ہوم << ڈاکٹر آکاش انصاری کا اندوہناک قتل، وجہ کیا ہے؟ راؤ محمد اعظم

ڈاکٹر آکاش انصاری کا اندوہناک قتل، وجہ کیا ہے؟ راؤ محمد اعظم

سندھی زبان کے مشہور شاعر، قوم پرست رہنما، اور سماجی کارکن آکاش انصاری کے بہیمانہ قتل نے پورے سندھ کو سوگوار کر دیا ہے۔ ایک ایسا شاعر جس کی شاعری نے ہزاروں دلوں کو گرم جوشی بخشی، خود اپنے لے پالک بیٹے کے ہاتھوں اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ یہ سانحہ صرف ایک قتل نہیں بلکہ ہمارے سماج کے بگڑتے ہوئے رویوں، ناقص تربیت، اور زوال پذیر اخلاقیات کی ایک تلخ مثال ہے۔

قاتل کون؟ وجہ کیا تھی؟
اطلاعات کے مطابق، آکاش انصاری کو ان کے لے پالک بیٹے نے بے دردی سے قتل کرنے کے بعد ان کی لاش کو آگ لگا دی تاکہ حقیقت کو چھپایا جا سکے۔ ابتدائی طور پر اسے ایک حادثہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی، مگر بعد ازاں جب پولیس نے تفتیش کی تو قاتل نے اعتراف جرم کر لیا۔ قتل کی وجہ نفرت اور پرانی رنجش بتائی جا رہی ہے۔ مقتول کا بیٹا الزام لگاتا رہا کہ اس کے والد اسے "پاسٹرڈ" کہہ کر بلاتے تھے، اور ان کے درمیان پہلے بھی جھگڑے ہو چکے تھے۔ مزید اطلاعات کے مطابق، قاتل نشے کا بھی عادی تھا، خاص طور پر "آئس" جیسی مہلک منشیات کا۔

یہ واقعہ کن عوامل کا نتیجہ ہے؟
یہ سوال بہت اہم ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے ایک لے پالک بیٹے کو اپنے ہی والد کا قاتل بنا دیا؟ اس واقعے کے پس پردہ کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں تربیت کی کمی، غلط صحبت، ذہنی دباؤ، اور منشیات کا اثر شامل ہیں۔

1. ناقص تربیت اور والدین کا رویہ
تربیت والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ایک لے پالک بچے کو محبت، شفقت اور اعتماد دینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ احساسِ محرومی کا شکار نہ ہو۔ اگر اکاش انصاری واقعی اپنے بیٹے کو طعنوں اور حقارت سے نوازتے تھے تو یہ انداز تربیت کے اصولوں کے خلاف تھا۔ والدین کا رویہ بچوں کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اگر ایک بچہ مسلسل نفرت، توہین اور بے اعتنائی کا سامنا کرے تو اس کے اندر غصہ اور انتقام کے جذبات پنپنے لگتے ہیں۔

2. غلط صحبت اور منشیات کا زہر
قاتل کا آئس جیسے نشے کا عادی ہونا اس قتل کی ایک بڑی وجہ ہو سکتا ہے۔ آئس اور دیگر نشے دماغ پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں اور انسان کو حد درجہ مشتعل، بے حس اور بے رحم بنا دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان کئی گھر اجاڑ چکا ہے۔ اگر قاتل واقعی نشے کا عادی تھا، تو یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ وہ کن لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا تھا؟ کس نے اسے اس راہ پر لگایا؟ اور سب سے بڑھ کر، والد کی حیثیت سے اکاش انصاری نے اسے اس سے دور رکھنے کی کتنی کوشش کی؟

3. احساسِ کمتری اور نفسیاتی مسائل
اگر ایک بچہ مستقل طور پر والدین کی جانب سے دھتکارا جاتا رہے تو اس کے اندر احساسِ کمتری پیدا ہو جاتا ہے، جو بعد میں غصے اور انتقام میں بدل سکتا ہے۔ لے پالک بچے اکثر شناخت کے بحران کا شکار ہوتے ہیں اور اگر انہیں محبت اور رہنمائی نہ ملے تو وہ ضدی، چڑچڑے اور بعض اوقات مجرمانہ ذہنیت کے حامل بن جاتے ہیں۔

4. سماجی بے حسی اور عدم برداشت
یہ واقعہ ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور جذباتی عدم استحکام کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ ایک وقت تھا جب والدین اور اولاد کے درمیان محبت اور ادب کا ایک خوبصورت توازن ہوتا تھا۔ مگر آج ہم دیکھتے ہیں کہ یہ توازن ختم ہوتا جا رہا ہے۔ نفرت، غصہ اور انتقام جیسے جذبات ہمیں اندھا کر رہے ہیں اور ہم اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔

ہمارے لیے سبق کیا ہے؟
یہ سانحہ ہمیں کئی تلخ حقائق سے روشناس کراتا ہے:
1. والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو عزت دیں، ان کی نفسیاتی ضروریات کو سمجھیں اور انہیں طعنے دینے یا حقیر سمجھنے کے بجائے پیار اور مثبت رہنمائی فراہم کریں۔
2. منشیات کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں، اور نوجوانوں کو اس لعنت سے بچانے کے لیے مؤثر مہم چلائی جائے۔
3. والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی ذہنی صحت اور صحبت پر گہری نظر رکھیں تاکہ وہ کسی غلط راہ پر نہ چل پڑیں۔
4. سماجی سطح پر ایسے معاملات پر گفتگو کی جائے تاکہ ہم اس زوال پذیر معاشرتی اخلاقیات کو بہتر بنا سکیں۔

آکاش انصاری جیسے شاعر کا اس بے دردی سے قتل ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر ہم اس سے سبق نہ سیکھے تو شاید ہم مزید ایسے المناک واقعات کے گواہ بننے پر مجبور ہو جائیں گے۔