نوٹ: یہ مضمون میری تحریر نہیں، سوائے ابتدائی سطور کے؛ یہ عبدالکریم بریالی صاحب کے گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج پشین میں ایک نشست میں دیے گئے پشتو خطاب کا اردو ترجمہ ہے۔ جسے میں نے ترتیب دے کر ترجمہ کیا ہے۔
اقبال لٹریری سوسائٹی کی جانب سے 29 اگست 2024 کو منعقد ہونے والے ماہانہ ادبی پروگرام کا موضوع "ادب اور ادیب، اور معاشرے پر ان کے اثرات" تھا۔ اس تقریب میں عبدالکریم بریالی صاحب (پشتو اور اردو زبان کے نامور ادیب، شاعر اور محقق، ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور ستارۂ امتیاز) مہمان سپیکر تھے۔ ان کی موجودگی نے اس محفل کو چار چاند لگا دیے۔ انھوں نے ادب اور ادیب کے معاشرتی اقدار پر اثرات کے حوالے سے عمیق بصیرت پیش کی، جس نے شرکاء پر گہرا تاثر چھوڑا۔ یہ گفتگو نہ صرف روشن افروز تھی بلکہ نوجوان اسکالرز اور طلباء کے لیے ایک تحریک کا ذریعہ بھی ثابت ہوئی، جو ادبی اثرات کے معاشرتی حرکیات میں مہمات کو سمجھنے کے لیے بے تاب تھے۔
عبدالکریم بریالی صاحب کی گفتگو قابل ذکر تھی، جس میں انھوں نے ادب اور معاشرت کے متحرک تعلق پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے نہایت فصاحت کے ساتھ بیان کیا کہ ادب نہ صرف معاشرتی حقیقتوں کی عکاسی کرتا ہے بلکہ انھیں چیلنج کرنے اور تبدیل کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ ان کے دیے گئے کلاسیکی اور معاصر ادب سے مثالوں نے سماجی مسائل کے حل میں ادبی کاموں کی مستقل اہمیت کو اجاگر کیا اور قارئین میں تنقیدی سوچ کو پروان چڑھانے میں ادب کے کردار کو واضح کیا۔
یہ نشست تمام شرکاء، خاص طور پر طلباء کے لیے ایک حقیقی تعلیمی تجربہ ثابت ہوئی، جنھیں ایسے ممتاز دانشور سے مکالمہ کرنے کا موقع ملا۔ موضوع کی تعاملی نوعیت نے خیالات کے تبادلے کو مزید معنی خیز بنا دیا، جہاں طلباء نے سوالات پوچھے اور بریالی صاحب سے مدلل جوابات حاصل کیے۔ اس تعامل نے نوجوان اذہان کی علمی تربیت میں ایسی ادبی محفلوں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس نشست کی کامیابی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ایسے ادبی سرگرمیوں کا جاری رہنا ضروری ہے، جو ادب کے فروغ اور آئندہ نسلوں کے ادبی اسکالرز کی پرورش کے لیے ناگزیر ہیں۔
کریم بریالی صاحب کا لیکچر:
میں پرنسپل (گورنمنٹ ڈگری کالج پشین)، راہیاب صاحب، ڈاکٹر جاوید اقبال خٹک صاحب، حافظ رحمت نیازی صاحب، ڈاکٹر حافظ نقیب اللہ صاحب، اور دیگر اساتذہ اور اپنے پیارے شاگردوں سے مخاطب ہوں۔ آج میں اپنے لیے اسے اعزاز سمجھتا ہوں کہ تقریباً پچاس سال پہلے، میں یہاں استاد تھا۔ اور میں نے اس کالج (گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج، پشین) کا، جو بازار میں واقع تھا، افتتاح کیا۔ بہت اچھے شاعر، بہت اچھے پروفیسر ہمارے ساتھی رہے۔ جو میرے اپنے شہر (پشین) کے بہت عزت دار لوگ تھے۔ پروفیسر صاحبزادہ حمیداللہ صاحب، جو بہت بلند پایہ استاد تھے۔ پروفیسر راز محمد راز صاحب، جو بہت اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ یہ سب میرے بہت قریبی دوست تھے۔
میں اقبال لٹریری سوسائٹی کے صدر (سید عبدالوحید فانی)، کالج کے پرنسپل محترم سعداللہ صاحب (جو میرے ساتھ بیٹھے ہیں اور بہت مہربان انسان ہیں، ان کے ساتھ میرا گھریلو تعلق بھی ہے) کا مشکور ہوں۔ اور آپ سب اس علاقے اور اس زمین کے معزز لوگ ہیں۔ آج میں فخر محسوس کر رہا ہوں کہ میں آپ کے سب سے ہم کلام ہوں۔
میری زندگی کی کہانی اس طرح معنی نہیں رکھتی کہ میں آپ کو اس سے مکمل طور پر مطمئن کر سکوں۔ آپ ہر وقت کسی بھی چیز کے بارے میں سوالات پوچھ سکتے ہیں۔ اور محترم استاد صاحب نے جو موضوع اس لیکچر کے لیے منتخب کیا ہے، وہ ہے 'ادب اور ادیب اور معاشرے پر اس کے اثرات'۔ اس پر ہم گفتگو کریں گے۔
عزیز دوستو! ادب زندگی کی ایک ایسی سلیقہ مندی ہے جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور پھر جو احساسات اور جذبات کسی چیز کو دیکھنے پر جو ایک حالت یا کیفیت ہم پر طاری ہوتی ہے، اس کے ردعمل میں انسان کا دماغ جو مشاہدہ کرتا ہے، اس کے اندر جو جذبات ابھرتے ہیں، چاہے وہ اشارے میں ہوں، چاہے وہ کسی تحریر میں ہوں، چاہے وہ کسی شعر میں ہوں، یہ سب ادبیات میں شامل ہیں۔
ادب بہت سادہ بھی ہے اور بہت گہرا بھی۔ یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جس پر دنیا کی تمام زبانوں میں کام کیا گیا ہے۔ انسان کے تمام خیالات، تمام جذبات، تمام احساسات، جو وہ اپنے اندر محسوس کرتا ہے، یہ احساسات اور جو چیزیں وہ باہر مشاہدہ کرتا ہے ان کے ردِ عمل میں جو کچھ بھی سامنے آتا ہے وہ سب ادب میں شامل ہوتا ہے۔ ادب شاعری میں بھی آتا ہے، نثر میں بھی آتا ہے، ادب مختلف علامتوں میں آتا ہے۔ ادب کا ایک بہت وسیع مفہوم ہے۔ پچاس سال پہلے ہمارے ایک بزرگ استاد تھے، ڈاکٹر خدایداد، میں اس وقت یہاں استاد تھا اور میں نے مضمون لکھا تھا کہ 'ادب کیا ہے'۔ تب میں نے ایک مثال دی تھی کہ ادیب اور شاعر کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا ہو اور نیچے شہر کا مشاہدہ کر رہا ہو، ہر چیز کو دیکھ رہا ہو تو ہر چیز کسی نہ کسی طریقے سے اس پر اثر انداز ہو رہی ہوتی ہے۔ یا کوئی دل خراش منظر دیکھتا ہے اور اس میں جو ردِ عمل پیدا ہوتا ہے، چاہے وہ مزاحمتی ہو، ترحم کا ہو، غضب کا ہو یا محبت کا ہو، یہ سب ادب کی شکل اختیار کرتے ہیں۔
دنیا میں چھ ہزار سے زیادہ زبانیں ہیں۔ ان میں سے شاید دس فیصد ایسی ہوں گی جن میں ادب ہے، تاریخ ہے، ان میں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ نظم میں لکھی گئی ہیں، نثر لکھی گئی ہیں۔ یہ سب انسانی معاشرے کا عکس ہیں۔ یہ سب انسانوں کے خیالات ہیں۔ وہ خیالات جو انھوں نے بیان کیے ہیں۔ ان خیالات کو الفاظ کا لباس پہنایا گیا ہے۔ ان الفاظ کے لباس میں انسان کے تمام جذبات محفوظ ہیں۔ یہ اس تشفی کے لیے ہیں کہ جس کیفیت کو وہ محسوس کرتا ہے، اسے وہ الفاظ میں آپ تک پہنچا سکے۔
تصوف کی اصطلاح میں ادب کا ایک مفہوم ہے، اخلاقیات کی اصطلاح میں ادب کا دوسرا مفہوم ہے اور لٹریچر کی اصطلاح میں ادب نظم اور نثر ہے۔ اور نظم، نثر اور مختلف اصناف میں جو کچھ شامل ہے، اس کا لبِ لباب یہ ہے کہ انسان کے جذبات: خوشی کے، تکلیف کے، درد کے، اور محبت کے (ادب محبت کا گھر ہے) اور ان کا ردِ عمل، یہ سب اس میں آتا ہے۔
دنیا کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو بابل تہذیب کو قدیم ترین تہذیب کہا جاتا ہے، جو عراق کی سرزمین اور دریائے فرات کے کنارے پر وقع تھی۔ تقریباً ساڑھے چار ہزار سال قبل ایک بادشاہ تھا جس کا نام گلگامش تھا۔ اُس نے ایک چھوٹی سی کتاب لکھی، جس میں 'انکیدو' نامی کردار تھا۔ جیسے کہ آپ پرانی کہانیوں میں دیکھتے ہیں، جن میں دیو ہوتے ہیں، طاقتور کردار ہوتے ہیں، یا آج کل کی فلموں میں ایک ہیرو ہوتا ہے، اور کہانی میں ایک سنسنی خیز عروج آتا ہے۔ یہی انداز اس قدیم ترین ادبی تخلیق گلگامش کی کہانی کا بھی تھا، جس سے ادب کا سلسلہ جاری ہے۔ اور اسی طرح ہمارے تمام مذہبی کتابیں جیسے قرآن، بائبل، رگ وید، بھگوت گیتا، رامائن، زرتشت کی کتاب (اوستا) اور جتنے بڑے بڑے مذاہب ہیں، اُن کی کتابیں موجود ہیں۔ ان میں بھی ادب، تربیت، اخلاقیات اور محبت کے اسباق موجود ہیں۔
جب میں نے یہاں ابتدائی کلمات کہے تو میں نے 'اما بعد' کا ذکر کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ عربی زبان بہت گہری زبان ہے۔ میں نے ایک کتاب میں پڑھا کہ عربی میں ایک سیب کے بیس سے زائد نام ہیں۔ عربی ادب کے اثرات اس قدر زیادہ تھے کہ یہ عربوں کی ثقافت میں رچ بس گئے۔ ان کی کہاوتیں، مثالیں، اچھی باتیں اور کہانیاں سب ادب میں شامل ہو گئیں۔ آپ اگر قرآن کا غور سے مطالعہ کریں تو ہر تیسرے آیت میں ایک گہری حقیقت چھپی ہوتی ہے۔ اسی طرح بائبل میں بھی گہرے مفاہیم ملتے ہیں، جن سے انسان حیران رہ جاتا ہے۔ قرآن اور بائبل میں بہت سی مشترکہ باتیں ہیں، سوائے چند اختلافات کے، باقی دونوں کتابوں کا مضمون ایک جیسا ہے۔ میرے پاس دس قرآنی نسخے اور چھ بائبل ہیں۔ جب ایک سے تسلی نہیں ہوتی تو دوسرے میں دیکھتا ہوں۔ یہ سب ادبیات ہیں۔ قدیم عربی شاعری سے 'اما بعد' کی اصطلاح اسلامی ادب میں آئی ہے۔ ہر خطبہ دینے والا مولوی صاحب اس کا استعمال کرتا ہیں، اور یہ شاعر کا کمال ہے۔
عزیز دوستو! ادب کو آپ یوں سمجھیں جیسے معاشرے میں ہم سانس لیتے ہیں۔ ادب کو یوں سمجھیں جیسے جو کچھ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، اُس کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ عکاسی الفاظ کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ جیسے آپ کسی پہاڑی پر کھڑے ہو کر ایک ندی کا منظر دیکھتے ہیں، اس میں بہتی ہوئی پانی کی آواز، ایک سُر اور تال محسوس کرتے ہیں۔ یہ بھی فنونِ لطیفہ کا حصہ ہے جو ادب میں شامل ہے۔ سنگ تراشی ہو، انسان کے خیالات کا اظہار ہو، مصوری ہو، شاعری ہو، کہانیاں ہوں، یہ سب ادب میں شامل ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ یہ (ادب) تنقید ہے، زندگی کا آئینہ ہے اور زندگی کا سلیقہ ہے۔ چاہے وہ نظم میں ہو یا نثر میں، ادب انسان کی زندگی کے پاکیزہ سلیقے کو بیان کرتا ہے۔ اندرونی جذبات اور بیرونی اثرات کا امتزاج ہوتا ہے، اور وہ اثرات ہمیں دیے جاتے ہیں۔ یہ ایک قدرتی صلاحیت ہے اور اس صلاحیت کے لیے سب سے بڑا محرک انسان کی محبت اور حسن ہے۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
اللہ نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے۔ 'حُسن' ادبیات کا بنیادی عنصر ہے، اور جس چیز میں جمالیاتی جذبات نہ ہوں، وہ بیکار ہو گی۔ غالب کا شعر ہے:
عشق پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش غالبؔ!
کہ لگائے نہ لگے، اور بجھائے نہ بنے
یہ عشق وہ آگ جو پہلے لگائی نہیں جا سکتی اور جو ایک بار لگ جائے تو بجھتی نہیں۔
دنیا کے لوگوں نے پچھلے دو سو سالوں میں اس پر کتابیں لکھی ہیں کہ ادب کا زندگی سے کیا تعلق ہے؟ ادب کا فن اور ہنر سے کیا تعلق ہے؟ ایک اطالوی شاعر 'دانتے' 1265 میں پیدا ہوئے۔ اس نے حضرت محمدﷺ کی معراج کی کہانی سنی اور اس سے متاثر ہو کر تین کتابیں لکھیں: Paradise (بہشت)، Inferno (جہنم) اور Purgatory (برزخ)۔ یہ نو سو سال پرانی بات ہے، اور دانتے نے اسلامی ادب سے متاثر ہو کر ان کتابوں کو تخلیق کیا، جو دنیا کے بہترین ادب میں شمار ہوتی ہیں۔ اُس نے 'ابلیس' کا ذکر کیا، جو قرآن میں موجود ہے لیکن بائبل میں نہیں ہے، وہاں 'شیطان' کا ذکر ہے۔ یعنی Satan۔
ادب کا شعر اور وزن کے ساتھ تعلق ہے۔ انسان کے تمام جذبات، مشاہدات، حرکات، خیالات اور خواہشات ادب میں آتے ہیں۔ یہ انسان کی زندگی کا جامع حصہ ہے۔ آپ اپنی خوشی، درد، اور جذبات کو نثر میں بیان کریں یا نظم میں، یا کسی اور فن میں، یہ سب ادب کے شعبے ہیں اور انسان کی زندگی سے جڑے ہیں۔ ہر قوم کی شاعری اُس قوم کی عکاسی کرتی ہے۔
ادیب یا شاعر معاشرے کا فرد ہوتا ہے۔ وہ حساس ہوتا ہے، اُس کا مشاہدہ کرنے کی صلاحیت مضبوط ہوتی ہے، اور وہ ہمیشہ نئے خیالات سے متاثر ہوتا ہے۔
فراق گورکھپوری ایک ہندو شاعر تھے۔ وہ انگریزی کے پروفیسر تھے اور اردو کے بہت بڑے شاعر تھے۔ 1896 میں پیدا ہوئے اور 1916 میں کانگریس پارٹی میں شامل ہوئے۔ 1928 تک دس سال کانگریس کے جنرل سیکریٹری رہے۔ وہ جواہر لال نہرو کے خاص آدمی تھے اور خالص اردو بولتے تھے۔ میرے استاد، جو ان کے شاگرد تھے، ہمیشہ ان کی کہانیاں سناتے تھے۔ ہندو، فراق کے اردو لکھنے اور مسلمانوں کی حمایت کرنے کی وجہ سے انہیں زیادہ پذیرائی نہیں دیتے تھے۔ 1948 میں جب بابری مسجد کا واقعہ ہوا اور ہندو وہاں اندر داخل ہوئے، چراغ جلائے اور کچھ بت رکھے اور پھر دروازہ بند کرکے نکل گئے۔ تو تب فراق پہلے شخص تھے جو مسلمانوں کے حق میں کھڑے ہوئے، اور انہوں نے جواہر لال نہرو کو فون کیا جو اس وقت ہندوستان کے وزیر اعظم تھے، اور کہا کہ ہندو کس طرح دوسرے کے گھر میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یعنی انھوں نے ان کی مذمت کی۔
فراق نے کہا تھا کہ ایک ادیب اور شاعر کو خدا نے ایک فطری صلاحیت دی ہے کہ وہ شاعری کرے، لیکن اس کے لیے شاعر کا کردار کمزور نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا ادب عالمی معیار تک نہیں پہنچ سکتا اگر اس کا کردار مضبوط نہ ہو۔ شاعر لازماً باکردار ہو، اس کی تربیت کی گئی ہو، اور وہ اپنے فکر اور عمل میں پختہ ہو، تب ہی وہ کوئی عمدہ تخلیق کر سکتا ہے۔
یورپ کا پہلے زمانے میں مقام وہ نہیں تھا جو آج ہے، کہ پوری کائنات اس کے زیرِ اثر ہے۔ اور ہم بھی پردیس صاحب کی اصطلاح کے مطابق "خیالی جنت" میں مگن ہیں۔ یورپ میں انقلاب آیا۔ اور وہاں کلاسیکی شاعری بھی کی جاتی تھی۔
کلاسیکی ادب کا ایک بہت گہرا مفہوم ہے۔ کلاسیک کا ایک تعریف یہ ہے کہ وہ قدیم چیز جس میں وہ قدریں موجود ہوں جو آفاقی ہوں۔ یورپ میں کلاسیکیت کا ایک تحریک شروع ہوا جو بعد میں فرانس تک پہنچا اور وہاں یہ رومانی تحریک میں بدل گیا۔ رومانوی تحریک بھی ایک ادبی تحریک تھی۔
ترقی پسند سوچ بھی اسی زمانے میں چل پڑی تھی۔ 1917 کے انقلاب کے بعد 1920 میں فرانس میں دوبارہ پروگرام کیا گیا۔ پھر 1935 میں ہندوستان میں ترقی پسندوں کا اجتماع ہوا جہاں یہ طے کیا گیا کہ ادب میں پھول، زلفوں اور عشق کے بجائے انسان کی زندگی کی محنت اور مزدوری کا عکس ہونا چاہیے، یعنی انسان کے فطری خیالات پر پابندی لگائی گئی۔
ادیب معاشرے کا فرد ہوتا ہے۔ وہ معاشرے میں تبدیلی لا سکتا ہے، انقلاب برپا کر سکتا ہے، اچھائی کی تبلیغ کر سکتا ہے، برائی کی روک تھام کر سکتا ہے، لوگوں کی اصلاح کر سکتا ہے، اور زبان کو درست کر سکتا ہے۔ معاشرے کا ہر واقعہ اس کے لیے ایک پلاٹ ہے۔ تقریباً آدھے شعراء اپنی نفسیاتی مسائل کی وجہ سے پاگل بھی ہوئے ہیں۔
تبصرہ لکھیے