ہوم << شخصیت پرستی کیوں خطرناک ہے؟ آصف امین

شخصیت پرستی کیوں خطرناک ہے؟ آصف امین

بت پرستی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جن کی پوجا کی جاتی تھی یا اب بھی کی جا رہی ہے، وہ اکثر اپنے وقت کے برگزیدہ اور نیک لوگ تھے۔ محبت اور عقیدت کے تحت ان کے مجسمے تراشے گئے، اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ محبت پرستش میں بدل گئی۔ حتیٰ کہ ان بتوں کو خدائی صفات سے متصف کر دیا گیا، اور یوں انسان نے اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے پتھروں کے آگے سر جھکانا شروع کر دیا اور ان بتوں کو انسان نے خدائی درجے پر فائز کر دیا

علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا:

بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے!

اسلام کا ظہور ایسے وقت میں ہوا جب دنیا بت پرستی کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ عرب معاشرہ لکڑی، پتھر اور دھات کے بتوں کو اپنا معبود سمجھتا تھا۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے "لا الہ الا اللہ" کا پیغام دیا اور اس فکری جمود کو توڑ کر انسان کو ایک اللہ کی بندگی کا درس دیا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ، جب بت پرستی کا خاتمہ ہوا، ایک نئی قسم کی پوجا نے جنم لیا، اور وہ تھی شخصیت پرستی۔

شخصیت پرستی بت پرستی سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ بت ایک جامد شے ہوتا ہے، اس میں احساسات نہیں ہوتے، وہ فیصلہ سازی کی طاقت نہیں رکھتا، لیکن جب ایک جیتا جاگتا انسان شخصیت پرستی کا محور بن جاتا ہے تو وہ نہ صرف اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھنے لگتا ہے بلکہ اس کے پیروکار بھی اس پر ہر قسم کی تنقید کو گناہ سمجھنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شخصیت پرستی معاشروں میں فکری جمود، انتہا پسندی اور تنگ نظری کو جنم دیتی ہے۔

دنیا میں جو اقوام ترقی کرتی ہیں، وہ شخصیات کے بجائے اصولوں کو مقدم رکھتی ہیں۔ وہ اپنے اکابرین کی عزت کرتی ہیں لیکن ان کی اندھی تقلید نہیں کرتیں۔ تحقیق اور تنقید کو آگے بڑھنے کا ذریعہ سمجھتی ہیں، اور ہر نظریے کو پرکھنے کے بعد ہی اسے اختیار کرتی ہیں۔ اس کے برعکس، جو اقوام شخصیت پرستی میں گرفتار ہو جاتی ہیں، وہ تحقیق اور اختلاف رائے کو گستاخی سمجھتی ہیں، جس کے نتیجے میں ترقی کا عمل رک جاتا ہے اور معاشرہ زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔

سوائے انبیاء علیہم السلام کے، کوئی بھی انسان کامل نہیں۔ ہر عظیم شخصیت کی زندگی میں کہیں نہ کہیں غلطیاں موجود ہوتی ہیں۔ کسی کی سوچ یا نظریے سے اختلاف کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس شخص کی عزمت کا انکار کر رہے ہیں۔ بلکہ اختلافِ رائے ہی کسی بھی نظریے کو مزید بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔ اگر ہم کسی شخصیت کے خیالات اور نظریات کو پتھر کی لکیر سمجھ کر قبول کر لیں اور ان پر تحقیق نہ کریں تو دراصل ہم ان کے علمی کام کو محدود کر رہے ہوتے ہیں، نہ کہ اس کی قدر میں اضافہ کر رہے ہوتے ہیں۔

دنیا کی جدید مثالیں دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ وہ ممالک جو تحقیق اور تنقید کو فروغ دیتے ہیں، وہی آج ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔ مغربی دنیا میں کسی بھی دانشور، سائنس دان یا سیاسی رہنما پر کھل کر تنقید کی جا سکتی ہے، ان کے نظریات کو رد یا بہتر بنایا جا سکتا ہے، جبکہ مشرقی دنیا میں، بالخصوص مسلم دنیا میں، شخصیت پرستی اس قدر سرایت کر چکی ہے کہ کسی بھی بڑے عالم، مفکر، یا سیاسی رہنما پر تنقید کو سازش یا گستاخی قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فکری جمود بڑھتا جا رہا ہے اور جدید علمی ترقی میں ہمارا حصہ برائے نام ہے۔

شخصیت پرستی کا ایک اور المیہ یہ ہے کہ اس میں مبتلا افراد اپنے رہنماؤں، اکابرین اور پسندیدہ شخصیات کے غیر انسانی افعال کا دفاع کرنے لگتے ہیں۔ چاہے وہ تاریخ کے ظالم حکمران ہوں، ناانصافی پر مبنی فیصلے کرنے والے جج ہوں، یا حالیہ دور کے سیاسی رہنما—ان کے پیروکار ان کے ہر عمل کو درست ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی کے علمی یا سماجی مرتبے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ غلطی سے مبرا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر کوئی عظیم شخصیت ہے تو وہ بھی انسان ہے، اور اس سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔

موجودہ دور میں سیاست اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ کسی بھی سیاسی رہنما کے چاہنے والے اس کی ہر پالیسی کو درست قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے وہ عوام کے مفاد میں ہو یا نہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ دنیا کے کئی آمر حکمرانوں نے عوام پر ظلم کیے، لیکن ان کے ماننے والے ہمیشہ ان کے دفاع میں دلائل گھڑتے رہے۔ یہی حال مذہبی شخصیت پرستی کا ہے، جہاں بعض رہنماؤں کو تنقید سے بالاتر سمجھا جاتا ہے اور ان کے ہر عمل کو تقدس کی چادر میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔

اگر ہم واقعی ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس شخصیت پرستی سے جان چھڑانی ہوگی۔ ہمیں اپنے اکابرین کی عزت کرنی چاہیے، لیکن انہیں انسان سمجھنا چاہیے، خدا نہیں۔ ہمیں ان کے علمی کام پر تحقیق کرنی چاہیے، ان کے خیالات کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے، اور جہاں ضرورت ہو، وہاں اصلاح بھی کرنی چاہیے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم واقعی بتوں کو توڑ چکے ہیں، یا انہیں ایک نئی شکل دے کر اپنی عقیدتوں میں چھپا لیا ہے؟ شخصیت پرستی ہمارے علمی، فکری اور سماجی ارتقا کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک ہم اندھی عقیدت کے خول سے باہر نہیں نکلیں گے، تب تک ہم حقیقت کی جستجو نہیں کر سکیں گے۔ تحقیق، مکالمہ، تنقید اور اختلافِ رائے ہی کسی بھی زندہ قوم کی پہچان ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے اکابرین کو مقدس شخصیات کے بجائے انسان سمجھنا ہوگا، جن کے خیالات اور نظریات کو پرکھا جا سکتا ہے، اور جہاں ضروری ہو، وہاں ان سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے۔

اگر ہم نے آج بھی اس حقیقت کو نہ سمجھا تو ہماری آنے والی نسلیں بھی اسی اندھی تقلید میں گرفتار رہیں گی، اور تاریخ ہمیں ایک ایسی قوم کے طور پر یاد رکھے گی جو شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا رہی اور سچائی کی تلاش کے بجائے اندھی عقیدت میں کھوئی رہی۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا ہم اسی روش پر قائم رہیں گے یا اپنی فکری زنجیروں کو توڑ کر ایک آزاد، تحقیق پر مبنی، اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد رکھیں گے۔