ہوم << دستور ندوۃ العلماء کی ترمیمات و حقائق - ڈاکٹر عادل خان

دستور ندوۃ العلماء کی ترمیمات و حقائق - ڈاکٹر عادل خان

سابق ناظم ندوة العلماء رحمہ اللہ نے 1982 کی رودادِ ندوة العلماء میں دعویٰ کیا تھا کہ ترمیم دستور میں ان شرائط کو سامنے رکھا گیا ہے، جو دستور میں موجود ہیں، تاکہ دستور بازیچہ اطفال نہ بن جائے۔ اس پر ہم نے قسط اول میں لکھا تھا کہ اس دعویٰ میں سچائی نظر نہیں آتی۔ ہم آگے کے تقابل سے اس بات کو مزید مدلل کرنے کی کوشش کرتے ہیں :

دستور ندوۃ العلماء 1915 (مطبوعہ 1936) میں تمہید کے ضمن میں 3 دفعات کا بیان ہے، مقاصد ندوہ کے ضمن میں 2 دفعات کا بیان ہے، جبکہ دستور ندوۃ العلماء 1982 میں تمہید کے ضمن میں 3 دفعات کا ذکر ہے، مقاصد ندوہ کے ضمن میں صرف 1 دفعہ کا بیان ہے۔ اب ایک ایک بات کا جائزہ لیتے ہیں:

1. دفعہ 1 میں دونوں دساتیر ندوہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
2. دفعہ 2 میں بھی دونوں دساتیر ندوہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
3. دفعہ 3 میں دونوں دساتیر کے درمیان واضح فرق ہے۔

دستور ندوة العلماء 1915 میں درج ہے کہ ندوة العلماء کو کسی بھی سیاسی امر سے کوئی بحث یا تعلق نہ ہوگا، سوائے اس امر کے جس کی بابت خود گورنمنٹ اس کو مخاطب کرے۔ جبکہ دستور ندوة العلماء 1982 میں اس پورے جملے کو تبدیل کرکے لکھا گیا ہے کہ ندوة العلماء ایک تعلیمی، دینی، اصلاحی اور غیر سیاسی انجمن ہوگی۔

تبصرہ : 1982 کے دفعہ 3 کا صرف آخری حصہ "غیر سیاسی" ہی قدیم دستور سے لیا گیا ہے، اور "تعلیمی، دینی و اصلاحی انجمن" کا اضافہ کیا گیا ہے، حالانکہ اس کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے، کیونکہ مقاصد ندوہ کے تحت دفعہ 4 میں ندوة العلماء کی حیثیت طے ہوتی ہے کہ وہ کس مقصد اور کس مشن کے لیے بنائی گئی ہے. یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اس تبدیلی سے کیا فرق پڑے گا، تو ہم بتادیں کہ دستور میں چھوٹے سے چھوٹے لفظی ہیر پھیر سے معانی اور مقصد تبدیل ہوجاتے ہیں، اور یہاں جن تین چیزوں کا اضافہ ہے وہ سابق ناظم ندوة العلماء کے ذاتی افکار ورجحانات کے اثر کے تحت کیا گیا ہے، وہ ذاتی طور پر دینی، تعلیمی اور اصلاحی فکر کے حامل تھے.

لیکن تحریک ندوہ نے اپنے مقاصد کو بالکل واضح انداز میں بیان کیا ہے، اور ان کا نظریہ سابق ناظم ندوہ کے نظریہ سے کہیں زیادہ وسیع تھا، اس سلسلے میں آپ ابتدائی ایام کی روداد ندوہ کا مطالعہ کرسکتے ہیں. اس اضافے سے جو خرابی پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جب آپ یہ طے کردیتے ہیں کہ تحریک ندوہ ایک دینی اصلاحی اور تعلیمی انجمن ہے تو پھر آپ کو یہ اختیار مل جاتا ہے کہ انہیں الفاظ کو سامنے رکھتے ہوئے مقاصد ندوہ کی تشریح بیان کریں ـ اور ایسا کرنے کی وجہ سے ہی ندوہ ایک وسیع سمندر سے سکڑتے سکڑتے چھوٹا سا ڈبرا بن جاتا ہے.

مقاصد ندوۃ العلماء
دستور ندوۃ العلماء 1915 میں مقاصد کے تحت دو دفعات کا بیان ہے، دفعہ 3 اور 4، جبکہ دستور ندوہ 1982 میں مقاصد کے تحت صرف ایک ہی دفعہ کا بیان ہے۔ دوسرے دفعہ کو مقاصد سے ہٹا کر مراتب ابتدائی میں شامل کردیا گیا ہے، اور اس میں بھی ترمیم کی گئی ہے جسے ہم آگے بیان کریں گے۔دستور ندوۃ العلماء 1915 کے دفعہ 4 میں 6 مقاصد کا بیان ہے، جبکہ 1982 کے دستور میں 5 مقاصد کا بیان ہے۔ ہم ایک ایک مقصد کو بیان کر رہے ہیں۔

(۱) ترقی تعلیم (1915): اس مقصد کو 1982 کے دستور میں "دینی تعلیم و تربیت" سے تبدیل کردیا گیا ہے.
تبصرہ: قابل غور امر یہ ہے کہ ترقی تعلیم اور دینی تعلیم و تربیت میں زمین و آسمان کا فرق ہے، ترقی تعلیم کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تعلیمی نظام میں اپگریڈیشن کیا جائے، اور بہتر سے بہترین کی کھوج جاری رہے، اس سلسلے میں بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن اس مختصر سے مضمون میں اس کی گنجائش نہیں ہے، اب آپ 1982 کے دستور میں موجود "دینی تعلیم و تربیت" پر غور کریں، کیا دونوں کے درمیان کوئی مناسبت ہے؟ ہم نے اوپر ذکر کیا کہ دفعہ 3 کے اندر سابق ناظم ندوة العلماء رحمہ اللہ نے اپنے من مرضی تبدیلی کی، اور اس میں "دینی، تعلیمی و اصلاحی انجمن" کا اضافہ کیا.

اس تبدیلی اور اضافہ کے بعد ہی انھیں یہ حق حاصل ہوا کہ وہ ندوہ کے مقصد اول "ترقی تعلیم" کو تبدیل کرکے "دینی تعلیم و تربیت" کردیں، دوسرے لفظوں میں اسے تحریک ندوہ کی روح قبض کرنے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، کیونکہ دینی تعلیم و تربیت کے لئے 1892 میں دیگر مدارس موجود تھے، اس مقصد کے لئے ندوہ جیسی تحریک کی کوئی ضرورت نہین تھی ـ اور یہ کتنا خطرناک اور شنیع جرم ہے کہ کسی انجمن کو اس کے مقصد اصلی سے ہی ہٹا دیا جائے، ندوة العلماء نے 1895 کی روداد میں بالکل واضح طور پر لکھا ہے کہ "اس مجلس کا مقصد اصلی ترقی تعلیم اہل اسلام ہے اور باقی امور اس کے توابع ہیں"، کیا اس واضح اور دو ٹوک موقف کے بعد کسی بڑے سے بڑے عہدے دار کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اس تحریکی انجمن کے مقصد اصلی کے ساتھ اپنے ذاتی رجحانات کے تحت چھیڑ چھاڑ کرے اور اس کا چہرہ مسخ کرے؟

(۲) اصلاح طریقہ تعلیم علوم عربیہ (1915): اس مقصد میں کوئی ترمیم و اضافہ نہین ہوا

(۳) اسلامی اخلاق حسنہ کی ترویج (1915) :اس مقصد میں یہ اضافہ ہوا ہے کہ اس کے ساتھ "عقائد صحیحہ" کا لفظ جوڑ دیا گیا ہے، اور یہ بالکل درست اضافہ ہے.

(۴) اشاعت اسلام (1915): اس مقصد میں معلوم نہیں کیا پریشانی تھی کہ اسے 1982 کے دستور میں "دعوت و ارشاد" سے تبدیل کردیا گیا ہے! کہیں ایسا تو نہیں کہ اشاعت اسلام میں پیش قدمی کی جھلک ہو؟ یہاں یہ بھی سوچنے والی بات ہے کہ "ارشاد" کا تعلق کہیں نہ کہیں تصوف سے ہے، جبکہ بانیان ندوہ نے اسے مسند ارشاد سے محفوظ رکھا تھا، تاکہ وہ طبقات بھی ندوہ سے جڑیں جو ارشاد کی مسندوں سے انقباض محسوس کرتے ہیں۔ یہاں ٹھہر کر کیا ہم یہ سوال کر سکتے ہیں کہ آخر ایک عظیم الشان مقصد "اشاعت اسلام" کو چھوڑ کر ذیلی اور فروعی قسم کے مقصد کو کیوں شامل دستور کیا گیا؟ کیا اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سابق ناظم ندوة العلماء رحمہ اللہ اپنے ذاتی افکار و خیالات کو ندوة العلماء کے ذریعہ عمل میں لانا چاہتے تھے؟

(5) رفع نزاع باہمی
(6) بہبودی عام اہل اسلام (1915) :
یہ دونوں مقاصد علیحدہ علیحدہ بیان ہوئے تھے، کیوں کہ دونوں میں بہت فرق ہے۔ رفع نزاع باہمی بہبودی عام اہل اسلام کا جز بن سکتا ہے، لیکن بہبودی عام اہل اسلام، رفع نزاع باہمی کا جز نہیں بن سکتا۔ لیکن 1982 کے دستور میں معلوم نہیں کن وجوہات سے بہبودی عام اہل اسلام کو رفع نزاع باہمی والے خانے میں شامل کردیا گیا ہے، گویا کہ بہبودی عام اہل اسلام کے لیے صرف وہی کام کیے جائیں گے جو رفع نزاع باہمی کے لیے ہوں۔ والله أعلم بالصواب.

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر محمد عادل خان

ڈاکٹر محمد عادل خان کل ہند طلبہ مدارس فورم کے صدر ہیں۔ دارالعلوم ندوة العلماء کے فارغ التحصیل ہیں۔ دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بھی تعلق رہا، پھر جامعہ ہمدرد نئی دہلی سے Bums کیا۔ ان نسبتوں سے خود کو ندوی، قاسمی، علیگ اور ہمدردین کہتے۔ ایم ایس شعبہ علم جراحت (یونانی) میں پی جی اسکالر ہیں۔

Click here to post a comment