ہوم << میرے دیس کے معلمین قرآن کو حق دو - محمد بختیار ظفر

میرے دیس کے معلمین قرآن کو حق دو - محمد بختیار ظفر

دوستو! شب جذبات کی بھی اپنی کہانی ہوتی ہے. جہاں سناٹا ہوتا ہے وہیں دہائی بھی ہوتی ہے. چیزوں کا بھی آپس میں لین دین ہوتا ہے. بات صرف دیکھنے کی ہی نہیں ہوتی سمجھنے کی بھی ہوتی ہے. گہرائی بھی بڑی عمدہ چیز ہوتی ہے. اس کی وسعت کے کیا کہنے ، ازل سے ہی کمال ہے ۔۔کبھی کبھی جذباتی ہونے کا بھی دل کرتا ہے، سکون کے ساتھ جنون بھی ہوتا ہے، سب کی اپنی اپنی کہانی ہوتی ہے، راستے مختلف بھی ہوں تو منزل ایک ہی ہوتی ہے۔ معاملات تو حل ہو ہی جاتے ہیں مگر پیار و محبت سے ہو جائیں تو اس میں دل جیتے جا سکتے ہیں. کہنے کو تو زمانہ بھی مٹھی میں بھی بند ہو جاتا ہے ناانصافی بھی بڑی عجب چیز ہے بندے کے دل و دماغ کو جگا ضرور دیتی ہے سکون سے بیٹھنے نہیں دیتی اور کئی مرتبہ ردعمل میں زمانہ سازی بھی کر جاتی ہے۔

دوستو ! آج کا موضوع انتہائی سنجیدہ ہے اور ہمارے لیے لمحہ فکریہ بھی، اور اس کالے نظام پر وہ کالا داغ ہے جس کو پختہ ہونے میں ہمارے "پالیسی میکرز " نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔۔آخر یہ باطل کا نظام کب ختم ہو گا؟ ناانصافیاں ،انصاف میں کب بدلیں گی؟ کیا یہ محض خواب و سراب ہی ہیں ؟ ہر گز نہیں جب جنون انتہا کو پہنچتا ہے تو بڑے بڑے فرعون جھک جاتے ہیں. ظلم جب اپنی حد کو چھوتا ہے تو عدل کے دروازے سر پاؤں مارنا شروع کر دیتے ہیں. کیونکہ "ظلم تو پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے "۔

جی ہاں قارئین ! میرے دیس کے روحانی معماروں ،قرآن و قرات کی ترویج کرنے والے ،سکولوں کے ننھے بچوں کے دلوں میں حب رسول پیدا کرنے والے ،سنت رسول کو اجاگر کرنے والے ،میرے دل کی آواز ،میرے "معلمین قرآن " کے ساتھ بہت سنگ دلی ہے. کیا ان کے خاندان اور ان کے اپنے پیارے نہیں ہیں ؟ تم کرو گزارا لاکھوں میں اور یہ چند ہزاروں میں ۔۔کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ کیا تمھیں دکھائی نہیں دیتا !؟ کیا تمھاری عقل کام نہیں کرتی !؟ کیا تمھیں قرآن کا درس دینے والے معمولی لگتے ہیں !؟ کیا تمھیں وہ کم تر دکھائی دیتے ہیں اور تم خود کو کیا سمجھ بیٹھے ہو؟ تم روحانیت کو چھیڑتے ہو !؟ تم قرآت سکھانے والو اور دینیات پڑھانے والوں کو چھیڑتے ہو ؟

قارئین !سنگ دلی کی بھی انتہا ہوتی ہے. دوہرے معیار کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے. حد اتنی ہے کہ میرے دیس کے "معلمین قرآن " گیارہ سالوں سے سکیل ایک میں کام کر رہے ہیں. گزشتہ دو حکومتوں نے انھیں "لولی پاپ " اور "ڈنگ ٹپاؤ " کے علاوہ کچھ نہیں دیا. اگر باقی تمام محکموں کی "اپ گریڈیشن " ہوتی ہے تو ان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں؟ "معلمین قرآن " کی اپ گریڈیشن اور ان کے مطالبات کی فائل دو مہینوں سے محکمہ مال میں پڑی ہے. حکومت اس پر عمل درآمد کرنے سے قاصر کیوں ہے ؟ روحانی پیشواؤں کے ساتھ ایسا سلوک دل پر ضرب کاری لگاتا ہے اور دل بھی بول اٹھتا ہے "کالا قانون نامنظور ، ایک ملک دو قانون نامنظور". فرط جذبات میں کیا اسیری کیا رہائی!؟ اب "معلمین قرآن " چپ نہیں بیٹھیں گے. ہاں! بس بہت ہو گیا کہ ایسے دستور کو ،صبح بے نور کو میں نہیں مانتا ،میں نہیں جانتا ۔

جی ہاں قارئین ! مسائل کا سدباب اب ہوا چاہتا ہے، غم کے نگر میں جذبات مل ہی جاتے ہیں. ضلعی صدر معلمین قرآن کوٹلی قاری عابد صاحب سے بڑی تفصیلی بات ہوئی، جنھوں نے بڑی فراست کے ساتھ اپنے مطالبات پیش کیے.
مطالبہ نمبر1 : تمام "معلمین قرآن " کی اپ گریڈیشن کی جائے۔
مطالبہ نمبر 2: جو معلمین اعلیٰ تعلیم کے حامل ہیں، ان کے لیے "پچاس فیصد " کوٹے کا تعین کیا جائے۔
مطالبہ نمبر 3 : متاثرین کو بحال کیا جائے جو اس وقت بلامعاوضہ سکولوں میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور آمدہ بجٹ میں ان کی ایڈجسٹمنٹ کے لیے پوسٹیں مختص کی جائیں۔

قارئین ! یہ تھے معلمین قرآن کے استحقاقی اور ڈنکے کی چوٹ پہ مطالبات
اس ضمن میں مرکزی صدر معلمین قرآن آزاد کشمیر کی کال پر ضلعی صدر معلمین قرآن کوٹلی قاری عابد صاحب کی زیر صدارت اجلاس ہوا ، جس میں ضلعی باڈی کی تمام کابینہ ( حافظ اعظم نقشبندی صاحب،راسب حسین صاحب،علامہ اشتیاق صاحب ،قاری مسعود نقشبندی، قاری سعید صدیقی،حافظ محبوب الرحمن، حافظ امجد نیازی و دیگر )نے شرکت کی اور اپنے مطالبات ایک بار پھر دہرائے اور یہ بھی باور کروایا کہ اب بھی اگر ان کے مطالبات فوری طور پر نہیں مانے جاتے تو پھر شبنم سے شعلہ بننے میں ذرا بھی دیر نہیں لگے گی، اور یہ صبر "16مئی " تک لبریز ہو جائے گا. سڑکوں اور چوراہوں پر آمد بالکل متوقع ہوگی اور دامن دل و دامن روح سے ہوگی کہ

اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں

قارئین محترم کچھ معاملات سانجھے ہوتے ہیں. راستے مختلف بھی ہوں، مگر آہیں اور سسکیاں ایک جیسی لگتی ہیں. یہ صرف معلمین قرآن والوں کا ہی مسئلہ نہیں، یہ آپ کا بھی مسئلہ ہے، یہ میرا بھی مسئلہ ہےاور یہ ہر اس شخص کا مسئلہ ہے جس کی دل کی دھڑکن میں سچائی ہے. کاش ان مطالبات کی گونج ایوانوں تک بھی پہنچے اور کوئی سوال کرے کہ تم نے آنحضور کا یہ فرمان بھلا دیا "تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن خود سیکھے اور دوسرے کو سکھائے "۔۔کیاتم اس دائمی عدالت کو بھی بھول گئے جہاں تم بہہ جاؤ گے ۔

دوستو ! جہاں دیگر محکموں کے ملازمین کو اتنی مراعات دی جائیں، تو ادھر میرے دیس کا یہ صاف و شفاف طبقہ جو" قرآن "سیکھ کر آئے ، جو اپنے سینے میں حب رسول کی انتہا لے کر آئے، تو اس کے ساتھ دہرا معیار کیوں !؟ دلی جذبات بھی ابھرتے ہیں بلکہ ابھارے جاتے ہیں ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان مگر اسلامی حفاظ کا یہ حال !؟ مساوات کہاں ہے ؟ انصاف کہاں ہے؟ ستم ظریفی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے. ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ طبقہ ہمارے "سر آنکھوں "پر ہونا چاہیے تھا، کیونکہ یہ ہماری نسلوں کو دین دار بنتا ہے، معاشرے کے قابل بناتا ہے، اونچ نیچ کی گہرائیاں بتاتا ہے، حقیقی اور اضافی الاؤنس اور مراعات کے اصل حقدار تو یہ ہیں،مگر عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے ۔

عزیز دوستو ! سوالات تو بہت جنم لیتے ہیں، بات سوچنے کی ہے، دلوں سے گرد کے غبار اتار کر اور طلسماتی دنیا سے نکل کر دیکھنے کی ہے !! پس میرے دیس کے معلمین قرآن بھی زندہ باد ، میرے دیس کے روحانی پیشوابھی زندہ باد ، میرے دیس کے امام مسجد بھی زندہ باد . ظلم کی سنگ دلی تک زور قلم جاری و ساری رہے گا .