عامر خان صاحب کی بابت مجھے کبھی کوئی ابہام نہیں رہا گو کہ یہ میرے پسندیدہ اداکار رہے ہیں، لیکن ان کے دینی افکار و نظریات پر ہمیشہ سے ایک سوالیہ نشان رہا ہے. اک زمانے میں ہمارے ملک کے ایک بڑے شیریں بیان واعظ صاحب نے عامر خان کو گود لیکر اسلامیانے کی پوری کوشش کی تھی. لیکن حقیقت زیادہ دیر نگاہوں سے اوجھل نہیں رہتی ، یہ 2015 کی بات ہے کہ جب عامر خان صاحب کی فلم "پی کے" منظر عام پر آئی کہ جو وحدت ادیان کی فکر کا کھلا مظہر تھی، اور اس کے اکثر عنوانات خالص الحادی تھے. ہمارے یہاں اس فلم کو بھی بہت اچھالا گیا. خادم نے 2015 میں ہی اس پر ایک تنقیدی کالم لکھا تھا، وہ پھر سے پیش خدمت اور عامر خان سائیکولوجی کو سمجھنے میں مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
"پی کے ہو کیا؟"... بچے کی آواز میرے کان میں پڑی تو میں چونکا.
"ارحم عمران ادھر آؤ."
"جی سر...!"
"یہ تم کیا بول رہے تھے".
"سر آپ نے وہ فلم نہیں دیکھی".
"کون سی فلم؟"
"سر آپ بھی نہ بالکل پی کے ہیں".
"ارحم...!"، میں نے سختی سے تنبیہ کی .
گھر آکر میں نے موویز سے متعلق سب سے بڑی ویب سائٹ (Imdb) کو چیک کیا تو (8.5) ریٹنگ کی اس فلم کی کوئی کونٹینٹ ا یڈ وائس یا (parental guidance for movies) موجود نہیں تھی. جب فلم دیکھی تو معلوم ہو کہ یہ ریٹڈ آر مووی ہے، جس میں انتہائی قابل اعتراض اور قبیح مواد موجود ہے ۔مغرب کے مادر پدر آزاد معاشرے میں بھی اتنی اخلاقیات موجود ہے کہ وہ اپنا سودا جھوٹ بول کر نہیں بیچتے فلموں کےلیے انہوں نے ریٹنگ کا ایک خاص نظام ترتیب دیا ہے. جو یہ بتلاتا ہے کہ کون سی فلم کون سے صارفین کےلیے مناسب ہے ،اور کس فلم کا مواد جنسی مضامین یہ تشدد کے درجات کے اعتبار کتنا درست ہے۔
ڈانسنگ کار یا جنسی عمل کے معا ونات کے حوالے کوئی ایسی کمتر چیز ہیں کہ انھیں نظر انداز کر دیا جاوے. یا کھلے عام بوس و کنار اتنی چھوٹی شے ہے کہ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر والدین بخوشی دیکھ سکیں. اسے کم سے کم الفاظ میں بےغیرتی کہا جا سکتا ہے جبکہ اس پر پیمرا کا کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا. کیونکہ اس سے ملک کے وقار کو ٹھیس نہیں پہنچتی . (اس دور میں پاکستان میں ہندی فلموں کی نمائش کی اجازت تھی). دوسری طرف سوشل میڈیا کے دیندار خوش ہو ہو کر بغلیں بجا رہے تھے کہ شاید کوئی بہت بڑا میدان فتح ہوگیا ہے اور توحید و شرک کا کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر لیا گیا ہے چونکہ فلم کے مشہور و معروف ہیرو نے کچھ عرصے پہلے پاکستان کے ایک معروف مبلغ اور داعی مولانا طارق جمیل صاحب سے ملاقات کی تھی. اسلئے اس فلم کو انکے کھاتے میں ڈالنے کی گمراہ کن کوشش بھی کی گئی ۔
فلم کو اگر تحقیقی نگاہ سے دیکھاجائے تو معلوم ہوگا کہ یہ فلم ہندو مذہب کے خلاف نہیں یا کسی بھی مذہب کی مذہبی رسومات کے خلاف نہیں. بلکہ یہ فلم ایک مذہب مخالف فلم ہے چونکہ ہر مذہب کچھ عقائد عبادات رسومات اور معاملات کا مجموعہ ہوتا ہے. اور اس فلم میں ہر زاویے سے دینی اقدار کا مذاق اڑایا گیا ہے . ہم یہ دیکھتے ہیں کہ فلم کی ابتدا میں فلم کے ہیرو برہنہ دکھائی دیتے ہیں چونکہ وہ ایک ایسی دنیا سے برآمد ہوے ہیں جو اس دنیا سے کہیں زیادہ جدید ترین ہے اور وہاں لباس جیسی فضولیات کی ضرورت نہیں. انیسویں صدی کے اوائل میں جرمنی میں ایک تحریک شروع ہوئی جس کا نعرہ تھا:" لباس سے مکمل آزادی"
(In the early 1900’s in Germany, a movement called Freikorperkultur (Free Body Culture) arose. This movement was the first real organization of social nudism. It was a time of the shedding of not only clothes, but also the hidebound values and thinking’s left from Victorian England. In the early 1900’s, several noted authors published papers which advocated the removal of clothing as well as an enlightened thinking about the human body. It implored citizens to quit thinking of the human body as sinful and shameful. A book entitled The Cult of the Nude written by noted German sociologist Heinrich Pudor, promoted naturist theories.)