اک شمع محبت و الفت کو اک بار آؤ روشن کریں
نفرتوں کو آؤ یکبارگی دفنانے اک ساتھ چلیں ہم
اسلام نے جس اخوت و محبت کا پیغام دیا ہے، اسی پیغام رحمت نے انسان کو آپس میں جوڑے رکھا اور اس اخوت و محبت کی راہ میں ہزار ہا نزاع کے باوجود امت نے تفریق بین المسلمین کو کبھی جگہ ہی نہیں دی، بلکہ ہمیشہ قافلہ حق و صداقت کی راہ کے مسافروں نے آپسی محبت و الفت کو بنائے رکھا. نتیجہ یہ نکلا کہ قیصر و کسریٰ کی پرشکوہ حکومتیں بھی ان کے قدموں تلے دب گئی۔ پھر ائمہ کرام و محدثین فقہاء کا زمانہ آیا تو انھوں نے آپس میں علمی و تحقیقی علوم میں آپس میں استفادہ بھی کیا اور جہاں رائے میں اختلاف ہوا، وہاں ادب و احترام سے اپنی رائے یا تحقیق رکھ دی اور اصل ترجیحات پر متوجہ رہے. آپسی سرپھٹول اور کافر کافر مشرک فاسق و فاجر کے القابات دینے کے بجائے سلیقے سے علم کی آبیاری کرتے رہے اور مختلف علمی و تحقیقی گوشوں سے عوام کو مستفید کراتے رہے۔ یہ زمانہ اہل ایمان کے عروج کا زمانہ رہا ہے جہاں ادب و اخلاص کو فوقیت دی جاتی تھی۔ جہاں تحصیل علم کے لئے افکار و نظریات رکاوٹیں بن کر نہیں حائل ہوتی تھیں. ہم دیکھتے ہیں کہ ائمہ کے شاگردوں نے بھی اپنے اساتذہ سے مختلف رائے قائم کی لیکن ادب و احترام کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا بلکہ رائے میں اختلاف کو محبت و الفت سے پیش کرکے محبت سے گفتگو کی گئی۔
میں جس وادی کا مقیم ہوں، یہاں علماء و فضلاء تو خاموش ہیں۔اہل علم خاموشی سے اپنے کام میں مگن ہیں، پر ان کے متبعین میں سے ایک بڑی تعداد ایسی ہے جنھیں شہرت کی بھوک، ریاکاری نے عوام میں اداکاری کے مختلف جوہر دکھانے پر مجبور کیا. یہ بدزبانی، اخلاقیات سے عاری گفتگو، بے ادبی، اور معاندانہ رویوں کے ساتھ پوری قوم کے سینے پر مونگ دَل رہے ہیں. شعوری، بیداری اور علمی مجالس سے زیادہ نفرت و کدورت سے انسیت ہے. پرلے درجے کی بداخلاقی کو یہ اسلامی بتا کر اپنی شخصیت کو مکرم بنانے کی دوڑ میں محو ہیں۔ کبھی ایسے مبلغین سے ہماری مساجد و خانقاہیں بالکل پاک و منزہ تھیں، یہاں شیخ نورالدین، شیخ حمزہ مخدومی، بابا داؤود مشکاتی، شیخ یعقوب صرفی جیسے اسلاف قوم و ملت کی خدمت کرتے تھے. یہاں علوم و معارف کی بحر پیکراں شخصیات نے علوم اسلامیہ کی آبیاری کی، ایمان و ایثار اور خدا پرستی کے وہ اسباق یاد کرائے کہ چند سال تک جس کی چاشنی سے آشنا ہمارے باپ دادا اپنی ایمانی حمیت و غیرت سے آباد تھے، جنہیں گرچہ علوم و معارف پر پوری دسترس نہ تھی مگر اہل علم سے انسیت تھی۔ خوف خدا اور حب نبوی ﷺ سے ان کے قلوب و اذہان منور تھے۔پھر نہ جانے کس کی نظر لگ گئی اہلیان وادی کو کہ علم و حلم سسکنے لگا ، تحقیق و عقیدت مرنے لگی اور یوں ہم نے علوم و معارف سے کنارہ کشی کرکے مسخرہ پن کو پروان چڑھایا. ہم نے انانیت، رعونت اور نخوت کے پچاریوں کو اپنا پیشوا و مقتدا بنا لیا. ہماری خانقاہوں سے رمز حق کی صدائیں بلند ہونا بند ہوگئیں. مساجد سے نفرت و کدورت کو پروان چڑھایا گیا، ہم نے نور کو دفنا کر ظلمات کو گلے لگا لیا۔ یوں رسوائیوں کی اک ہوا چلی، نفرتوں کے دیے جلے ، نور کی شمعیں بجھنے لگیں،لیکن ہمیں تھوڑی اس سے کوئی فرق پڑا.
پھر یوں ہوا کہ قرآنی آیات و ہدایات کا تمسخر اڑایا جانے لگا، مسنون طرز زندگی پر فقرے بازی ہونے لگی، اصحاب نبی پر باتیں ہونے لگیں، ان کے ایمان و یقین کے پیمانے بیان ہونے لگے، نبی کریم ﷺ سے منسوب متبرک چیزوں کا مذاق اڑایا جانے لگا، اور ہمارے اسلاف کی تعلیمات کو پس دیوار کرکے جدیدیت کو فروغ دیا جانے لگا ۔ ہمارے گھروں اور بستیوں میں حیا و پاک دامنی کا جنازہ اٹھایا گیا، لیکن ہم ہیں کہ احساس سے محروم، صرف تماش بینی میں محو ہیں. ستم ظریفی دیکھیے کہ علمی مکالموں کے بجائے ہم اپنی شخصیات کے خول میں مقید ہوگئے، اور علم و روحانیت سے یکسر متنفر ، ہمارے مزاج بگڑتے گئے. افسوس کہ ہمیں احساس تک نہ ہوا .
میرے وطن کے حق کے متلاشی لوگو ! میں پوچھتا ہوں کہ کیا سبب ہوا کہ مساجد سے نفرتوں اور کدورتوں کو فروغ دیا گیا، اور یہ مساجد عبادات و ریاضت اور روحانی تربیت گاہوں کے بجائے مسلکی اکھاڑے بن کر رہ گئیں. یہاں مختلف خیالات کے لوگ اسلام کی آبیاری کے بجائے اپنے منہج و نظریات کے فروغ کے لیے ایسے سرگرم ہوئے کہ ہوتے ہوتے ہماری مسجدیں نمازیوں سے خالی اور ان نظریاتی بدزبانوں کے لیے ہرزہ سرائی کے قید خانے بن کر رہ گئیں. اب حال یہ ہے کہ حمیت و غیرت اور اخوت و ہمدردی کے جذبوں سے عاری ہوتے جا رہے ہیں. اس قوم کو راہ فلاح کوئی نہیں دکھا سکتا جس کے مزاج میں علم بیزاری اور بے ادبی بڑھتی جارہی ہو ، دنیا ایسی اقوام کے لیے دائمی امتحان گاہ بنی رہتی ہیں.
کئی مہینوں سے محترم ہلال رضا قادری نامی کوئی مولویانہ شکل و صورت والا انسان اعلانیہ اپنے مکتب کے سوا سب کی تکفیر کرتا ہے، اس پر اسے شرم و حیاء کی کوئی قسم نہیں آتی. ڈھیٹ آدمی ہے سو جسے چاہتا ہے مشرک، فاسق، کافر کہہ دیتا ہے. یہ ایک تکفیری مزاج کا انسان ہے، اس نے اپنے اکابر علماء پر سبقت لے رکھی ہے، وہ خاموش ہیں اور یہ جناب نفرت و کدورت کی خوب آبیاری کرتا جارہا ہے، اور تبلیغ سے زیادہ تکفیر کرتا ہے۔ اب چند یوم سے جناب والا کا مقابلہ انجینئر عمر فاروق نامی مبلغ سے ہورہا ہے، جو انھیں انگریزی زبان کا رعب ڈال کر زچ کرنے کی کوشش میں مصروف ہے اور کسی بات کا جواب جرات و غیرت ایمانی سے نہیں دے رہے، بلکہ مختلف حیلے بہانے کرکے خود کو مناظر کے لقب سے متعلق رہنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں۔ یہ جناب انجینئر صاحب جس انداز سے موئے مبارک کا تذکرہ کر رہے ہیں، ایسا لب و لہجہ کسی صاحب علم و داعی کا نہیں ہوسکتا، انداز ہی جب متکبرانہ ہو تو دعوت دین میں کامیابی صفر اعشاریہ رہے گی. ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ اکثر خطیب علمی و ادبی ذوق کو پروان چڑھانے کے برعکس اپنی خطیبانہ انداز کو برقرار رکھنے کے لیے ادب کا دامن تار تار کرتے رہتے ہیں، اور انھیں اس پر کوئی عار نہیں دلاتا کہ جن برگزیدہ شخصیات کا نام آپ ابوبکر ،عمر ،عثمان،علی کے ساتھ لے رہے ہو، ان کی تعریف قرآن کریم بھی کر رہا ہے تو تمھاری زبانیں کیوں اس قدر بے ادبی کا مظاہرہ کر رہی ہیں. اسی دوران کارواں اسلامی کے کوئی صاحب ہیں، جن سے صوت الاولیاء کا کوئی مبلغ مناظرے کا طالب ہے، اور یہ سب ہنگامہ آرائی سوشل میڈیا پر کی جارہی ہے۔ یہ رسہ کشی اسلامی نہیں ہے بلکہ یہ اپنی اپنی دکان کے خریداروں کی تلاش میں ہیں، جو انہیں سوشل میڈیا پر آسانی سے میسر آتے ہیں۔
ہم نظریاتی طور پر مطعون ہورہے ہیں، سماجی افکار و نظریات سے ہم یکسر پستی کا شکار ہوتے جارہے ہیں، اسلامی اقدار و روایات کا مدفن بنایا جارہا ہے، اور یہ ڈھیٹ لوگ مسلمانوں کی فلاح و کامرانی کے بجائے اپنے یوٹیوب چینلز کو فروغ دینے کے لئے کچھ بھی کہہ گزرتے ہیں. انھیں خوف خدا ہوتا تو ملت اسلامیہ کی زبوں حالی پر اداس ہوتے، اس وقت امت کے حال پر مہربان ہوکر امت کی فلاح و کامرانی کی راہ تلاش کرتے ،لیکن ایسا تب ممکن ہے جب انھیں رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت پر ناز ہوتا اور امت کی فکر ہوتی .
ہم اس بات کو ہرگز نہ چھیڑتے لیکن غم یہ ہے کہ سوشل میڈیا دانشور انھیں عالم سمجھ کر اہل علم کی تذلیل کر رہے ہیں. انہیں بریلوی، دیوبندی، سلفی سے کوئی غرض نہیں، بس کسی طرح مولویانہ طرز عمل، گفتار و کردار سے خامی نکلے اور یہ انہیں مطعون کرنا شروع کردیں۔ آج کل انھیں اس کے خوب مواقع میسر آتے ہیں جب چاہیں جیسے چاہیں مولویوں پر سب و شتم کے تیر برسائیں، لیکن ان کو کون سمجھائے کہ جی یہ مولوی نہیں، بس اپنے اپنے مکتب فکر کے بد زبان لوگ ہیں، جنھیں سوائے نفرت و عناد کے کوئی اسباق یاد ہی نہیں ہیں۔ سو ایسے مہاشے جو امت کو جوڑنے کے بجائے ان میں تفریق کو پروان چڑھانے والے ہوں، یہ اہل علم نہیں ہوتے، یہ امام الجاہلین ہوتے ہیں، اس لیے انھیں اپنا پیشوا یا مقتدا سمجھ لینا بھی عیب ہے. ہر کسی کو چاہیے کہ ایسے بدزبان، بداخلاق ب،ے ادب، لاعلم لوگوں کی واہ واہ کرنے کے بجائے اپنے دین و ایمان کی فکر کریں۔ اسلامی عادات و اخلاقیات کی آبیاری کرنا اپنا ایمانی فریضہ سمجھ کر اسے پروان چڑھائیں. جہاں مساجد کو خانہ عبادت مان کر آپ جی رہے ہیں وہیں انھیں روحانی وعلمی تربیت گاہوں میں بھی بدل دیں. نفرتی اور نظریاتی بدزبانوں کو یہاں سے فارغ کریں.
لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن کیا کیا الم لکھوں. ا قوم میں بس اتنا لکھتا ہوں کہ ہم نے علوم و معارف کا تصور ہی بدل کر رکھ دیا ہے . اے کاش ہم ہدایت و معارف اور روحانی غذا سے سیراب ہونے کے لیے علم و حلم اور تحقیقی ندیوں سے رواں آب حیات سے استفادہ کرتے، تو ہمارا مستقبل تابناک اور روشن ہو جاتا۔ کوئی تو ہو جو اخوت و محبت کی شمع کو اس دور ظلمات میں روشن کرے اور اس کی آبیاری اپنے آنسوؤں اور آہوں سے ایسی کرے کہ صالحیت پروان چڑھے اور گمراہیاں دم توڑنے لگ جائیں. ہماری عاجزانہ التماس ہے کہ اس مناظرے بازی سے قوم کا کوئی تعلق نہیں، اسے اس سے معاف ہی رکھیں.
تبصرہ لکھیے