ہوم << کیپٹن راجہ محمد سرور (شہید) نشانِ حیدر - خورشید بیگم

کیپٹن راجہ محمد سرور (شہید) نشانِ حیدر - خورشید بیگم

جب تک نہ جلیں دیپ شہیدوں کے لہو سے
کہتے ہیں کہ جنت میں چراغاں نہیں ہوتا

کیپٹن راجہ محمد سرور شہید 10 نومبر 1910ء کو فیصل آباد کے ایک گاؤں 229 گ ب میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے تاندلیانوالہ کے ایک سکول سے مڈل پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول طارق آباد سے میٹرک پاس کیا ۔ بچپن میں اپنی عمر کے دوسرے بچوں سے مختلف تھے۔ پڑھائی کا شوق اور عادات و اطوار میں سنجیدگی پائی جاتی تھی۔ میٹرک کے بعد 1927ء میں فوج میں چلے گئے۔ سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوئے، اور ترقی کرتے کرتے 1940ء میں کیپٹن کے عہدے پر پہنچ گئے۔

کیپٹن سرور شہید ایک خدا ترس انسان تھے ۔ہمیشہ غریبوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ نمازی، پرہیز گار اور نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔ انھوں نے جرآت اور بہادری کی وہ مثال قائم کی جسے آج تک یاد کیا جاتا ہے۔ 1947ء میں جب پاکستان بنا تو انڈین فوج نے کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ پاک فوج نے کشمیر کا کچھ حصہ تو آزاد کروالیا۔ اس دوران کا واقعہ ہے کہ ایک پہاڑی جس کا نام کل پترا ہے انڈین آرمی کے قبضے میں تھی۔ یہی انڈین آرمی کا پوائنٹ تھا ، جہاں سے سری نگر کا راستہ کٹ جاتا تھا۔ یہ پہاڑی بہت زیادہ اونچائی پر تھی ۔ جب ہمارے جوان پہاڑی پر جانے کی کوشش کرتے ، دشمن وہاں سے فائرنگ شروع کر دیتے جس کی وجہ سے ہمارے فوجی جوان شہید ہو جاتے۔

پاک آرمی کے ایک میجر نے کہا کہ کون ہے جو اپنے ساتھ جوانوں کو لے جائے اور اور پہاڑی پر قبضہ کرلے ؟ کیپٹن سرور جن کی کور سگنل تھی اور یہ شعبہ ان کا نہیں تھا پھر بھی انھوں نے اپنے آپ کو اس نیک کام کے لئے رضا کارانہ طور پر پیش کیا۔ 27 رمضان المبارک کو کیپٹن سرور روزہ کی حالت میں سحری کے وقت اپنے مشن کے لئے نکلے اور جذبہ ایمانی سے سر شار اندھیرے میں زمین پر رینگتے ہوئے پہاڑی کی طرف بڑھنے لگے۔ پہاڑی کے قریب پہنچ کر انھوں نے وہ تار کاٹنا شروع کی جو دشمن نے پہاڑی کے گرد لگا رکھی تھی ۔ آہٹ سن کر بھارتی فوجی چوکنا ہو گئے۔ وہاں موجود گن مین نے فائر کھول دیا۔ کیپٹن سرور کے بازو پر ایک گولی لگی مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنا کام کرتے رہے۔ تار کاٹتے ہوئے بالآخر رستہ بنا کر انھوں نے مشین مین پر حملہ کر دیا ۔ فائرنگ دوبارہ ہوئی اور دوسری گولی ان کی چھاتی پر لگی لیکن راستہ صاف ہو چکا تھا ۔

چنانچہ اپنے جوانوں کے ساتھ مل کر انھوں نے پہاڑی پر قبضہ کر لیا ۔ جس کے بعد وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ وہ 27 رمضان المبارک بمطابق 27 جولائی 1948ء کو شہادت کے بلند مرتبہ پر فائز ہوئے ۔ اُس وقت اُن کی عمر تقریباً 38 برس تھی ۔ اس جواں مردی اور شجاعت کا مظاہرہ کرنے کے صلہ میں انھیں 1962ء میں نشانِ حیدر کا اعزاز ملا ۔
کیپٹن سرور شہید کے حوالے سے ایک اور بات جو ان کے لئے باعث اعزاز بھی ہے اور منفرد بھی کہ وہ نشانِ حیدر کا اعزاز حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی فوجی تھے ۔ اس سے پہلے یہ اعزاز کسی کے حصے میں نہیں آیا تھا ۔

کر دیا تم نے حیات جاوداں کا راز فاش
تم نے جان اسلام پر کردی فدا تم پر سلام

Comments

Click here to post a comment