گلشن کائنات میں تعلیم انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ آداب اور الفت سے زندگی کا سفر طے کر پاۓ۔تعلیم ایسا قیمتی جوہر ہے جس سے انسان سچائی کے راستے کا انتخاب کر پاتا ہے اور رذائل اخلاق کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہتا ہے۔انسانیت کا احترام ،نیکی کا رجحان ٬بھلائی کی رعنائی اور محبت کے اجالوں کا سفر برقرار رہتا ہے۔سماج کی اساس کی مضبوطی ایمان اور صداقت کے اصولوں پر عمل کرنے سے ممکن ہوتا ہے۔ بنیادی طور پرتعلیم ہی تو ایسا مسلسل عمل ہے جس سے نہ صرف انسان مثبت اور منفی جذبات میں تمیز کر پاتا ہے بلکہ عزت نفس کا احساس بھی اجاگر ہو تا ہے۔بقول شاعر:
نامی بغیر کوئی مشقت نہیں ہوا
عقیق سو بار کٹا تب نگیں ہوا
تعلیم سے انسان کے قلب و جگر میں انقلاب آفرینی پیدا ہوتی ہے اور معراج انسانیت کے راز بھی آشکار ہوتے ہیں۔ سماج میں انسانی رشتوں کی اہمیت اور افادیت ،انسانی اقدار اور مصالحت کی حقیقت بھی تعلیم کے عمل سے عیاں ہوتی ہے۔دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ اس ضمن میں تعلیم سے انسان نہ صرف اپنی اصلاح کے قابل ہوتا بلکہ اصلاح معاشرہ میں بھی قابل تحسین کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔دنیا ایک عمل اور غوروفکر کا مقام ہے۔اس میں سوچ سمجھ کر زندہ رہنے کی ضرورت ہے۔ علم کا تعلق انسان کی روح سے ہے اس لیے علم کے نور سے انسان ضمیر کی آواز سن سکتا ہے اور زندگی کے تسلسل کو آسانی سے سمجھ بھی سکتا ہے۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ضمیر کی آواز وہی افراد سن سکتے ہیں جن کا باطن پاک اور دل ثروت علم سے بیدار ہوتا ہے ۔سماج میں پائی جانے والی برائیاں بخل ضد ،ہٹ دھرمی اور حسد تو ایسی بیماری ہے جس سے انسان کی زندگی میں نہ تو کوئی خواہش پوری ہوتی ہے اور نہ کوئی تمنا بر آتی ہے۔ان امراض سے اخلاقی آلودگی پیدا ہوتی ہے جس سے بچنے اور نیک راہ پر چلنے کی طاقت علم اور تعلیم سے ملتی ہے۔ اس بزم کائنات میں جو لوگ تعلیم کے زیور سے آراستہ اور بیدار ضمیر رکھتے ہیں وہ زندگی کے پوشیدہ رازوں سے اچھی طرح آگاہ ہوتے ہیں۔ محبت کی بنیادیں تو تعلیم کے زیور اور ثروت سے مضبوط ہوتی ہیں ۔اس کارگہ ہستی کی رونق اور بہار کی خوبصورتی بہت اہمیت رکھتی ہے۔تعلیم سے تو یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے۔
تعلیم کے عمل سے انسان اس کائنات میں آمد کے فلسفہ کو سمجھ سکتا ہے۔ حیات انسانی میں نکھار اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب ضمیر بیدار ہو اور زندگی کے سربستہ راز قابل فہم ہوں۔ حیات النبی ؐ میں تعلیم اور حکمت تعلیم کی جھلک بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ اس کی روشنی سے انسان میں طرز فکر و شعور کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور زندگی کا حسن نکھرتا ہے۔ ایک خوبصورت کیفیت بھی تعلیم کے زیور سے پیدا ہوتی ہے۔ اس ضمن میں یہ بات بخوبی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ قرآن مجید چونکہ علم کا محور و مرکز ہے اس لیے اس کی روشن تعلیمات سے واقفیت ضروری ہے۔ با مقصد زندگی تو اعتقادات٬ایمانیات٬عبادات٬اور معاملات سے آگاہی سے بسر ہوتی ہے۔ سماج میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی اہمیت اور حسن سلوک کے بارے میں جاننا تو عصر نو کی سب سے اہم ہے۔بقول شاعر:-
نہیں فقروسلطنت میں کوئی امتیاز ایسا
وہ سپہ کی تیغ بازی٬یہ نگاہ کی تیغ بازی
اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہونے کا شعوراور مقام شوق کی اہمیت کا احساس بھی تعلیم کے جوہر سے بیدارہوتا ہے۔ زندگی کے نقوش میں خوبصورتی ٬انقلابات اور آۓ روز رونما ہونے والی تبدیلیوں کا ادراک حاصل ہوتا ہے۔ زندگی با مقصد بسر کرنے کے لیے انسان کو علم کی ضرورت پڑتی ہے۔یہ بات ہر انسان بخوبی جانتا بھی ہےتعلیم کے زیور سے کردار کی تعمیر ہوتی ہے۔دینی تعلیم تو ہر مسلمان مرد اور عورت پر حاصل کرنا فرض ہے۔ تعلیم ہی سے تو یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انسانیت کا احترام بہت اہم ہے۔ اس کاٸنات میں رونق اور چہل پہل ہے اس کی بنیاد تو تعلیم ہے۔۔جو قوم تعلیم سے نا آشنا ہوتی ہے اور اپنے مقصد حیات سے غافل ہوتی ہے وہ اخلاقی،سماجی،معاشرتی پستی کا شکار ہوتی ہے۔ اسلاف کے کارناموں سے آگاہی تو وقت کی اہم ضرورت ہے ۔معرفت کے دروازے بھی تو تعلیم سے کھلتے ہیں۔انسان کے جمالیاتی ذوق اور جذباتی رویوں میں بھی تعلیم اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اور محبت کے تقاضے بھی پورے ہوتے ہیں۔ زندگی کو اگر پرسکون اور نتیجہ خیز بنانے کی تمنا قباۓ دل میں پوشیدہ ہو تو علم کے خزینوں کی تلاش ضروری ہے۔کتاب زندگی کا حسن تو علم اور عمل سے نکھرتا ہے۔
تبصرہ لکھیے