تاریخ نے انسانیت بالخصوص اہل اسلام ،بلکہ ہر کمزور و مستضعف خواہ وہ فرد ہو یا قوم، ہمیشہ ہی بہت قہر ڈھایا۔
اہل مکہ کے بارے میں تو اس کا رویہ متعصبانہ اور ظالمانہ ہی رہا ۔
اس نے ہمیشہ طاقتوروں کا ساتھ دیا،ان کے ہر عمل اور ہر حرکت پر ہی اپنی توجہات مرکوز کیں اور محکوموں،کمزوروں کو پرِکاہ سے زیادہ حیثیت ہی نہ دی۔
بلکہ اگر اپنی آنکھ کا رُخ بوجوہ ان کی جانب کرنا ہی پڑا،تو بہت بیزاری اور خفگی اور مجبوری سے ہی کیا۔
تاریخ نے مکہ اور اہل مکہ کی تصویر غیر متمدن،غیر مہذب،جاہل اور اخلاقی جرائم میں ملوث قوم جو بے شمار قبائل میں تقسیم و بکھری ہوئی تھی کے طور پر ہی پیش کیا۔۔
تواریخ عرب کا آغاز ہمیشہ اسی ایک جملے سے ہوا،جو نسل در نسل اہل عرب کے منفی تشخص کا ضرب المثل بن گیا۔۔کہ
" زنا اور شراب اہل عرب کی گّھٹّی میں پڑے ہوئے تھے"
تاریخ ان کے وہ سب فخر و امتیازات اور محاسن و فضائل کا ادراک نہ کرسکی،جو انہیں اقوام عالم میں سربلند کرتے،ان کے ادب،ان کی سماحت و شجاعت ،ان کی وفا،ان کی مہمان نوازی،اور اکرام و احترام انسانیت کی کوئی جھلک بھی نہ دیکھ پائی ،اور اگر دیکھی بھی تو بد دیانتی کرتے ہوئے اسے تاریخ کے صفحات اور مؤرخ کے قلم تک نہ پہنچنے دیا۔
امتدادِ زمانہ کے ساتھ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں،مگر تاریخ نے یاسر اور اس کے خاندان سے کچھ خاص ہی جانبداری برتی۔
کسی کو نہیں معلوم کہ ابوحذیفہ کا کیا بنا،یاسر کے اپنے اہل خانہ کے ساتھ چالیس پچاس سالوں کا وقت کیسے گزرا۔سمیّہ کو ابوحذیفہ کے خاندان کی غلامی سے کب اور کیسے نجات ملی ۔
ایک پردیسی،یاسر اور ایک مملوکہ سمیّہ کے گھر کتنے۔۔حُرّ۔۔ آزاد بچوں نے جنم لیا،
تاریخ ان دونوں کو باہم ملا کر اور رشتۂ ازدواج میں منسلک کرکے غائب ہوگئی۔
سمیّہ اور یاسر ۔۔۔ نہ تو کسی بڑے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے،نہ کوئی بڑے جنگجو تھے،نہ فاتح،نہ سردار،نہ دولت مند اور نہ ہی کوئی مذہبی شخصیت۔بس ایک عام سے لوگ۔ایک غلام اور ایک پردیسی۔۔تاریخ انہیں کیوں اہمیت دیتی یا اپنی نظروں میں رکھتی۔
وقت گزرتا رہا،اور لگ بھگ نصف صدی بیت گئی
مکہ میں رہتے اور بستے یاسر اور اس کے گھرانے کو۔۔
تاریخ نے یاسر کے محسن ابوحذیفہ کو بس مرتے دیکھا،اسے طلب معاش میں دربدر پھرتے دیکھا،اسے ہر صبح قریشیوں کی صباحی مجلسوں میں بار بار وہی پرانی باتیں دہراتے پایا،
مکہ کے مظلوموں ،مقہوروں اور کمزوروں کو کسی مسیحا کی امید میں سرگوشیاں کرتے دیکھا،
مکہ اور اردگرد کچھ عجیب حادثات و واقعات کو رونما ہوتے دیکھا،
تاریخ بڑی عجیب نظروں سے دیکھ رہی ٹھی ۔۔۔۔
کہ عبدالمطلب کے گھر میں کسی یتیم کی پیدائش پر ماحول میں عجیب قسم کی سرمستیاں اور خوشیاں چھا رہی ہیں اور عجیب طراوت و حلاوت پھیل رہی ہے۔
دور کہیں روم کے قیصر کے محل کے کنگرے زمین بوس اور قصر شاہی کی مضبوط دیواروں میں دراڑیں پڑجانے کی خبر عام ہے،
فارس کے صدیوں سے بھڑکتے ہوئے آتش کدے بُجھ بُجھ کے نابود ہونے لگے ہیں ،
تاریخ نے دیکھا ۔۔
جہاں جہاں تک اس کی نگاہ پہنچی ۔
کہ روئے زمین کے مستضعف،مجبور،مقہور،مظلوم اور ستم ہائے زمان جھیلنے والے لوگوں میں ایک عجیب اطمینان کی جھلک اور امید کر روشنی ابھرنے اور مردہ آنکھوں میں چمک دِکھنےلگی ہے،اور وہ دبے دبے لفظوں اور دھیمے لہجوں میں آزادی،انقلاب اور خود مختاری ،حُریّتِ فکر اور احترام انسانیت و تکریم آدمیت کی باتیں کرنے لگے ہیں۔
تاریخ نے دیکھا ۔۔
کہ یہودی اور عیسائی بھی خلاف معمول اپنی اپنی مقدس کتابیں بار بار کھولتے،پڑھتے اور کچھ سمجھنے کی کوششوں میں مصروف ہونے لگے ہیں اور اپنی مجلسوں میں علیٰحدہ علیٰحدہ کچھ ایسی علامات و احوال پر بحث مباحثے کرنے لگے ہیں،جن سے کسی ہستی کی آمد کا پتہ چل رہا ہے۔
تاریخ نے محسوس کیا۔۔
کہ عرب کے قبائلی سرداروں اور مذہبی پیشواؤں میں بھی ایک عجیب و غیر مفہوم سا اضطراب سر اٹھا رہا ہے۔
تاریخ کو بڑا عجیب لگا۔۔
جب حکماء و شعراء،وقت کے زہیر،لبید طرفہ اور نابغہ جیسے عباقرۂ عرب کے قصائد میں آفاقی اور الہامی تعلیمات و عقائد شامل ہونے لگے ہیں۔
تاریخ نے دور کہیں بیٹھ کر اور نہایت حقارت و بد دلی سے ایسی بے شمار انہونیاں اور تبدیلیاں محسوس کیں۔مگر انہیں نہ اہمیت دی،نہ ان کی گہرائی میں اترنے اور پس پردہ محرکات کا جائزہ لینے کی ضرورت اور کسی آمدہ طوفان کی نشاندہی کی حاجت محسوس کی۔
وہ وقت کے بادشاہوں،دولتمندوں،طاقتوروں اور معاشرے کے زور آوروں کے چرنوں میں بیٹھے رہنے اور ان ہی کے جائز و ناجائز عملوں اور سچے جھوٹے کارناموں کے خوشامد ،تکلف اور مبالغہ آمیز قصیدے لکھنے میں ہی مصروف رہی۔
تاریخ نے توجہ ہی نہ دی کہ۔۔حلیمہ سعدیہ کی آغوش محبت میں ایک نجیب و سعید بچہ مجسم رحمت عالم بننے کے لیئے پروان چڑھ رہا ہے۔
تاریخ نے اس نوجوان کی منفرد نوجوانی کی پاکیزگی کو بھی نظرانداز کیا،
اس کی امانت و صداقت کے ضرب المثل اور متفقہ کردار کو بھی اہمیت نہیں دی۔
اس کے کامیاب و نفع بخش تجارت کے اسفار کو
بھی درخور اعتنا نہ سمجھا،
معاشرے کی صلاح و فلاح کے لائحہ عمل "حلف الفضول ٫ کے معاہدے میں اس کے مثبت،فعّال اور کلیدی کردار کو بھی خاطر میں نہ لائی ۔
تاریخ نے اس پاکیزہ صفت و کردار کے نوجوان کی تعمیر کعبہ کے موقعہ پر حجر اسود کی تنصیب کے حساس اور بڑی خوفناک جنگ کی آگ کو اپنی حکمت،دانش اور فہم و تدبر سے روک کر قبائل عرب میں اتفاق،اتحاد اور یکجہتی و معاشرتی امن و آشتی کے محیر العقول کارنامے کو بھی خاص اہمیت نہ دی۔
اس نصف صدی میں یاسر اور سمیہ نے نجانے کتنے سخت زمانے کاٹے،کتنے ظلم سہے،کتنی سختیاں برداشت کیں۔اپنے وطن اور ماں باپ اور خون شریکوں کو یاد کرکے کب کب آنسو بہائے۔خوشیوں اور مسرتوں کے کتنے دن اور لمحے گزارے۔۔!؟
تاریخ کو کیا پڑی تھی کہ دولت،طاقت اور شان و شوکت کے محلات و قصور سے نکل کر بے بسی اور
بے کسی کے دیار اور آنگن میں جھانکے۔
یاسر کے تین بیٹوں میں سے ایک کسی جنگ میں مارا گیا،تاریخ نے اس کا نام تک محفوظ کرنے کی ضرورت نہ سمجھی،دوسرے کا بھی نہ نام ملا ،نہ نشان ،
البتہ تیسرے نے خوب نام کمایا اور تاریخ اسے انسانیت کے لیئے راہنمائی،عزیمت و استقامت کی تاابد روشن قندیل کے طور پر لکھ کر امر کرلینے پر مجبور ہوئی۔
تاریخ نے محسوس کیا کہ صحن کعبہ کی صباحی مجلسیں بھی اب اجڑنے لگی ہیں۔
کچھ لوگ چُھپ چُھپا کر ایک بڑے سردار ارقم بن ابی الارقم کے گھر جمع ہونے لگے ہیں ۔وہاں کچھ سیکھتے،سکھاتے ہیں اور خاموشی سے ایک ایک کرکے ،منہ لپیٹے منتشر ہوجاتے ہیں۔
یہ دیکھ کر تاریخ کا ماتھا ٹھنکا،یہ خبر اور یہ سرگرمی نظرانداز کیئے جانے کے قابل نہ تھی۔سو تاریخ نے اپنی نگاہوں کا فوکس اب کی بار مستقل مکہ اور اس کی گلیوں،اس کے بازاروں،وہاں کے سرداروں،قبیلوں،غلاموں اور غیر مکیّوں پر مرتکز کردیا۔
تاریخ نے اپنے اس مستقل قیام کے دوران بدلتے ہوئے منظرنامے میں۔۔مکہ میں پہلا منظر اُس صبح کا دیکھا،جس میں خلاف معمول یاسر قدرے تأخیر سے صحن کعبہ کی صباحی محفل میں پہنچے،خاموش اور پریشان۔اس میں اضافہ قریشیوں کے اس سرد مہرانہ رویے نے کیا ،جو گذشتہ نصف صدی سے کسی بھی صبح وشام میں ،نہ ہی صحن کعبہ میں ،نہ ہی مکہ کی گلیوں ،بازاروں میں یاسر کے ساتھ روا رکھا تھا۔۔
تبصرہ لکھیے