ہوم << ٹیمز کا طلسم (سفری خاکہ) - سلمان باسط

ٹیمز کا طلسم (سفری خاکہ) - سلمان باسط

اس بار لندن میں میرا قیام فقط دو دن کے لیے تھا۔ مئی کا مہینہ تھا اور اس شہر پر بہار ٹوٹ کر برسی تھی لیکن میرے نصیب میں ان دو دنوں کے دوران بارش اور خنکی لکھی تھی۔ جانے اس شہر نے مجھے دھوپ میں اپنا نکھرا اور اجلا چہرہ دکھانے سے ہمیشہ کیوں محروم رکھا تھا۔ جب بھی لندن آیا، کہرے اور بارش کا راج رہا۔ اس بار بھی یہی ہوا۔ مئی کا مہینہ ہونے کی وجہ سے پھول تو ہر طرف تھے مگر اُن کے جوبن کو نکھارنے والی دھوپ مجھے جُل دے کر کہیں اور جا چھپی تھی۔

کوونٹری سے لندن کے یوسٹن ٹرین سٹیشن پہنچا تو دوپہر کے سائے ڈھل رہے تھے۔ مسافروں کا ہجوم تھا جو چہروں پر عُجلت اور سراسیمگی کے عکس لیے تیزی سے مختلف سمتوں میں آ جا رہے تھے۔ میں نے ایک طرف کھڑے ہو کر چند ثانیے اپنے میزبان جمشید کا انتظار کیا۔اس دوران میں ہر رنگ اور ہر کیفیت کے چہرے پڑھتا رہا۔ جمشید پہنچتے ہی مجھ سے بغل گیر ہوا۔ چند منٹ لیٹ ہونے کی معذرت کی اور میرا سفری بیگ تھام لیا۔ مجھے اپنا بوجھ خود اٹھانے کی عادت تھی مگر لندن میں پلے بڑھے اس نوجوان پر اس شہر کی مشینی زندگی نے کوئی منفی اثر نہیں چھوڑا تھا۔ میرے پیہم اصرار کے باوجود جمشید نے میرا بیگ مجھے اٹھانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے ہونٹوں پر کھیلتی نمی نمی مسکراہٹ اس کے چہرے کی لو بڑھا رہی تھی۔ اس نے مجھے لندن کی سیر کرانے کی ذمہ داری ازخود اٹھا لی تھی اور اس حوالے سے نہ میری مرضی پوچھی نہ مشورہ مانگا۔

ہم سٹیشن سے باہر نکلے تو موسم کے تیور ہی اور تھے۔ بارش کی کُن مُن دھیمے سُروں میں مسلسل جاری تھی۔ جمشید کو فیصلہ سازی میں کمال ملکہ حاصل تھا۔ وقت اور موسم کے مطابق فیصلہ کرنے میں اسے اتنا وقت بھی نہ لگتا جو عمومی طور ہر سب کو درکار ہوتا ہے۔ ہم واپس سٹیشن کی عمارت میں آئے۔ جمشید نے میرا بیگ ایک لاکر میں رکھا اور میرا ہاتھ تھام کر سٹیشن کی عمارت سے متصل ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں لے گیا۔ اسے میری مذھبی و ثقافتی زنجیروں کا بخوبی علم تھا۔ یہ سب حدود مدِ نظر رکھتے ہوئے اس نے کافی کے ساتھ کچھ سنیکس کا آرڈر دیا۔ ریسٹورنٹ کی شیشے کی دیواروں کے پار وہی منظر تھا۔ مسافر، بھاگ دوڑ، عُجلت زدہ چہرے اور بارش کی رِم جِھم۔ کافی کے مگ سے اٹھتی بھاپ باہر کی فضا میں پھیلے کہرے سے ہم آمیز ہو رہی تھی۔ کافی ختم ہوئی تو جمشید اگلا فیصلہ کر چکا تھا۔ دو کومبو ٹکٹس خرید کر میری طرف پلٹا اور میرا ہاتھ تھام کر اپنے ذہن میں طے کردہ منزل کی جانب چل پڑا۔

گرینچ سٹیشن سے باہر نکلے تو او ٹو ایرینا کی دیوہیکل مدوّر عمارت ہمارے سامنے تھی۔ سامان اور گاہکوں سے بھرے اس شاپنگ ایرینا کی مختصر سیر کی۔ وہاں سے باہر نکلے تو کیبل کار کے ذریعے دریائے ٹیمز کے اس پار جا اترے۔ ہماری سیر کا اگلا حصہ دریائے ٹیمز کا کروز ٹرپ تھا جو لندن شہر کے ارد گرد گھماتے ہوئے، اہم مقامات کا قرب حاصل کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف رواں رہتا ہے۔ جمشید میرے اس ٹرپ کو زیادہ سے زیادہ خوب صورت اور یادگار بنانا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ میں ٹیمز کی لہروں کے دوش پر بارش و سردی کے باوجود سٹیمر کے اندر کے حدت فراہم کرتے ماحول کے برعکس ڈیک کی کھلی فضا میں بیٹھوں تاکہ ہم شیشوں کے اس پار جھانکنے کے بجائے کسی رکاوٹ کے بغیر شہر کے اہم مقامات دیکھتے رہیں۔

میں تو یوں بھی ہمیشہ حسنِ فطرت کو بے حجابانہ دیکھنے کا متمنی ہوتا ہوں۔ اس کی تجویز پر بیعت کرتے ہوئے سٹیمر کے اندرونی حصے میں بنے ریستوران سے بھاپ اڑاتی کافی کے دو فلک بوس ڈسپوزیبل مگ لیے اور باہر شیڈ کے نیچے آ بیٹھے۔ شیڈ تو تھا لیکن صورتِ حال یوں تھی کہ بارش ہوا کے دوش پر رُخ بدلتی تو ہمارے پاس بھیگنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ ہماری طرح کا سرپھرا ایک انگریز بھی ٹیمز اور اس کی اطراف کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کی خاطر کافی کا مگ ہاتھ میں تھامے اس من موجی بارش میں بھیگ رہا تھا۔ جمشید اس دوران مختلف زاویوں سے میری تصویریں لے رہا تھا۔ انگریز کی رگِ ظرافت پھڑکی۔”کیا تمہاری تصویر ٹائم میگزین کے ٹائٹل کی زینت بنے گی؟” اس جملے پر ہم تینوں کا قہقہہ بلند ہوا۔ اس بے ساختہ قہقہے نے اجنبیت کی دیوار ایک پل میں مسمار کر دی۔

آرتھر مانچسٹر کی ایک فرم میں اکاؤنٹنٹ تھا۔ جب بھی لندن آنا ہوتا تو وہ ٹیمز کی لہروں پر ڈولتے سٹیمر کی سیر کو ضرور آتا۔ بیوی بچوں کے جھنجٹ سے آزاد تھا۔ گرل فرینڈ سے بریک اپ ہونے کے بعد محبت اور شادی کے تصور سے ہی بیزار ہو چکا تھا۔ آرتھر روایتی انگریزوں کے برعکس بے تکلف اور کھلا ڈلا شخص تھا۔ کافی کے سِپس لیتے ہوئے آرتھر اور میں نے بہت سی باتیں کیں۔ جمشید اس دوران تصویریں بنانے میں مگن رہا۔ سٹیمر دھیرے دھیرے ٹیمز کی خموش لہروں پر سرک رہا تھا۔ ٹاور آف لنڈن، ٹاور برج، گلوب تھیئٹر، پارلیمنٹ ہاؤس، بگ بین اور لنڈن آئی ہمارے پاس سے ہاتھ ہلاتے گزرتے رہے۔ ہم ٹاور برج کے نیچے سے گزرے تو شہرِ دلربا لندن میں شام اتر رہی تھی۔ روشنیاں بکھیرتے قمقمے جل اٹھے تھے۔ یوں لگتا تھا سینکڑوں دیے ٹیمز کی سطح پر دھرے ہیں جن کی لو سارا آس پاس منور کر رہی ہے۔ شیشے کی دیوار کے اندر کا منظر مجھے بتا رہا تھا کہ سٹیمر کے اندرونی حصے میں سیاحوں کی سہولت کے لیے کمنٹری کرنے والی لڑکی کے بلانڈ بال مزید آب دار ہو گئے تھے۔

منزل قریب آرہی تھی۔ ”تم کل میرے ساتھ لنچ کیوں نہیں کرتے؟ دراصل آج شام میں کہیں مصروف ہوں“۔ آرتھر نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے پر شوق انداز میں دعوت دی۔ میرے چہرے پر تآسف دیکھ کر اس نے استفسار کرتے ہوئے بھنویں اُچکائیں۔ ”تم بھول رہے ہو میں مسافر ہوں۔ مجھے کل صبح کی فلائٹ پکڑنی ہے۔ لندن میں میرا قیام اتنا ہی تھا۔“ چند منٹوں میں ہی دل کھول کر رکھ دینے والے آرتھر کے چہرے پر چند ثانیوں کے لیے ملال کے سائے نمودار ہوئے۔ ”ہم پھر ملیں گے میرے دوست۔ یہیں ٹیمز کی لہروں پر۔ تمہارے ساتھ یہ محبت بھرا تعلق ٹیمز کے طفیل ہی ملا ہے۔ ہم اس میں ایک اور گرہ لگانے آئیں گے۔ ٹیمز کو گواہ بنا کر۔“ آرتھر نے ایک مسکراہٹ میری طرف اچھالی۔ میں نے دیکھا اس کے چہرے پر سجے سنہری فریم کے چشمے کی پیچھے جھانکتی نیلی آنکھوں میں اداسی اتر آئی تھی۔ بھونپو کی آواز بلند ہوئی۔ سٹیمر کنارے آ لگا تھا۔ ہم نے باہر قدم رکھے۔ آرتھر نے مجھ سے پرجوش مصافحہ کیا۔ مسافر نے اپنی منزل کی جانب قدم بڑھا دیے۔ مجھے محسوس ہوا ٹیمز کا طلسم روح کی تہوں میں اتر آیا ہے۔