انسان روزِ اول سے اس حسین کائنات میں اپنے سے اوپر کسی اعلی ہستی کےلیے محوِ پرستش ہے. فطرت نے شروع سے ہی انسان کے اندر خود سے ماورا ذات کا تصور ودیعت کیا ہوا ہے.
پھر ضروری نہیں ہے کہ وہ پرستش صرف ذاتِ باری تعالیٰ کی ہی ہو.
کسی نے اگر پتھر کی پرستش میں خود کو محفوظ پایا اور وہاں ہی اسے سکون ملا تو اس نے اسی کو اپنا مرجع اور مأویٰ بنا لیا.
کسی کو اگر آتش کی پوجا میں راحت میسر ہوئی تو اسی کو مدبر الامور کا لقب دیا .
کسی نے اگر سورج کی پرستش میں حلِ مشکلات دیکھا تو گویا ان کے نزدیک یہی فطرت کی اصل پکار ہے.
پرستش کسی کی بھی ہو فالوقت ہمیں اس سے غرض نہیں، لیکن یہ بات تو طے ہے کہ انسان شروع سے ہی کسی نہ کسی ذات کا پیروکار ضرور تھا . خود سے اوپر کسی ایسی ذات کا تصور ضرور کرتا جو کسی کی محتاج نہ ہو، لوگ اسی کے محتاج ہوں وغیرہ وغیرہ.
اس سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ اس کائنات کا کوئی ایک خدا ضرور ہے. یہ انسان کی اختراع شدہ سوچ نہیں، بلکہ فطرت کی ودیعت شدہ ایک سچائی ہے، جس کا اقرار بے خدا مادہ پرستوں کو بھی ہے. لیکن کیا کریں کہ ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں، اس لیے وہ اس کا برملا اظہار نہیں کرتے.
پھر الہامی مذاہب نے آکر فطرت کی اس صدا کی صحیح سمت بتلائی، اس کی طرف رہنمائی کی، اور بتایا کہ تم جن جن مظاہر کی پرستش کررہے ہو، اصل میں وہ بھی آپ ہی کی طرح اللہ کی ایک مخلوق ہیں، اور مخلوق کسی بھی طرح کسی بھی حال میں خدا نہیں بن سکتی. "الخلق خلق وان ترقیٰ" مخلوق مخلوق ہی ہے چاہے وہ کتنی ترقی کرکے اونچے درجے تک پہنچ جائے، لہذا چونکہ یہ مظاہر مخلوق ٹھہرے، اس لیے اس کا کوئی ایک خالق ہونا ضروری ہے. جو ان کا بھی خدا ہو اور وہ "اللّٰہ" ہے.
تبصرہ لکھیے