عمل نہیں مناسب تو یہ ہے کہ اسے از خود ہونے کا موقع دیا جائے ناکہ اجتہاد کے نام پر روایت کو دریا برد کرکے تجدد کی راہ ہموار کی جائے۔

تجدد پسندوں کی پہچان
" اہل سنت کی اپنی ایک اعتقادی ، فقہی اور کلامی روایت ہے اور اس روایت کے اندر ہر اختلاف توسع ہے اور اس روایت سے کبھی کبھی باہر نکل جانا تفرد ہے اور اس روایت سے انحراف تجدد ہے "۔

اس نکتے کی مزید وضاحت کچھ اس انداز سے کی جا سکتی ہے کہ
" اہل سنت کے یہاں ایک بنیادی پیمانہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین کی فکر ہے اب اس فکر سے جو بھی دور ہوگا چاہے وہ معتزلہ ہوں ، فلاسفہ ہوں ، سوفسطائیہ ہوں ، جبریہ ہوں ، قدریہ ہوں ، رافضہ ہوں یا نواصب ہوں یا پھر دور جدید میں نیچری ہوں ، مستغربین ہوں یا جدید مذاہب لبرل و سیکولرزم سے متاثر افراد یہ سب اسلام کی نگاہ میں تجدد پسند ہیں"۔

یعنی تجدد مقابل ہے روایت کے اور متجدد وہ ہے کہ جو روایت سے انحراف کرے مغرب میں جب نئی روشنی کی تحریک چلی تو وہاں بہت سے متجددین کھڑے ہوئے اور انہیں ایک خوبصورت نام دیا گیا reformist جیسے جان لاک ، روسو ، دیکارت ، کانٹ ، والٹیر ، ہابس ، ہگسلے وغیرہ. اسی طرح خاص مذہب کے دائرے میں جان کیلون یا مارٹن لوتھر کا نام لیا جا سکتا ہے ، ہمارے یہاں تجدد استعمار کے کاندھے پر سوار ہوکر آیا اور اس نے استشراق کے مدرسے سے تعلیم حاصل کی ایسے میں ہمیں سرسید ، مشرقی ، پرویز ، وحید الدین خان ، ڈاکٹر فضل الرحمان اور جناب غامدی صاحب جیسی بڑی شخصیات دکھائی دیتی ہیں کہ جو اس منہج فکر کی نمائندہ ہیں۔

لیکن یہاں پر ہمیں کوئی خاص علمی گفتگو مطلوب نہیں ہے بلکہ ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ بنیادی اوصاف بیان کردیں کہ جن کی روشنی میں کسی بھی شخصیت کے اندر تجدد کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ منہج علم کے اعتبار سے متجددین کے دو بنیادی اصول ہیں...

پہلا تو یہ کہ ؛ جو کچھ ہم نے سمجھا ہم سے پچھلے اسے سمجھنے سے قاصر رہے۔
دوسرا یہ کہ ؛ ہم سے پچھلوں نے جو کچھ سمجھا وہ ناقص تھا۔

پھر رویے کے اعتبار سے متجددین کی تین اقسام ہیں
پہلی قسم ہے سطحی متجددین کی ان لوگوں کے یہاں آپ کو انتہائی سختی کے ساتھ تکبر ملے گا ان کے رویے میں دوسروں کیلئے حقارت ہوگی اکثر یہ دوسروں کی تذلیل کرتے دکھائی دیں گے جگتیں لگاتے نظر آئیں گے لیکن بنیادی دو نکات وہی ہوں گے کہ جو اوپر بیان کیے گئے ہیں اس طبقے کے نمائندہ افراد میں مہندس مرزا کو سرفہرست رکھا جا سکتا ہے۔

دوسری قسم ہے کسی درجے میں معتدل افرا کی ، اعتدال گفتگو کے آداب کے حوالے سے ، اس طبقے کا انداز علمی ہوگا دلائل عقلی ہوں گے الفاظ و اصطلاحات موٹی اور گنجلک ہوں گی ادب کی چاشنی ان کے یہاں دکھائی نہیں دے گی اسی لیے سختی کا عالم وہی ہوگا یہ اپنے سے پچھلوں کے افکار کو پرکاہ کی اہمیت دینے کو بھی تیار نہیں ہوں گے ، اس طبقے کے نمائندہ افراد میں ڈاکٹر خضر یاسین صاحب کو شامل کیا جا سکتا ہے۔

تیسری قسم کے اندر آپ کو بظاہر انکسار دکھائی دے گا یہ رکھ رکھاؤ والے لوگ ہوں گے ان کے یہاں آپ کو ادب کی چاشنی بھی نظر آئے گی ان کا طرز استدلال انتہائی منطقی ہوگا یہ بطور مربی آپ کو سمجھانے کی کوشش کریں گے اور ان کے ارد گرد آپ کو ایک خاص سوشل سیٹپ یا کلاس کے لوگ دکھائی دیں گے ، اس طبقے کے نمائندہ افراد میں جناب محترم غامدی صاحب کو سر فہرست رکھا جا سکتا ہے بلکہ وہ اس کے حقدار بھی ہیں ، لیکن یہاں بھی وہی بنیادی نکتہ ہوگا مجھ سے پہلوں کی سمجھ ناقص اور میری سمجھ کامل کبھی تو یہ بات وہ زبان حال سے کہتے دکھائی دیں گے اور کبھی زبان قال سے۔

اگر ان بنیادی نکات کو سامنے رکھا جائے تو ایک عام قاری باآسانی یہ سمجھ سکے گا کہ تجدد کیا ہے اور ایک متجدد کو کیسے پہچانا جا سکتا ہے علامہ سے معذرت کے ساتھ۔

چاک کردی مرد ناداں نے روایت کی قبا "
سادگی مسلم کی دیکھ، اَوروں کی عیّاری بھی دیکھ
صُورتِ آئینہ سب کچھ دیکھ اور خاموش رہ
شورشِ امروز میں محوِ سرودِ دوش رہ

محمد علی مرزا اور تجدد پسندوں کا معیار تنقید

اقبال بھی ’اقبال‘ سے آگاہ نہیں ہے. علامہ کی نظم زہد و رندی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ایک اک شعر ندرت بیان اور طبیعت کی شوخی کا غماز ہے ایک جگہ اپنی بابت ایک پیر مغاں کی زبانی لکھتے ہیں

رِندی سے بھی آگاہ، شریعت سے بھی واقف
پُوچھو جو تصوّف کی تو منصور کا ثانی
اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھُلتی
ہو گا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی

اقبال کے اشعار کو لے کر متعدد لوگوں نے اپنے تئیں اقبال کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے کسی نے اقبال کو رند کہا کسی نے صوفی کہا کسی نے تجدد پسند کہا کسی نے علامہ کا لقب دیا کسی نے فلسفی گردانا کسی نے مفکر جانا غرض یہ کہ اقبال ہر کسی کو الگ رنگ میں نظر آیا مگر آپ جو کچھ بھی کہیے یہ اردو زبان کی سعادت ہے کہ غالب و اقبال نے اس میں اشعار کہے۔ گفتگو ہو رہی تھی اقبال کو اپنے اپنے رنگ میں دیکھنے کی متعدد مفکرین نے اقبال کو اپنی اپنی نگاہ سے دیکھا پرویز کو اقبال الگ رنگ میں نظر آیا سید مودودی نے اقبال کو الگ رنگ میں دیکھا علامہ محمد اسد اقبال کو الگ نگاہ سے دیکھتے تھے پروفیسر یوسف سلیم چشتی اور ڈاکٹر میر ولی الدین کے یہاں اقبال الگ تھے اور مولانا عطا اللہ شاہ بخاری و آغا شورش کاشمیری کے یہاں اقبال کچھ اور تھے .

اقبال کے یہاں اتنا توسع اور اتنا تنوع ہے کہ بیک وقت ڈاکٹر فضل الرحمان جیسے متجدد اور احمد جاوید صاحب جیسے صوفی کے یہاں اقبال مقبول ہیں مگر افسوس ! کہاں اقبال مفکرین کی صف سے بیان ہوتے ہیں اور کہاں اقبال کو انجیئر اور خود ساختہ فلسفی بیان کرتے ہیں افسوس کے آج اقبال کے شارح مہندس مرزا اور اقبال کے ناقد بھنڈر صاحب جیسے لوگ ہیں علامہ ہی کی زبانی سنیے

گر آپ کو معلوم نہیں میری حقیقت
پیدا نہیں کچھ اس سے قصورِ ہمہ دانی
مَیں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے مرے بحرِ خیالات کا پانی
مجھ کو بھی تمنّا ہے کہ ’اقبال‘ کو دیکھوں
کی اس کی جُدائی میں بہت اشک فشانی

عقل اس وقت حیران ہوتی ہے کہ جب مہندس مرزا صاحب اقبال کے شعر میں تکنیکی غلطی نکالتے دکھائی دیتے ہیں موصوف فرماتے ہیں کہ جس کا مفہوم کچھ یوں ہے.اقبال شاعر تو بہت اچھے ہیں مگر یہاں چوک کھا گئے اور ایک انتہائی فحش قسم کی غلطی فرمادی اور پھر شعر پڑھتے ہیں .

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

اور شعر پڑھتے ہوئے تماشائے کو تماشا کرتے ہوئے اقبال کے شعر میں وہ سکتہ داخل فرمادیتے ہیں کہ اقبال اگر خود سنتے تو سکتے میں آجاتے موصوف نے اس خوبی کے ساتھ اقبال کے شعر کو بحر و وزن سے خارج کرنے کی کوشش کی ہے کہ واقعی "عقل محو تماشائے لب بام ہے" ہم نے تو سنا تھا کہ اچھا گانے والے بے وزن کو بھی باوزن کر دیتے ہیں اور بے بحر میں بھی موسیقیت پیدا کردینے کا ملکہ رکھتے ہیں.

مگر کیا کیجئے لگتا ہے کہ مرزا صاحب گانے والے نہیں صرف بجانے والے ہیں ، مہندس مرزا صاحب اقبال کے شعر میں تکنیکی غلطی نکالتے ہوئے بے خطر اتنی دور نکل گئے انہیں احساس ہی نہ ہوا کہ اقبال کے عشاق ہی نہیں بلکہ شعر سمجھنے والوں کے قلوب پر کیا کیا نہ بیت گئی اور وہ کس کس آتش نمرود سے نہ گزر گئےمزید جو معارف کے موتی موصوف نے بکھیرے ہیں وہ تو ایک طرف آگے جو اشعار پڑھتے ہیں ان میں اقبال کی جو اصلاح فرمائی ہے وہ الگ کمال فن کا شاہکار ہے آگے فرمانا چاہتے ہیں

ماسِوَی اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تُو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

مگر دوسرے مصرع سے پہلے اگر لگا کر جو نکتہ موصوف نے پیدا فرمایا ہے وہ ارتقاء کی اعلی ترین منازل کو ثابت کرتا ہے اب اس مصرع کو کچھ یوں پڑھیے

ماسِوَی اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
"اگر " تُو مسلماں " ہے " ! تو تقدیر ہے تدبیر تری

غور کیجئے الفاظ و معانی میں جو کمال انجینئر صاحب نے پیدا فرمایا ہے اگر وہ اتنا کمال ہے تو مطالب و تشریحات میں کیا کیا نہ گل کھلائے ہوں گےاقبال وہ مظلوم قومی شاعر ہے کہ کبھی اقبال کے بے ڈھب مجسمے بنا کر اقبال کی توہین کی جاتی ہے وہ اقبال کہ جو تصور وطنیت کو بت قرار دیتا ہے وہ اقبال کہ جو توحید کا داعی ہے وہ اقبال کہ جو یہ کہتا دکھائی دیتا ہے ۔

وہ بُت کہ تراشیدۂ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانۂ دینِ نبَوی ہے
بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے

اس اقبال کی بت پرستی ہی ایک جرم ہوا اور پھر بت بھی ایسا بے ڈھب بنایا جائے یہ مزید ظلم یعنی توحید سے گرے تو گرے جمالیات سے بھی گزر گئے۔ تو بات ہو رہی تھی اقبال کے مطالب و معانی کی جی ہاں اقبال کو ہر کسی نے اپنے اپنے انداز سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے جب اقبال ناقدین حدیث کے ہاتھ لگتے ہیں تو وہ کچھ یوں سند پیش کرتے ہیں ۔

حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمّت روایات میں کھو گئی

اور یہاں روایات (tradition) کو پورے یقین کے ساتھ حدیث قرار دیتے ہوئے منکرین حدیث کے طبقے میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں طرفہ تماشہ جب اقبال تجدد پسندوں کے ہاتھ لگتے ہیں تو ایک تجدد پسند اقبال کو ناقد تصوف کے طور پر پیش کرتے ہوئے یہ شعر سامنے لے کر آتے ہیں ۔

تمدّن، تصوّف، شریعت، کلام
بُتانِ عَجم کے پُجاری تمام!

اب کوئی موصوف سے پوچھے کہ بھیا یہاں صرف تصوف کی مخالفت ثابت نہیں ہو رہی بلکہ شریعت و کلام بھی بتان عجم کی صف میں کھڑے کردیے گئے ہیں کچھ تو خدا کا خوف کیجئے یہی اقبال کچھ یوں بھی فرماتے ہیں

وہ صُوفی کہ تھا خدمتِ حق میں مرد
محبّت میں یکتا، حمِیّت میں فرد

اور اس سے پہلا شعر ہی ملاحظہ فرمائیے کہ جہاں اقبال یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں

مسلماں ہے توحید میں گرم جوش
مگر دل ابھی تک ہے زُنّار پوش

تو کیا اس شعر سے وہابیت کا رد ثابت فرمائیں گے ؟ ایک دوسرے مولوی دشمن ببانگ دہل اقبال کا یہ شعر پیش کرتے ہیں .

دینِ کافر فکر و تدبیرِ جہاد
دینِ مُلا فی سبیلِ اللہ فساد

تو کیا اب دین کافر قبول کرلیجئے اور دین ملا کو چھوڑ دیجئے جبکہ یہی اقبال ہیں کہ دوسری جگہ فرماتے ہیں

لا کر بَرہمنوں کو سیاست کے پیچ میں
زُناّریوں کو دَیرِ کُہن سے نکال دو
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
رُوحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات
اسلام کو حِجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
مُلّا کو اُن کے کوہ و دمن سے نکال دو

مسئلہ کچھ یوں ہے کہ اقبال کو لے کر اپنے اپنے مقدمات ثابت کرنے والے اقبال سے تو ناواقف ہیں ہی شاعری سے بھی ناواقف ہیں اقبال کو سمجھنا تو کجا شعر کو سمجھنا بھی ان کے بس کی بات نہیں ہے حقیقت یہی ہے کہ اقبال کے ساتھ جو ظلم ان نام نہاد متجددین و مفکرین نے کیا ہے اقبال کے مخالفین نے بھی نہیں کیا اور اقبال کی وہ وہ تشریحات بیان فرمائی ہیں کہ اقبال خود یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔

اقبالؔ بھی ’اقبال‘ سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں، و اللہ نہیں ہے

انجینئر محمد علی مرزا کی reverse engineering
آئیے انجینئر محمد علی مرزا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کیلیے ہمیں reverse engineering
کی ضرورت پڑے گی یعنی انجینئر صاحب کی شخصیت کی deconstruction کرکے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ایسے کردار کس طرح تخلیق ہوتے ہیں۔ ہم انجینئر محمد علی مرزا کو ایک کردار کے طور پر لیتے ہیں ایک ایسا کردار کہ جو ایک مخصوص میڈیم پر مشہور ہے نوجوانوں کا ایک طبقہ جس کی پیروی کرتا ہے جو loud ہے اور اپنی بلند آہنگی سے اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنے کے فن سے واقف ہے مذہب اس کا اصل موضوع ہے. لیکن مذہب کی پیشکش کا انداز داعیانہ نہیں بلکہ طنز و مزاح میں لپٹا ہوا ہے ، ایک ایسا کردار کہ جو لوگوں کو یہ باور کرواتا ہے کہ تاریخ اسلامی ایک کھلی کتاب کی طرح اس کے سامنے موجود ہے اور وہ سلف سے خلف تک کسی بھی شخصیت کسی بھی نظریے اور کسی بھی منہج و مکتب فکر کی دھجیاں بکھیر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے.

ایک ایسا کردار کہ جس کے اندر نرگسیت بھی دکھائی دیتی ہے اور عجب بھی نظر آتا ہے اور یہ کردار اکثر الہامی تیقن سے بات کرتا ہے ، ہر دوسرے گروہ کی تجہیل و تذلیل اس کے مزاج کا حصہ ہے۔ ممکن ہے کہ شہرت کی طلب چاہے جانے کی خواہش مقتدا بن جانے کی آزرو نے انجینئر صاحب کی شخصیت سازی اس انداز سے کی ہو کہ وہ اپنے blind followers کی ایک جماعت تشکیل دینے کے طالب ہوں اور علمی پذیرائی سے زیادہ انہیں تقلیدی انداز کی پیروی پسند آتی ہو ، وہ اکثر سید مودودی رح کا ذکر کرتے ہیں ممکن ہے کہ وہ خود بھی مجدد بننے اور کہلائے جانے کے خواہاں ہوں اور اپنے پیچھے ایک ایسی جماعت چھوڑ جانے کی آرزو رکھتے ہوں کہ جو انکی ہر ہر رائے کی مدافعت کرتی رہے لیکن بظاہر مرزا صاحب میں یہ صلاحیت دکھائی نہیں دیتی اور عین ممکن ہے کہ یہ بات انہیں سخت ناگوار گزرتی ہو اور یہی ناگواری ان کے لہجے کی تلخی میں در آتی ہو۔

لیکن سوال یہ ہے کہ انجینئر محمد علی مرزا کیسے بنا جاسکتا ہے کیا اس کا کوئی مخصوص فارمولا کوئی خاص طریقہ کار کوئی پوشیدہ recipe ہے آخر وہ کون سے ingredients ہیں کہ جو انجینئر محمد علی مرزا تشکیل دے سکتے ہیں۔چلیے ہم انجینئر محمد علی مرزا کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی انجینئر کے کردار کے building blocks ایک دوسرے سے الگ کرکے ان سے ایک نئی عمارت بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

عنوان ؛ انجینئر محمد علی مرزا
میڈیم ؛ سوشل میڈیا
شعبہ ؛ مذہب
منہج ؛ تنقید
تخصص ؛ اختلافی اور متنازعہ مسائل

اب ہم ایک گراؤنڈ بناتے ہیں ہمارا دائرہ کار مذہبی مباحث ہیں اور ہمارا تخصص اختلافی مسائل میں ہے ہمارے سامنے اسلامی تاریخ میں پیدا ہونے والے سیاسی ، سماجی ، اعتقادی ، فقہی ، منہجی اختلافات کی ایک طویل فہرست ہے اور ان میں سے ہر ایک اختلاف پر ہر دو اطراف سے کتب کے دفاتر موجود ہیں یاد رہے کہ اختلاف جتنا بڑا ہوگا تنقید اتنی ہی بڑی ہوگی اور تنقید جتنی بڑی ہوگی شہرت اتنی ہی زیادہ ملے گی یعنی ایکویشن کچھ یوں بنے گی۔

اختلاف + متنازعہ موقف = تنقید
اب جتنی تنقید ہوگی اتنی ہی شہرت ہوگی
جتنا شور ہوگا اتنا ہی نام ہوگا

بنیادی اصول یہ ہے کہ آپ کسی بھی طرح موضوع گفتگو بنے رہیں آپ کی بابت بات ہوتی رہے اور اس کیلیے آپ کو مسلسل کوئی نہ کوئی متنازعہ رائے دیتے رہنا ہوگی کیونکہ کہ جب بھی یہ پراسیس رکا لوگ آپ کے بارے میں بات کرنے سے رک جائیں گے اور آپ آہستہ آہستہ پس منظر میں جاتے چلے جائیں گے اور پس منظر میں چلے جانا ڈرامے کے کسی بھی کردار کی موت ہوتی ہے یاد رہے سٹیج پر وہی فنکار زیادہ پذیرائی لیتا ہے کہ جس کی جگت سب سے زیادہ bold ہو اور وہ عوام کو انگیج کرنے کے فن سے واقف ہو۔

اب ہم انجینئر صاحب کے کردار کی مزید پرتیں کھولتے ہیں ، کوئی بھی کردار اختلافی اور متنازعہ مسائل کو لے کر مشہور تو ہو سکتا ہے مگر اس کی sustainability کیا ہوگی ،کوئی بھی گمک کتنے عرصے چل سکتا ہے پرو ریسلنگ کی مثال لیجیے ایک کردار ہے ہلک ہوگن وہ اپنی شہرت کی پیک پر پہنچ کر اپنے لیے پیدا ہونے والی دلچسپی ختم کر لیتا ہے پھر ایک کردار شان مائیکل سامنے آتا ہے اور اسکی طبعی عمر پوری ہو جاتی ہے پھر ایک کردار راک سامنے آتا ہے اس کے بعد جان سینا سامنے آتا ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ لوگ ایک ہی طرح کے کرداروں سے پریشان ہو جاتے ہیں اس لیے چہرے بدل بدل کر نئے گیٹپ اور نئے انداز میں ایک نیا کردار سامنے لانے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ درحقیقت یہ تمام کردار ایک بڑے ڈرامے کا حصہ ہیں کہ جو کہیں اور لکھا جاتا ہے۔

اب غور کیجیے sustainability کیلیے ایک بڑا دعویٰ درکار ہے یعنی مجدد، محقق، مفکر و مصلح جیسے کسی عنوان کی ضرورت ہے ، تجدد کے بھٹیار خانے سے جتنے بھی پتھر کے صنم نکل کر سامنے آتے ہیں ان کے پاس اسی قسم کے دعووں کی بھرمار ہوتی ہے۔ لیکن کیا واقعی یہ تحقیق کا میدان ہے یہ کوئی حقیقی thought process ہے، کیا اس کے پیچھے واقعی عرق ریزی ہے کیا واقعی معاملات و واقعات کی حقیقت ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے یا پھر کسی کے اگلے ہوئے کی ہی جگالی کی جا رہی ہے، اگلی چند سطور میں ہم اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ٹیسٹ کیس 1
اعتقادی مسئلہ
عنوان ؛ نور و بشر

اب اس ایک مسئلے پر بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں ہزاروں مباحث موجود ہیں اور یہ کوئی نئی بحث نہیں ہے کرنا صرف یہ ہے کہ مسئلے پر موجود کسی ایک رائے کو لے کر اسے عوام میں بیان کردیں بنے بنائے دلائل سوالات و جوابات پہلے سے موجود ہیں آپ کے ذمے کوئی محنت نہیں ہے کیونکہ اس پر پہلے سے محنت ہو چکی ہے۔

ٹیسٹ کیس 2
تاریخی مسئلہ
عنوان ؛ جمل و صفین

یہ بھی ایک ایسی گفتگو ہے کہ جس پر قدیم و جدید کتب کے دفاتر موجود ہیں مباحث کے انبار لگے ہوئے ہیں امت کے دو بڑے فرقے اس کے پیچھے ہیں کرنا یہ ہے کہ کوئی بھی ایک سائیڈ لے کر اس پر پہلے سے موجود دلائل عوام کے سامنے پیش کردیں آپ کو کسی تحقیقی عمل سے نہیں گزرنا کسی research methodology کی پیروی نہیں کرنی یہ ایک بنی بنائی دیگ ہے، یہ ایک پکی پکائی ہنڈیا ہے آپ کا کام صرف پرات کی ڈھکنی ہٹانا ہے اور بس۔

ٹیسٹ کیس 3
فقہی مسئلہ
عنوان ؛ تراویح کی رکعات

یہ بھی ایک ایسی گفتگو ہے کہ جو صدیوں سے جاری ہے کرنا کچھ بھی نہیں صرف پرانے دلائل اٹھائیں اور کاپی کرکے آگے پیسٹ کردیں اور محقق کا نام پائیں۔اب ہم گفتگو کو مزید گہرائی میں لے جاتے ہیں اور انجینئر صاحب کے کردار Act کی مزید تحلیل کرتے ہیں بقول ژاک دریدا deconstruction کرتے ہیں۔ دیکھیے آپ کو مختلف سمتوں میں معروف ہونا ہے تو صرف معروف اعتقادی فقہی تاریخی مسائل کے اختلاف کو نہیں لیں گے بلکہ اختلاف و تائید کا ایک جال بچھائیں گے تاکہ سب آپ سے relate کرسکیں لیکن آپ کی relationship کسی سے ثابت نہ ہو تجدد پسندی کا یہ ایک جدید رخ ہے۔

مثال کے طور پر ایک مسئلہ کسی ایک مسلک کا لیا دوسرا کسی دوسرے مسلک کا لیا تیسرا کسی تیسرے مسلک سے لیا اسی طرح کسی ایک مسلک کے کسی ایک مسئلے کی مخالفت کی دوسرے مسلک کے کسی دوسرے مسئلے کی مخالفت کی تیسرے مسلک کے کسی تیسرے مسئلے سے اختلاف کیا یعنی ایک مکس پلیٹ تشکیل دے دی لیجیے ایک شاندار ذائقہ دار مزید اور چٹپٹا محقق تیار ہے۔ دوسری جانب اپنی credibility ثابت کرنے کیلئےآپ کو بڑی بڑی شخصیات پر ہاتھ ڈالنا ہوگا انجینئر صاحب صحابہ رض سے مشق ستم کا آغاز کرتے ہیں سب سے آسان نشانہ کون ہے ، انجینئر صاحب سیدنا معاویہ رض کو نشانہ بناتے ہیں ، پھر تابعین پر آتے ہیں ، آئمہ پر طعن کستے ہیں محدثین پر اعتراض کرتے ہیں.

مجددین پر تنقید کرتے ہیں غور کیجیے جتنی بڑی شخصیت اتنی زیادہ ناموری یہاں تک کہ ادبی دنیا میں ٹانگ اڑانے سے بھی نہیں چوکتے اور ہاتھ بھی کس پر ڈالتے ہیں جی ہاں اقبال رح پر۔ ایک اور نکتہ اپنے دور سے relevant رہنے کا ہے ، جب تک آپ کے دور کی معروف شخصیات آپ کو acknowledge نہ کر لیں آپ خود کو مستحکم تصور نہیں کر سکتے عوام میں شہرت مولانا طارق جمیل صاحب سے میٹھی میٹھی ملاقات سے مل سکتی ہے غامدی صاحب کی تعریف کرکے یا طارق مسعود صاحب سے مباحثہ کرکے بھی آپ نمایاں ہو سکتے ہیں لیکن جناب مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم کو مناظرے کی دعوت ،مفتی منیب صاحب کو چیلینج ، ڈاکٹر ذاکر نائیک کو مقابلے کا سندیش، لازمی امر ہے کہ ان شخصیات نے جواب تو دینا نہیں تو پھر یکطرفہ فتح اور جیت کا جشن۔

اس سے اگلا پڑاؤ ہے کوئی انوکھی بات جیسے آنلائن جماعت ، عذاب قبر ، معراج ، پردے کا انکار وغیرہ لیکن یہ تمام آراء تو آ چکیں تو پھر کسی نئی کسی جدید درفنتنی کی ضرورت جیسے منکرین ختم نبوت کو اہل کتاب قرار دینا وغیرہ۔ ایک اور اہم نکتہ ہے مظلومیت کارڈ آپ تمام مسالک و مکاتب فکر سلف و خلف کی آراء سے اختلاف کیجیے اب اگر کوئی آپ سے اختلاف کیا کرے تو آپ مظلوم بن جائیے کہ دیکھیے یہ فرقہ پرست یہ مسلک پسند میرے مخالف ہوگئے ایسے میں مختلف نام استعمال کیجیے کبھی سید مودودی رح کا نام استعمال کریں کبھی ڈاکٹر اسرار احمد رح کا نام استعمال کریں کبھی حافظ زبیر علی زئی رح کا نام استعمال کریں لیجیے اب آپ سرٹیفائیڈ مجدد ہوگئے۔

جب ہم انجینئر محمد علی مرزا کے ایکٹ کی deconstruction کرتے ہیں ،اس کے عناصر اور ہیت ترکیبی کو الگ الگ دیکھتے ہیں تو ہمارے سامنے ایک محقق کی تصویر نہیں آتی ہمارے سامنے ایک کردار آتا ہے کہ جس نے اپنی پیشانی پر محقق کا ٹیگ لگا رکھا ہے اور لوگ باگ اس کی فیس ویلیو کے پیچھے دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ یہاں گفتگو کسی فرد کی نہیں ہے بلکہ ایک کردار کے مختلف پہلوؤں سے ہے اور یہ کوئی نیا کردار بھی نہیں بلکہ ایسے بہت سے پرانے کرداروں کی ایک نئی شکل ہے اور عوام اکثر نئی پیکنگ میں پرانی چیزوں کو خرید لیا کرتی ہے۔

انجینئر محمد علی مرزا کے پرستاروں کا Psychoanalysis
گزشتہ تحریر میں ہم نے انجینئر محمد علی مرزا کی reverse engineering کرکے ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کی decomposition کی تھی اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے ہولی findings قارئین کے سامنے پیش کی تھیں تاکہ موجودہ دور کے اس معروف کردار کے مزاج اس کی شخصیت اور ہیت ترکیبی کو سمجھا جا سکے ، اس آرٹیکل میں ہم انجینئر محمد علی مرزا کے پرستاروں کا Psychoanalysis کریں گے اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ انجینئر محمد علی مرزا کے Act کی مشہوری کی وجوہات کیا ہیں۔ انجینئر محمد علی مرزا کے زیادہ تر پرستار یو ٹیوب based ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں کہ جو Click bait سے متاثر ہوکر چیزیں دیکھتے ہیں مثال کے طور پر۔

• حمزہ علی عباسی Well Done !
• چھ کلمات کا ثبوت کہاں ؟
• اللہ مولی بمقابلہ علی مولی ؟
• پیر نصیر الدین نصیر کی توحید ؟
• مفتی تقی عثمانی کا دعویٰ ؟
• مائی رابعہ بصری کا دعویٰ ؟
• مثنوی رومی کی حقیقت ؟
• روحوں کی گھر میں واپسی ؟
• بابا فرید گنج شکر کا بجلی کا لوٹا ؟
• علمی کتابی فرقے کا اعلان ؟

کلک بیٹ کیا چیز ہے
Click bait, a form of false advertisement, uses hyperlink text or a thumbnail link that is designed to attract attention and to entice users to follow that link and read, view, or listen to the linked piece of online content, with a defining characteristic of being deceptive, typically sensationalized or misleading

بقول شاعر

کاغذ کی یہ مہک یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی

Eric Matthew Schlosser نے ایک کتاب لکھی تھی

Fast Food Nation: The Dark Side of the All-American Meal

فاسٹ فوڈ نیشن کی اصطلاح اس دور کی امریکی عوام کے مزاج اور رویے کی درست عکاسی کرتی تھی اسی طرح ہماری قوم کو ٹک ٹاک نیشن یا یو ٹیوب نیشن قرار دیا جا سکتا ہے انجینئر محمد علی مرزا اکثر فخریہ طور پر یہ بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ میری فلاں ویڈیو پر اتنے ملین اور فلاں پر اتنے ملین ویوز ہیں درحقیقت یہ دعویٰ انجینئر محمد علی مرزا کے ناظرین کی ذہنی اپچ کو سمجھنے کا درست پیمانہ ہے۔

بنیادی سطح پر یہ طبقہ تحقیق سے دور ہے کتاب کھولنا اس کیلیے انتہائی مشکل ہے بلند آہنگی اسے بھاتی ہے جو جتنا شور کرے گا اس طبقے کی نگاہ میں اتنا ہی معتبر ہوگا یہ ضروری نہیں کہ آپ کسی مدرسے کے عالم ہوں یہ بھی ضروری نہیں کہ محقق ہوں اس کی بھی ضرورت نہیں کہ محدث ہوں یا مورخ ہوں یا مفسر ہوں یا فقیہ ہوں اہم یہ ہے کہ آپ بلند آواز میں بولنا جانتے ہوں اور بڑے بڑے دعوے کرنے کی آپ کو عادت ہو۔
اسی جانب قرآن کریم متوجہ کرتا ہے

يَآ اَيُّـهَا الَّـذزيْنَ اٰمَنُـوٓا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُـوٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًا بِجَهَالَـةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْـتُـمْ نَادِمِيْنَ اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو۔

اگر آپ غور کریں تو شعر و ادب ہو علم و تحقیق ہو یا فنون لطیفہ ہوں آج وہی مشہور ہے کہ جو اپنی پراڈکٹ کو خوبصورت ریپر میں پیک کرکے عوام کے سامنے پیش کر سکے پیکٹ کے اندر کیا ہے یہ ایک الگ داستان ہے۔
دور جدید میں عوام دو طرح کے رویوں کی حامل ہے.

 اول سہولت پسندی
 دوم چمک دمک

اول : عوام فنی و علمی باریکیوں میں جانا پسند نہیں کرتی درست یا غلط جس چیز میں لوگوں کو سہولت ملے گی وہ اس سے متاثر ہوں گے۔
دوم : عوام کی نگاہ میں ظاہری چمک دمک اہم ہے کسی کے خواص اس کے اوصاف سے عوام کو تعلق نہیں۔

اب مزید گہرائی میں جائیے اور انجینئر محمد علی مرزا کے پرستاروں کے شعور اور لاشعور کی پرتوں کو کھولیے تو آپ کو ایک بنیادی چیز نظر آئے گی اور وہ ہے اختلاف پسندی ،نئی بات ،کوئی جدت، کوئی اچھوتا خیال ، ہمیں اپنے اطراف میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد دکھائی دیتی ہے جہاں کہیں بھی غیبت ہوگی لوگ کان لگا کر سنیں گے جہاں کہیں افواہ سازی ہوگی لوگ دلچسپی لیں گے جہاں کہیں بھی کسی کی پردہ دری ہوگی لوگ اس میں حصے دار بنیں گے اسی نفسیاتی کمزوری پر اللہ رب العزت بھی تنبیہ فرماتے ہیں۔

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْـرًا مِّنَ الظَّنِّۖ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْـمٌ ۖ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ۚ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْـمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ تَوَّابٌ رَّحِـيْـمٌ اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچتے رہو، کیوں کہ بعض گمان تو گناہ ہیں، اور ٹٹول بھی نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی سے غیبت کیا کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے سو اس کو تو تم ناپسند کرتے ہو، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہے۔

اب چاہے وہ کسی موجودہ شخصیت کی غیبت ہو یا تاریخی شخصیات کی غیبت آج کے لوگوں کی برائی یا تاریخی شخصیات کی برائی اس کے پیچھے ایک ہی طرح کی نفسیات کارفرما ہے۔ دوسری جانب بے ادبی تضحیک تذلیل بے باکی اور ایسی زبان کا استعمال کہ جس سے دوسرے متاثر ہوں جسے عرف عام میں ٹرولنگ کہا جاتا ہے انجینئر صاحب سے متاثرہ طبقہ اسی مزاج کا حامل ہے ان کی مدافعت کرنے والوں کی گفتگو دیکھیے تو یہی رویہ دکھائی دیتا ہے اللہ رب العزت نے خاص تنبیہ اس حوالے سے فرمائی ہے۔

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُـوْنُـوْا خَيْـرًا مِّنْـهُـمْ وَلَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْـرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الظَّالِمُوْنَ اے ایمان والو! ایک قوم دوسری قوم سے ٹھٹھا نہ کرے عجب نہیں کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں سے ٹھٹھا کریں کچھ بعید نہیں کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور ایک دوسرے کو طعنے نہ دو اور نہ ایک دوسرے کے نام دھرو، فسق کے نام لینے ایمان لانے کے بعد بہت برے ہیں، اور جو باز نہ آئیں سو وہی ظالم ہیں۔

اسی طرح مداحین انجینئر محمد علی مرزا کے یہاں شدید ترین بد گمانی دکھائی دے گی یہ سلف سے خلف تک سبھی سے بد گمان ہیں انہیں صحابہ رض سے بھی بدگمانی ہے تابعین و تبع تابعین سے بھی بد گمانی ہے آئمہ و محدثین سے بھی بدگمانی ہے اس حوالے سے قرآن کریم میں تنبیہ فرمائی گئی ہے۔

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْـرًا مِّنَ الظَّنِّۖ اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچتے رہو،

ایک بہت عجیب فلسفہ ان کے یہاں یہ دکھائی دیتا ہے کہ پچھلے تمام مکاتب فکر تمام مسالک تمام فقہی آراء غلط ہیں اور آج انجینئر صاحب نے دین کو درست سمجھا ہے اور یہ کوئی نیا دعویٰ نہیں ہے اسلامی تاریخ میں خوارج کا ،معتزلہ کا ، جہمیہ کا ، مرجیہ کا ، قدریہ کا ، روافض کا ، نواصب کا دور جدید میں سرسید ، پرویز ، مشرقی ، ڈاکٹر فضل الرحمن ، غامدی اور انجینئر محمد علی مرزا صاحب کا یہی دعویٰ رہا ہے سوال یہ ہے کہ لوگوں کو یہ دعویٰ کیوں بھاتا ہے۔ دور استعمار کے بعد مذہبی گروہوں میں ایک گروہ پیدا ہوا کہ جسے مذہبی لبرل کہا جاتا ہے۔

Religious liberalism
ایک خاص اصطلاح ہے کہ جس کے مطابق

Edward Scribner Ames wrote in his article
Liberalism in Religion

The term "liberalism" seems to be developing a religious usage which gives it growing significance. It is more sharply contrasted with fundamentalism, and signifies a far deeper meaning than modernism. Fundamentalism describes a relatively uncritical attitude. In it custom, traditionalism, and authoritarianism are dominant. [...] There is no doubt that the loss of the traditional faith has left many people confused and rudderless, and they are finding that there is no adequate satisfaction in mere excitement or in flight from their finer ideals. They crave a sense of deeper meaning and direction for their life. Religious liberalism, not as a cult but as an attitude and method, turns to the living realities in the actual tasks of building more significant individual and collective human life
Ames, Edward Scribner (July 1936).
"Liberalism in religion".
International Journal of Ethics. 46 (4): 429–443

مذہبی لبرل اپنے ہی دینی مصادر مراجع اور شخصیات کو شک کی نگاہ سے دیکھتا اسے یہ پسند نہیں کہ اسے روایت پسند کہا جائے۔

علامہ اقبال رح نے محمد علی باب کے حوالے سے چند اشعار کہے تھے اور حقیقت تو یہ ہے کہ وہ انجینیر مرزا پر بھی مکمل صادر ہوتے ہیں۔

محمد علی باب
تھی خوب حضورِ عُلَما باب کی تقریر
بیچارہ غلَط پڑھتا تھا اعرابِ سمٰوٰات
اس کی غلَطی پر عُلَما تھے مُتَبسّم
بولا، تمھیں معلوم نہیں میرے مقامات
اب میری امامت کے تصّدق میں ہیں آزاد
محبوس تھے اعراب میں قرآن کے آیات!

سید علی محمد باب (پیدائش: 1820ء - انتقال: 1850ء) بابی یا بہائی مذہب کا بانی۔ اس کا باپ محمد رضا، شیراز کا تاجر تھا۔ سید علی محمد حصول تعلیم کے لیے کربلا گیا اور پھر شیراز واپس آکر چوبیس سال کی عمر میں (باب خدا تک پہنچنے کا دروازہ) ہونے کا دعوی کیا۔ اصفہان کا گورنر منوچہراس کا پیرو بن گیا۔ مرزا یحییٰ نوری جو بعد میں (صبح ازل) کہلایا۔ مرزا حسین علی نوری جو بہا اللہ کے نام سے مشہور ہوا اور آیت اللہ ملا برغانی کی حسین و جمیل لڑکی زرین تاج جو قرۃ العین طاہرہ کہلائی دونوں اس مذہب کے پرجوش مبلغ تھے۔

علما نے باب کی زبردست مخالفت کی اور اسے کافر قرار دیا۔ بادشاہ ناصر الدین قاچار کے حکم سے بالاخر تبریز کے چوراہے پر اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا اور لاش شہر سے باہر پھینک دی گئی۔ اس کے پیرؤوں کا عقیدہ ہے کہ اس کے مریدوں نے اس کی لاش کہیں چھپا دی اور پچاس سال بعد عبد البہا کے عہد میں فلسطین لے جا کر کوہ کرمل پر دفن کی۔ بہائی اسے مقام اعلیٰ کہتے ہیں۔ باب نے دو کتب بیان اور دلائل السبعہ تحریر کی تھیں۔ جن سے اس کے مذہبی عقائد کا مجملاً پتا چلتا ہے۔
حوالہ؛ مرزا حبیب اللہ افنان (2008). دی جینیسز آف دی بابی-بہائی فیتھس اِن شیراز اینڈ فارس. بِرل 2008. صفحہ 306. ISBN 9004170545.

ایک انتہائی اہم نکتہ کہ جس کی طرف توجہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جب آپ روایت سے انحراف کرتے ہیں تو یہ آسان نہیں ہوتا اس کیلیے آپ کو الزام تراشی کی نفسیات کا استعمال کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور یہی رویہ ہمیں خوارج و روافض ہوں یا دور جدید کے انجینئر محمد علی مرزا کے پرستار ان سب کے یہاں یکساں دکھائی دیتا ہے یعنی باقی سب تنگ نظر باقی سب فرقہ پرست باقی سب جاہل باقی سب غلط لازمی امر ہے کہ خود کو ہی درست قرار دینے کیلئے باقی سب کو غلط قرار دینا ضروری ہے اور یہی وہ بدترین فرقہ وارانہ اپروچ کے جس سے انجینئر صاحب اور ان کے مداح خود کو پاک قرار دیتے ہیں۔

آخر میں اپنا تجربہ بیان کردوں بطور مدرس اکثر طالب علم مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ دین کا مطالعہ کیسے کیا جائے اور اس سوال کے پیچھے بہت سے دوسرے سوالات ہوتے ہیں جب ان دوسرے سوالات کی کھوج کیلیے ان کے ذہن کی پرتیں کھولی جائیں تو ان میں اختلافی مسائل بھرے ہوئے ملتے ہیں اور میں ان کو صرف ایک ہی مشورہ دیتا ہوں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہ رض کا مطالعہ کیجیے کہ یہی صراطِ مستقیم ہے اور یہی مشورہ انجینئر صاحب کے پرستاروں کیلیے بھی ہے۔

اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر حسیب احمد خان

ڈاکٹر حسیب احمد خان ہمدرد یونیورسٹی کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ قرآن و سنت سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے الحاد، دہریت، مغربیت اور تجدد پسندی کے موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔ شاعری کا شغف رکھتے ہیں، معروف شاعر اعجاز رحمانی مرحوم سے اصلاح لی ہے

Click here to post a comment