پاکستان میں منشیات کا کھلے عام استعمال ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ زہرِ قاتل ہماری نوجوان نسل کو تباہی کے دہانے پر پہنچا رہا ہے اور ملک کے مستقبل کو اندھیروں میں دھکیل رہا ہے۔ بدقسمتی سے، منشیات فروشوں کا اصل ہدف اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ ہیں، جو قوم کے معمار سمجھے جاتے ہیں۔ ترقی اور کامیابی کے خواب دیکھنے والے یہ نوجوان نشے کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں، جہاں سے واپسی اکثر ممکن نہیں ہوتی۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ منشیات فروشی ایک منظم مافیا کے کنٹرول میں ہے، جو دن بدن مزید مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ ان کے نیٹ ورک میں بااثر شخصیات، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور بعض حکومتی اہلکار بھی شامل ہوتے ہیں، جو اس کاروبار کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ منشیات کے خلاف بنائے گئے قوانین بے اثر ثابت ہو رہے ہیں، کیونکہ جن پر اس لعنت کو روکنے کی ذمہ داری ہے، وہی اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
منشیات نہ صرف جسمانی اور ذہنی صحت کو برباد کرتی ہیں بلکہ سماجی اور خاندانی نظام کو بھی تباہ کر دیتی ہیں۔ اس زہر کی وجہ سے کئی نوجوان تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں، مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات اپنی جان بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔ آج کل بازار میں کئی اقسام کی منشیات آسانی سے دستیاب ہیں، جن میں چرس، ہیروئن، کوکین، آئس، کرسٹل میتھ اور نشہ آور گولیاں شامل ہیں۔ یہ صرف جسمانی بیماریوں کا باعث نہیں بنتیں بلکہ ذہنی امراض جیسے ڈپریشن، بے چینی اور شیزوفرینیا کو بھی جنم دیتی ہیں۔۔۔
ماضی میں نشے کے عادی افراد مخصوص علاقوں تک محدود ہوتے تھے، لیکن اب یہ لعنت تعلیمی اداروں میں بھی سرایت کر چکی ہے۔ منشیات فروشوں کا طریقہ کار بڑا خطرناک ہے؛ وہ ابتدا میں طلبہ کو مفت نشہ فراہم کرتے ہیں اور جب وہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں تو انہیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، جو بعض اوقات زندگی کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔ منشیات کے استعمال سے یادداشت کمزور ہو جاتی ہے اور ذہنی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ یہ دل ، جگر اور گردوں کی سنگین بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔ نشے کے عادی افراد اپنی گھریلو زندگی برباد کر لیتے ہیں اور والدین و دوستوں سے دور ہو جاتے ہیں۔ نشے کے عادی نوجوان تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور اکثر تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔
منشیات کا نشہ پورا کرنے کے لیے لوگ چوری، ڈکیتی اور دیگر جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں، جس سے معاشرے میں بدامنی بڑھتی ہے۔ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ حکومتی ادارے اور قانون نافذ کرنے والے محکمے اس مسئلے پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی نوجوان اس لعنت کے خلاف آواز اٹھائے تو اسے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ پولیس اور منشیات مافیا کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے؟ جواب واضح ہے کہ جہاں کہیں بھی منشیات کا کاروبار ہوتا ہے، وہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے یا تو آنکھیں بند کیے رکھتے ہیں یا خود اس گھناؤنے دھندے کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اگر ہم واقعی منشیات کی لعنت سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں درج کیے گئے اقدامات فوری طور پر اٹھانے ہوں گے ۔۔۔
منشیات فروشوں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں اور ان کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی جائے۔ جو لوگ اس دھندے میں ملوث ہوں، انہیں کسی قسم کی رعایت نہ دی جائے۔
اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں منشیات کی روک تھام کے لیے سخت نگرانی کی جائے۔ طلبہ کو نشے کے نقصانات سے آگاہ کرنے کے لیے خصوصی سیمینارز اور آگاہی مہمات چلائی جائیں۔
پولیس اور دیگر اداروں کو جوابدہ بنایا جائے کہ وہ منشیات فروشوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ اگر کوئی افسر منشیات فروشوں کے ساتھ ملا ہوا پایا جائے تو اسے فوری معطل کر کے سخت سزا دی جائے۔
میڈیا، مساجد، تعلیمی اداروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام میں آگاہی پیدا کی جائے کہ منشیات کس طرح ہمارے معاشرے کو تباہ کر رہی ہیں۔
والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور ان سے کھل کر بات کریں۔
نشے کے عادی افراد کو مجرم سمجھ کر سزا دینے کے بجائے انہیں بحالی مراکز میں داخل کیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ بحالی مراکز کی تعداد میں اضافہ کرے اور انہیں جدید سہولیات سے آراستہ کرے۔ اگر حکومت اور معاشرہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کرے گا، تو وہ دن دور نہیں جب ہمارا ملک اس لعنت کی لپیٹ میں آجائے گا۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو بچانے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے، ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر اس لعنت کے خلاف آواز بلند کریں، اپنے ضمیر کو جھنجھوڑیں اور اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔
اگر ہم نے آج اس مسئلے پر قابو نہ پایا تو کل ہمارے تعلیمی ادارے علم کے مراکز کے بجائے نشے کے اڈے بن جائیں گے، اور ہماری نسل ایک ایسی تاریکی میں کھو جائے گی جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوگی۔ لہٰذا حکومت، والدین، اساتذہ اور ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھائے اور اس ناسور کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کرے، تاکہ ہمارا معاشرہ ایک صحت مند، خوشحال اور روشن مستقبل کی طرف بڑھ سکے۔
تبصرہ لکھیے