بلاشبہ تعصب اور نفرت بندے کو نابینا کر چھوڑتی ہے ، انسان فرقہ ورانہ نفرت میں حق لکھنے ، سمجھنے سے محروم ہو جاتا ہے. یہ اتنی بری خصلت ہے کہ تحقیق کے نام پر جھوٹ لکھنا بھی کارثواب سمجھا جاتا ہے.
موصوف " محقق " نجم مصطفائی لکھتے ہیں:
”1908 میں جب مرزا غلام احمد ق کا انتقال ہوا تو ابوالکلام آزاد نے اس کا نماز جنازہ پڑھایا اور اپنے رسالے ”الہلال“ میں قادیانی کی موت پر اداریہ لکھا اور اس کی موت کو اسلام کا بہت بڑا نقصان قرار دیا. “
اس جھوٹ کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ مرزا غلام احمد کی وفات 1908ء میں ہوئی، اور مولانا آزاد رحمہ اللہ نے الہلال کی اشاعت جولائی 1912ء میں کلکتے سے شروع کی. تب مرزا غلام احمد کی وفات کو چار برس بیت چلے تھے. بلاشبہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے لیکن یہ خبر نہ تھی کہ جھوٹ کا سر بھی نہیں ہوتا کہ جو سوچ سکے اور اتنا بڑا الزام لگانے سے پہلے عقل کا استعمال کر سکے. یہ کیسے ممکن ہے کہ جو مجلہ ابھی عالم وجود میں آیا ہی نہیں اس میں مرزا کی موت پر اداریہ لکھا جا رہا ہے. ہمارے محقق جس طبقہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، وہاں ایسی کرامات گو عام ہیں اور ان کا بیان صبح شام ہوتا ہے ، لیکن عالم حقیقت میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا.
جب مرزا غلام احمد فوت ہوئے تب مولانا آزاد رحمہ اللہ کی عمر محض انیس برس کے قریب تھی ، اور مولانا کا کوئی دور نزدیک کا ظاہری ، اور معاشرتی تعلق بھی " امت مرزایت " سے نہ تھا کہ جس بنا پر ایسا احتمال بھی کیا جا سکتا یا سوچا جا سکتا کہ "امت مرزائیت ایک نوجوان لڑکے سے اپنے نبی کا جنازہ پڑھوا چھوڑے گی. اگر ایسا عجب معاملہ ہو گیا تو ماننا پڑے گا کہ ان کو خبر تھی کہ یہ نوجوان کل کو امام ہند ہو گا سو اس سے اپنے مبینہ " نبی " کا جنازہ پڑھوا لیا جائے کہ کل کو سند رہے اور " کام " آئے. مولانا تب لاہور سے دور رہتے تھے ، اور امرتسر میں ایک اخبار کے مدیر تھے، جبکہ مرزا لاہور میں فوت ہوۓ اور ٹرین پر ان کی میت قادیان لے جائی گئی اور حکیم نور الدین [ خلیفہ اول قادیانیت ] نے ان کا جنازہ پڑھایا. یہ بیان ان کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود کا ہے، جس میں انھوں نے اپنے والد کی بیماری کے آخری دنوں کی تفصیل اور تدفین کا ذکر کیا ہے.
مرزا جب فوت ہوۓ تب تک امت مسلمہ ان کے دعوی نبوت سے آگاہ ہو چکی تھی ، اور ان کی تکفیر پر اجماع ہو چکا تھا. عام مسلمان مرزا کے ان عقائد پر خاصے مشتعل تھے . مرزا بشیر الدین بھی اس دن کی روداد میں یہی لکھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد کی میت کو ، جاۓ وفات برانڈرتھ روڈ لاہور سے سٹیشن تک ، بہت مشکل سے فوجی پہرے میں لے جانا پڑا. اب مولانا آزاد کو نہایت محنت سے جنازے کا شریک کر کے لاہور سے قادیان تک کا ہم سفر کہہ کے عجیب و غریب جھوٹ گھڑا گیا ہے کہ اپنے زمانے کے امام اور عبقری مولانا آزاد ان حالات کا ادراک بھی نہ کر سکے کہ امت کسی درجہ مشتعل ہے اور آپ جنازے کے شریک سفر ہیں.
اب آتے ہیں اس کہانی کے اصل تخلیق کار کی طرف
یہ جناب عبد المجید سالک تھے - آپ ایک معروف صحافی اور اپنے وقت کے بڑے کالم نگار تھے. مولانا ظفر علی خان کے زمیندار سے ان کی اٹھان ہوئی. اصل میں یہ درفنطنی پہلے پہل انھی عبد المجید سالک نے چھوڑی تھی. انھوں نے اس سفر جنازہ میں آپ کی شرکت کا ذکر اپنی کتاب "یاران کہن" میں کیا ہے - انہوں نے لکھا ہے: "جن دنوں مولانا آزاد ماہنامہ وکیل امرتسر کی ادارت پر مامور تھے، انھی دنوں مرزا صاحب کا انتقال ہوا ، تو مولانا نے مرزا صاحب کی خدمات اسلامی پر ایک شان دار شذرہ لکھا ، امرتسر سے لاہور آئے اور یہاں مرزا صاحب کے جنازے کے ساتھ بٹالہ تک گئے ".
ایک بہت بڑی خرابی یوں ہوئی کہ یہ کتاب " یاران کہن " آغا شورش کاشمیری نے "مطبوعا ت چٹان " کے زیر اہتمام شائع کر دی کہ جو مرزائیت کے بڑے مخالف تھے اور ساتھ ہی ساتھ مولانا آزاد کے انتہائی عقیدت مند بھی. اس سے ان افواہوں کو تاریخی حیثیت ملنا آسان ہو گیا. ستم کی صورت یہ ہوئی کہ صاحب کتاب "یار کہن" عبد المجید سالک نے تو مولانا کو محض شریک سفر جنازہ ٹھہرایا مگر بعد میں مسلکی تعصب نے انھیں جنازے کا امام بنا دیا .
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ باوجود لڑکپن کے مولانا آزاد ، مرزا کی وفات کے دنوں میں ماہنامہ "وکیل " امرتسر کے مدیر تھے، لیکن یہ نرا جھوٹ ہے کہ آپ مرزا کے جنازے میں آئے یا میت کے ساتھ سفر کیا. اس جھوٹ کے ثابت کرنے کو اتنا ہی کافی و شافی ہے کہ اس سے پہلے اور بعد میں قادیانیت کے حوالے سے مولانا کی کوئی سرگرم دلچسپی نہیں ملتی، اور نہ ہی ایسی کسی دلچسپی کا کوئی بعید سا سراغ.
رہا " وکیل " میں کوئی شذرہ چھپنا تو عرض ہے کہ ایسا کوئی شذرہ سالک نے پیش کیا ، نہ کہیں اس کا کوئی واضح سراغ ملتا ہے - البتہ اگر ایسا ہوا بھی تو اس میں کہاں سے یہ لازم آ گیا کہ وہ مولانا کا لکھا ہوا تھا - الزام دلیل کا تقاضا کرتا ہے جو یہاں مفقود رہی. ہاں یہ ضرور ہے کہ حاملین مرزایت نے اس مشکوک شذرے کی بوجہ شہرت کی، لیکن یہ جرات ان کو بھی نہ ہوئی کہ کھل کے اس تحریر کو مولانا کی کہیں.
اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہم بیان مولانا کا ہے. جب یہ کتاب چھپی تو مولانا آزاد کی توجہ اس بیان کی طرف مبذول کروائی گئی. اس پر مولانا کے سیکرٹری اجمل خان صاحب نے عبد المجید سالک صاحب کو لکھا کہ " ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اور نہ اس کی کوئی حقیقت ہے. بہتر ہے سالک صاحب خود اس کی وضاحت کر دیں."
اس مطالبے کے بعد عبد المجید سالک نے اجمل خان کے نام وضاحتی خط لکھا اور اس کی نقل آغا شورش کاشمیری مرحوم کے نام بھی بھیجی ، اور ان سے اس کو چٹان میں شائع کرنے کی درخواست کی. اس خط میں سالک نے اس واقعے کی صحت بارے لکھا کہ یہ محض انھوں نے حافظے کے بل پر لکھ دیا تھا اور انھیں اس کی صحت پر کوئی اصرار نہیں ہے، بلکہ ان کے خط کے آخری الفاظ تھے : "بہرحال مجھے "یاران کہن " میں بیان کردہ واقعات کی صحت پر اصرار نہیں ، اور میں آپ تردید کے آگے سر خم کرتا ہوں - دہلی کلاتھ ملز کے مشاعرے میں 25 فروری کو دہلی آ رہا ہوں - ان شا اللہ آستانہ عالی پر حاضر ہو کے اعتذار پیش کروں گا ، حضرت مولانا کی خدمت میں آداب نیاز ..سالک "
ان کے اس "وڈراء " کے بعد یہ قصہ ہی ختم ہو گیا -
یہاں ایک اہم پہلو کی طرف آپ کی توجہ ضرور مبذول کروانا چاہوں گا.
عبد المجید سالک کا خاندانی پس منظر قادیانی تھا. آپ کے والد راسخ العقیدہ قادیانی تھے. ان کی یہ شہرت کوئی خفیہ یا خفیف نہیں بلکہ کھلی حقیقت تھی. جب سالک کے والد کی وفات ہوئی تو ان کے لواحقین ان کی تدفین کے لیے مسلمانوں کے قبرستان کو لے چلے - جھگڑا ہوا اور میت کا جلوس سرراہ رک گیا. بہت کچھ ردوقد ہوئی اور مجبورا لواحقین کو جنازہ مرزائی قبرستان لے جانا پڑا. اصولی طور پر دیکھا جائے تو یہی موصوف میت کا حق تھا کہ خاک وہیں پہنچتی جہاں کا خمیر تھا. سالک کے اس پس منظر سے آپ کو اس تمام قصے کی حقیقت تک پہنچنے میں آسانی ہو جائے گی. ہم نہیں کہتے کہ سالک قادیانی تھے، ان کا اس مذہب سے تعلق کا انکار قبول کرنا ہمارا فرض ہے، لیکن یہ ضرور سمجھا جا سکتا ہے کہ اس خاندانی پس منظر میں یہ ممکن ہے کہ ان سے ملنے والے قادیانی حضرات مولانا کے حوالے سے یہ بات دہراتے رہتے اور دعوے کرتے رہتے ہوں. سو اسی پس منظر میں سالک نے یہ سب لکھ دیا. بلکہ وضاحتی خط میں اس طرف اشارہ بھی کرتے ہیں - لکھتے ہیں : "مرزا غلام احمد کے انتقال پر اڑتالیس سال گذر چکے ہیں ، اور احمدیوں نے سینکڑوں دفعہ اس شذرے کو جو مرزا صاحب کے انتقال پر وکیل میں چھپا تھا ، شائع کر کے فائدہ اٹھایا."
یاراں کہن میں یہ سب چھپنے پر مولانا ابو الکلام آزاد، سالک سے دیرینہ تعلق کے باوجود ناراض ہو گئے. یہ خبر نہیں کہ آغا شورش بارے مولانا کا کیا ردعمل رہا. پاکستان بن چکا تھا. سالک پاکستان آ گئے تھے مگر جب دہلی کلاتھ ملز کے مشاعرے میں شرکت کو ہندستان گئے تو مولانا سے ملاقات نہ کر پائے.قصہ یوں تھا کہ مولانا ان سے ناراض تھے. انھوں نے ملنے کی صورت یہ نکالی کہ ایک روز سر راہ گذر کھڑے ہو گئے. مولانا آئے تو سالک آگے بڑھے ..مولانا نے ناراضی سے فرمایا کہ
"سالک تم نے یہ کیا حرکت کی ؟"
سالک بولے ، "مولانا اس کی تو تردید ہو گئی. "
اس پر مولانا نے کہا کہ " جائیے ، اور تردید کا حق ادا کیجیے."
اور گاڑی میں بیٹھ گئے.
مولانا کی گاڑی کب کی نکل گئی اور عظمت کی راہ پر ابھی تک بھاگی چلی جا رہی ہے. جن کے سائے تب بہت بڑے تھے ان کے اپنے قد بھی بونے بت بنتے جا رہے ہیں. اور مولانا ہیں کہ اس اگلی صدی میں بھی بلند تر ہی ہوتے جا رہے ہیں.
تبصرہ لکھیے