کاوشِ عشق پہ انعام اگر ہو جائے!
سامنا تجھ سے سرِ عام اگر ہو جائے!
ہر گھڑی سانس کے چلنے سے ہے سینے میں دُکھن
اس میں کچھ وقفۂ آرام اگر ہو جائے!
دل کی بے وجْہ سی رنجش کا مداوا تو نہیں
پھر بھی ملنے کی کوئی شام اگر ہو جائے!
جس نے مرجھا کے بکھرنا ہے نمو سے پہلے
اس کی خوشبو کا کوئی نام اگر ہو جائے!
کِھل اٹھیں قحط زدہ آنکھ میں اشکوں کے کنول
موسمِ صبر کا اتمام اگر ہو جائے
پھر کسی حرفِ نصیحت کی کہاں ہے حاجت!
روح پہ کرب کا الہام اگر ہو جائے
اب کہانی میں سنانے کو بچا ہی کیا ہے!
بہتری اس میں ہے انجام اگر ہو جائے
کاوشِ عشق پہ انعام اگر ہو جائے - ابوالحسین آزاد

تبصرہ لکھیے