حق سچ اور انصاف پر قائم رہنا اور اس کی جستجو اعلی درجے کی انسانی صفات میں سے ہے۔ ان اعلی درجے کی صفات پر عمل پیرا ہونے والی شخصیات ہمیشہ کم تعداد میں رہی ہیں۔ انسانوں کی زیادہ تر تعداد بھیڑ چال کا شکار ہو جاتی ہے۔ جس کو ہم اس وقت کا کلچر اور روایات کہتے ہیں۔ اسلام کی آمد کے بعد جب اس دین کی دعوت دی جاتی تو اس وقت کے کلچر اور روایات کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا۔اسلام کی سچائی اور حقانیت کو جانتے ہوئے بھی کچھ لوگ اس بات پر آمادہ نہ تھے کہ کس طرح ہم اپنے باپ دادا کا دین اور روایات ترک کر دیں۔ کلچر اور روایات کو توڑنا ایک انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔
تاریخ ایسے واقعات اور مراحل سے گزری ہے جب محض ایک شخص نے اپنے اعلی شعور اور ادراک کو بروئے کار لاتے ہوئے کلچر اور روایات کے بتوں کو پاش پاش کرتے ہوئے معاشرے میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اور تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔ ان میں سے ایک چمکتا ہوا ستارہ مشہور یونانی فلاسفر سقراط ہے۔ جو 469 قبل مسیح ایتھنز میں پیدا ہوا۔ اس کا پیشہ سنگ تراشی تھا۔مگر اس کا وقت فلسفیانہ طرز زندگی میں صرف ہوتا تھا۔ فکر معاش سے بے پرواہ گلی کوچے اور بازاروں میں گھومتا رہتا۔ اس کی شادی شدہ زندگی اتنی خوشگوار نہیں تھی کیونکہ اس کی بیوی ایک سخت گیر عورت تھی۔اور بچوں کی پرورش کا ذمہ بھی اسی نے اٹھایا ہوا تھا۔وہ اس کی جلی کٹی سنتا رہتا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے خود زبان دراز عورت کو تلاش کر کے شادی کی۔ اس سے اس کو وہ اپنی قوت برداشت کو مضبوط کرنے میں کارگر سمجھتا تھا۔ تاہم اس کی گھریلو زندگی اس کے مقاصد پر اثر انداز نہ ہوئی۔ اس کی فکر شعور اور ضمیر کی آواز کے آگے ریاست اور اشرافیہ بے بس نظر آئی۔
سقراط علم و حکمت کا داعی تھا۔ وہ لوگوں کی بصیرت، بصارت اور ضمیر کو جھنجوڑ رہا تھا۔ اس کے لیے اس نے ایک منفرد طریقہ کار اپنایا۔ اس نے سوال اور مکالمہ کو اپنا ہتھیار بنایا۔اس نے جو اپنی درسگاہ بنائی اس کے لیے صرف ایک کا اصول تھا۔ وہ تھا "برداشت"، وہ برداشت کو معاشرے کی روح رواں سمجھتا تھا۔ اس اصول کو توڑنے والے کے لیے اس کی درسگاہ میں کوئی جگہ نہ تھی۔ بڑے سے بڑے اختلافی مسئلہ پر بھی برداشت اور تحمل سے خیالات کا اظہار اور مکالمہ کیا جاتا۔جو اس اصول کو توڑتا اس کو باہر نکال دیا جاتا۔ اس کا بنیادی سوال اور مقدمہ انصاف اور صحیح اور غلط کی پہچان (حقیقت) اور نیکی تھا۔ وہ مذہبی عقائد، معاشرتی رسم و رواج، قوانین کو عقل کی کسوٹی پر جانچتا تھا۔ اس نے علم کو نیکی قرار دیا۔ اس کی دو اقسام کو واضح کیا اس کے نزدیک ایک رائے ہوتی ہے اور دوسرا علم۔ عام آدمی محض رائے رکھتے ہیں اور اس پر ہی عمل پیرا ہوتے رہتے ہیں جبکہ علم صرف حکیم کو حاصل ہوتا ہے۔ اس میں عقل کو بنیادی اہمیت حاصل تھی ناکہ کے حواس کو۔ حکمت و دانش لاعلمی کے ادراک سے نکلتی ہے۔
سقراط، افلاطون اور ٹالسٹائی اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ جو بھی یہ دعوی کرے کہ وہ عقل کل ہے یا سب کچھ جانتا ہے۔ وہ خوش فہمی یا جہالت ہی سکتی ہے۔سقراط کے دور میں بھی کچھ لوگوں نے یہ دعوی کر رکھا تھا کہ علم اور دانش میں ان سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے۔ وہی لوگ جو خود کو دانشور تصور کرتے تھے سقراط کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ کیونکہ سقراط ان کے ساتھ مکالمہ کر کے ان کی دانش کو ہوا میں اڑا دیا تھا۔ اس وقت کی اشرافیہ بھی یہی سمجھتی تھی کہ یہ ہمارے بچوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ ١۔یہ ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کرتا ہے۔ ٢ یہ ہمارے دیوتاؤں کو نہیں مانتا اور ٣یہ ایک ایسے الگ خدا کا تصور پیش کرتا ہے جس کو کسی نے نہیں دیکھا۔ ان الزامات کے پیش نظر نوجوانوں کو گمراہ کرنا اور بہکانے کا الزام سب سے زیادہ چبن والا اور خطرناک تھا۔کیونکہ سقراط نوجوانوں کو حقیقت اور استدلال پر مبنی فکر اور شعور کے راستے ہموار کرتے ہوئے جہالت اور سراب کی گھاٹیوں سے نکال رہا تھا۔ ایسے شعور اور آگاہی سے سٹیٹس کو کی طاقتیں ہمیشہ خائف رہی ہیں۔مگر انسانی شعور اپنا راستہ خود بناتا ہے اس کو پابندیوں کہ جبر سے نہیں روکا جا سکتا۔ جہاں پر بھی گھٹن کا ماحول ہوگا۔ وہ افراد کی سیاسی سماجی معاشی اور ثقافتی زندگی کو متاثر کرے گا۔ معاشرے زیادہ دیر گھٹن اور جمود کے ماحول میں زندہ نہیں رہ سکتے۔ ایسے میں شعور یافتہ افراد مزاحمت کی علامت بن کر تہذیب کی فکر کے دائرے کا رخ تبدیل کر دیتے ہیں۔ جس طرح یورپ میں میگنا کارٹا چارٹر نے پورے نظام اور تہذیب کو ایک نئے پیراۓ میں ڈالنے کے لیے راہیں کھول دیں۔
سقراط ایک فرد واحد کے طور پر مزاحمت کی علامت بن کر ابھرا۔اس نے انسانیت کی فکری اور علمی فلاح کا بیڑا اٹھایا۔ جو اس کے لیے سب سے بڑی نیکی تھا۔وہ کہتا تھا کہ جہالت اندھیرے کا کوا ہے جو علم کی روشنی سے بھاگتا ہے۔ وہ اس بات پر حیرت میں مبتلا تھا کہ بہت کم لوگ اپنی زندگی کے مقصد، معاشرتی اور اخلاقی قدروں کے متعلق سوچ بچار کرتے۔سقراط کو اس کے شاگردوں نے قید سے بھاگ جانے کا مشورہ دیا مگر اس نے رد کر دیا۔ موت اس کے لۓ خوف کی علامت نہ تھی۔ وہ تو جہالت کو خوفناک تصور کرتا تھا۔ موت کے بعد حیات پر یقین رکھتا تھا۔ موت کو وہ ایک گہری نیند اور نئی دنیا کا دروازہ تصور کرتا تھا۔ اس نے اطمینان کے ساتھ زہر کا پیالہ پیا۔ جب محسوس کیا زہر رگوں میں اتر رہا ہے۔ اس نے کہا کریٹو، اسکالپیس سے میں نے ایک مرغا ادھار لیا تھا اس قرض کو واپس کر دینا۔اس کے ساتھ اس کا اس دنیا کا سفر تمام ہوا۔ مگر اس کا فکر شعور اور مکالمہ آج بھی جگمگا رہا ہے اور فلسفے کی دنیا کا شاہکار ہے۔اس نے کہا تھا کہ جان لو میں اپنی راہوں سے نہیں ہٹوں گا چاہے اس کے لیے مجھے بار بار مرنا پڑے۔
تبصرہ لکھیے