ہوم << احساسِ مروّت کو کُچل دیتے ہیں آلات - نامیہ سباس عباسی

احساسِ مروّت کو کُچل دیتے ہیں آلات - نامیہ سباس عباسی

محمد جمیل اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مینجر شہزاد اندر داخل ہوا اور آداب عرض کرتے ہوئے بولا،صاحب!میری بیٹی( دونیا )کافی دنوں سے بیمار ہے ۔بخار اس کی جان نہیں چھوڑ رہا. مجھے آج جلدی جانا ہوگا تاکہ میں اسے ہسپتال لے کہ جا سکوں اور ہوسکتا ہے ایک دو دن تک دفتر نہ آ سکوں، اس کا علاج کروانا ضروری ہوگیا ہے۔ مہربانی کرکے مجھے چھٹی دیجیے.جمیل صاحب نے منہ بسورتے ہوئے اجازت دے دی مگر ان کے ذہن میں ایک ہی سوچ موجود تھی کہ یہ چھٹی پر چلا گیا تو اس کے حصے کا کام کون کرے گا ؟

ابھی جمیل صاحب اس سوچ سے چھٹکارا پا رہے تھے کہ اتنے میں اکاؤنٹنٹ عمران اندر آیا. سلام کرکے کہنے لگا کہ مجھے صبح سے بہت تیز بخار ہے اور چکر بھی آ رہے ہیں، میں گھر جانا چاہتا ہوں، مجھے ابھی رخصت عنایت کیجیے تاکہ گھر جا کر آرام کر سکوں. اگر طبعیت کل تک ٹھیک نہ ہوسکی تو کل بھی نہیں آ سکوں گا ۔ جمیل صاحب کے بس میں نہیں تھا کہ اسے اس کی حالت دیکھ کر روک سکتے ،اس لیے ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے کہہ کر جانے کو کہا.

وہ ان دونوں ملازمین کے جانے پر سخت نالاں تھے ۔ لینچ بریک ہوئی، انہوں نے دوپہر کا کھانا کھایا اور ابھی نماز پڑھنے والے تھے کہ آفس بوائے اکرم اندر آیا ، کچھ دیر خاموش کھڑا رہا ۔ جمیل صاحب اسے دیکھ کہ کہنے لگے کہ اب تمھیں تو چھٹی نہیں چاہیے ؟ جی سر میری بیٹی کی شادی ہے اور مجھے ایڈوانس تنخواہ بھی دی جائے تاکہ میں شادی کروا سکوں، اور گھر میں بہت کام بھی ہیں، میں کچھ دنوں تک نہیں حاضر ہو سکوں گا ۔جمیل صاحب نے پریشانی میں عالم میں اسے کہا کہ تم بھی چھٹی پہ چلے جاؤ، اب مجھے تنہا چھوڑ دو، اور سیکرٹری (متین) سے کہو کہ اگر وہ بھی چھٹی پہ نہیں جانا چاہتا ہے ،تو میری اجازت کے بغیر کسی کو اندر نہ بھیجے. جمیل صاحب نے غصے بھرے لہجے میں کہا. اکرم تیزی سے باہر چلا گیا ۔

جمیل صاحب رات کو دیر سے گھر آئے. خانسا ماں کھانے پہ ان کا انتظار کر رہا تھا۔ اذہان ان کا اکلوتا بیٹا تھا جس کی والدہ اس کے بچپن میں ہی فوت ہوچکی تھی. اذہان کی دیکھ بھال بھی اس خانساماں نے ہی کی تھی. اب وہ یونی ورسٹی میں پڑھتا تھا۔
اذہان گھر میں ہی ہے کیا ؟ جمیل صاحب نے پوچھا۔
جی صاحب جی چھوٹے صاحب گھر پہ ہی ہیں، کھانا کھا چکے ہیں اور اپنے کمرے میں پڑھ رہے ہیں ۔

جمیل صاحب کا موڈ آج کافی خراب تھا. انھوں نے محمد وسیم کا نمبر ملایا جو ان کا جگری دوست تھا، اس کو آج دفتر کے حالات بتائے اور کہنے لگے کہ وسیم! ایک ایک کر کے تمام ملازمین چھٹیوں پہ جا رہے ہیں، اب میں دفتر جا کر کیا کروں گا، سب کو تنخواہ بھی وقت پہ دیتا ہوں، خدارا تم اس کا حل بتاؤ، مجھے تو کوئی حل نظر نہیں آ رہا ہے۔
وسیم بولے، جمیل تم اتنے پریشان نہ ہو، میں تمھیں حل بتاتا ہوں،غور سے سنو ،یہ حل سن کر اش اش اٹھو گے۔ پھر محمد وسیم نے حل بتا دیا ۔اگلے دو دنوں میں پندرہ ملازمین کو فارغ کر دیا گیا، جن میں شہزاد ،عمران اور اکرم بھی شامل تھے، جنھیں یقین نہیں ہو رہا تھا کہ جمیل صاحب نے کس لیے انھیں فارغ کر دیا ہے ۔ ان کی جگہ باہر سے چند روبوٹ منگوائے گئے جو گھنٹوں کا کام منٹوں میں کرتے تھے. کچھ ملازمین ابھی باقی تھے لیکن وہ باقاعدہ طور پہ دفتر میں حاضر رہتے تھے. انھیں یہ ڈر تھا کہ انہیں بھی فارغ نہ کر دیا جائے ۔دفتری معاملات اب بہتر ہوگئے اور ترقی بھی خوب ہوتی رہی. جمیل صاحب صرف دفتر میں کچھ دیر کے لیے جاتے۔ یہ سلسلہ جاری رہا ۔

عرصہ گزرا، جمیل صاحب کی صحت بگڑ گئی، گھر میں تنہا رہتے تھے. بیٹا اب بیرون ملک پی ایچ ڈی کرنے چلا گیا تھا ۔بیٹے کی یاد انھیں اندر سے دیمک کی طرح چاٹ رہی تھی۔ ایک دن بیٹے سے کال پر کہا، میں تمھیں بہت یاد کرتا ہوں، اب اپنے ملک آ جاؤ، اور میرے ساتھ رہو۔ بیٹے نے جوابا کہا کہ بابا آپ پریشان نہ ہوں، میں اب جلد ہی آ جاؤں گا ۔

جمیل صاحب اب اس کے آنے کی راہ تکتے رہتے تھے. کچھ دنوں بعد انھیں ایک بہت بڑا پارسل موصول ہوا . اس کے باہر یہ لکھا تھا کہ یہ مستقل طور پر آپ کے پاس رہے گا، اور آپ کو میری کمی محسوس نہیں ہوگی، یہ چوبیس گھنٹے آپ سے باتیں کرتا رہے گا ۔کانپتے ہاتھوں سے انھوں نے پارسل کھولا، اس میں ایک روبوٹ تھا جو انسانوں کی طرح باتیں کرتا تھا۔ یہ دیکھ کر ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے اور کہیں اندر ہی جذب ہو کر رہ گئے۔

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کُچل دیتے ہیں آلات