بلوچستان میں کتابیں پڑھنے کے بڑھتے رجحان کا سیاسی تحریکوں سے گہرا تعلق ہے۔ بلوچ قوم نے اپنی تاریخ، ثقافت، اور حقوق کے بارے میں جاننے کے لیے کتابوں کو ایک اہم ذریعہ سمجھا ہے۔ سیاسی طور پر مظلوم قوم ہونے کی وجہ سے ، کتابوں نے انہیں اپنی شناخت اور سیاسی جدوجہد کو سمجھنے میں مدد دی ہے۔ بلوچی زبان اور روایات کو زندہ رکھنے کی کوششوں نے مقامی ادب کو فروغ دیا ہے۔ مصنفین اور شاعروں نے بلوچی داستانوں، تاریخ، اور نظریات کو تحریری شکل دی ہے، جس سے لوگوں کو اپنی ثقافت سے جڑنے کا موقع ملا ہے۔
گوادر میں 2014 میں پہلا دو روزہ کتاب میلہ منعقد ہوا، جس میں صرف ایک اسٹال تھا اور ایک لاکھ روپے کی کتابیں فروخت ہوئیں. یہ اس وقت ایک نیا ریکارڈ بنا تھا۔ اس کے بعد ہر سال چار روزہ کتاب میلہ منعقد کیا جانے لگا۔ اس سال 28 لاکھ روپے کی کتابیں فروخت ہوئیں۔ اس ہفتے بلوچستان میں چار جگہوں پر کتاب میلے اور کتابوں کی اہمیت پر سیمینار منعقد ہوئے۔ بلوچستان میں کتاب میلے اور پڑھنے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے۔اس ہفتے کتاب دوستی کے حوالے سے ایک اور پیش رفت ہوئی ہے۔ ریڈرز کلب کارنر کا افتتاح ہوا ۔جس کی افتتاح ننھی گلوکارہ سیمک بلوچ نے کیا ۔
بلوچستان میں کتاب میلے کا سلسلہ 2011 میں شروع ہوا . اس سے اگلے سال بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں کتابوں کے اسٹال لگائے گئے۔ ہر جگہ مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پبلشرز سے کتابیں اٹھائیں، اور ان کو فروخت کیا ۔ یہ اس زمانے میں ایک نئی چیز تھی۔ بلوچستان جیسے تعلیمی طور پر پسماندہ صوبہ میں لوگ کتابیں خریدتے ہیں۔ اس سے پہلے سوائے کوئٹہ کے، اندرون بلوچستان میں ایسا کوئی رواج نہ تھا۔ دو سالوں میں نوشکی، خاران، تربت، جعفرآباد، اوستا محمد، اور جیکب آباد میں اسٹال لگائے گئے۔ اب تو ڈیرہ بگٹی جیسے پسماندہ ضلع میں ہر سال کتاب میلہ لگتا ہے ۔
بلوچ قوم نے کتابوں کو اپنی شناخت اور جدوجہد کا ذریعہ بنایا ہے۔ پچھلے ماہ بلوچ طلبہ کے اسٹال پر حکومت کی جانب سے پابندی لگائی گئی اور طلبہ کو کتابوں سمیت جیل میں بند کردیا گیا جس کی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوئیں۔ اس طرح لسبیلہ یونیورسٹی میں کتابوں پر پابندی لگائی گئی۔ ڈی جی خان میں بلوچ طلبہ کے سٹال کو حکومت پنجاب کے لوگوں نے زبردستی بند کروا دیا ۔
انسانی فطرت میں یہ چیز موجود ہے کہ جس چیز سے دور رکھا جاتا ہے اس کے قریب جانے کی خواہش بڑھتی جاتی ہے ، اور یہی بلوچ قوم کے ساتھ ہوا۔ اس ہفتے کوئٹہ میں کتاب کاروں نے سیمینار کا انعقاد کیا، جس کا مرکزی موضوع علم پر پابندی تھا۔ نصیر آباد ادبی میلہ منعقد ہوا ، جس کی قیادت معروف بلوچ ادیب پناہ بلوچ کر رہے تھے۔ اس میں پاکستان بھر سے لوگوں نے شرکت کی اور کئی ہزار کتابیں فروخت ہوئیں۔ یہ کمال پڑھے لکھے ایک فیصد بلوچ نوجوان کا ہے، جو سالانہ کروڑوں روپے کی کتابیں خرید رہے ہیں۔
بلوچستان میں کتابیں پڑھنے کے رجحان کو فروغ دینے والے عوامل میں سب سے اہم سیاسی عمل پر قدغن لگنا ہے ۔ بلوچ قوم نےمطالعہ کتاب اور ادب کو مفاہمت کے ایک ذریعے کے طور پر استعمال شروع کیا ہے۔ اپنی تاریخ، جدوجہد، اور حقوق پر لکھی گئی کتابیں لوگوں میں یکجہتی اور بیداری پیدا کرتی ہیں، جس سے معاشرے کو ظلم کے خلاف لڑنے کی طاقت ملتی ہے۔
بلوچی زبان اور روایات کو بچانے کی کوششوں نے مقامی ادب کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ مصنفین اور شاعروں نے سینہ بہ سینہ چلتی تاریخوں، داستانوں، اور سیاسی نظریات کو تحریری شکل دی ہے، جس سے لوگوں کو اپنی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے کتابوں سے جڑنے کی ترغیب ملی ہے۔بلوچ شعراء کی کتابوں جیسے سیف الرحمن مزاری،گل خان نصیر ، کریم بخش بگٹی ،مرید بھلیدی ، دلوش مسوری بگٹی ،سعید تبسم مزاری ،مبارک قاضی ، رفیق مغیری ،شاعر غفور لغاری ، جگھا بزدار، غلام قادر بزدار وغیرہ کی کتابیں فروخت ہوئیں. اس کے علاؤہ قومی تحریکوں اور مارکس ازم پر لکھی کتابیں سب سے زیادہ فروخت ہوئی ہیں ۔
کتاب نے بلوچ نوجوان نسل کو اسمارٹ فونز ، انٹرنیٹ ، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی نہ ہونے کا متبادل فراہم کیا ہے، آن لائن لائبریریوں اور بلوچ موضوعات پر ڈیجیٹل مواد کی سنسرشپ کے باوجود بھی جغرافیائی رکاوٹوں کو عبور کرنے میں مدد ملی ہے۔ مقامی این جی اوز اور بیرون ملک مقیم بلوچ افراد نے تعلیمی پروگراموں، کتابوں کی تقسیم، اور لائبریریوں کے لیے فنڈز فراہم کر کے خواندگی کو فروغ دیا ہے۔ ادب اور پمفلٹس کو سیاسی نظریات کو پھیلانے اور نوجوانوں کو متحرک کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
بلوچ قوم کتابوں کے ساتھ تعلق کو اپنی بقا سمجھتی ہے ، جبکہ ترقی یافتہ معاشروں میں اسے تفریح یا کیریئر کی ترقی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر اس ساتھ ایک برعکس چیز بھی موجود ہے ، جس کی نشاندگی کے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی ، وہ ہے بلوچستان حکومت کی تعلیمی کارکردگی۔ وہ کچھ یوں ہے کہ آبادی کا تقریباً آدھا حصہ بچوں پر مشتمل ہے ، جس کی کل تعداد 73 لاکھ بنتی ہے۔ ان میں سے 30 لاکھ (41%) بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں، صوبے کے مستقبل کے لیے یہ صورتحال ایک سنگین خطرہ ہے۔ صوبے میں 15,096 اسکولز رجسٹرڈ ہیں، لیکن ان میں سے 22 فیصد (یعنی 3,321) مکمل طور پر بند پڑے ہیں، جبکہ 50 فیصد (یعنی 7,548) اسکولز صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ 81% (یعنی 12,228) اسکولز صرف پرائمری سطح تک محدود ہیں، جس سے مڈل تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔
اس کے ساتھ معیارِ تعلیم بھی بری طرح متاثر ہے ۔ حکومتی ٹیسٹ کے مطابق، پرائمری سطح کے صرف 26% بچے بنیادی جملے پڑھ سکتے ہیں، جن میں سے 30% ہی ریاضی کے بنیادی اصول (جیسے جمع/تفریق) سمجھتے ہیں۔ 4 لاکھ بچوں میں سے صرف 1.33 لاکھ تعلیمی معیار پر پورا اترتے ہیں۔ بدقسمتی سے، 70% بچے پرائمری کے بعد اسکول چھوڑ دیتے ہیں، اور ہائی اسکول تک صرف 35 فیصد بچے پہنچ پاتے ہیں۔ ہائی اسکولوں میں نقل کے رواج کی وجہ سے یونیورسٹی تک صرف 1% بچے پہنچ جاتے ہیں۔
بلوچستان کا تعلیمی بجٹ 87 ارب روپے ہے، لیکن ترقیاتی اخراجات صرف 12 ارب روپے ہیں۔ صوبے کی خواندگی کی شرح 27% ہے، لیکن 7,000 تعلیم یافتہ نوجوان ہر سال روزگار کی تلاش میں بلوچستان چھوڑ جاتے ہیں۔ گزشتہ 5 سالوں میں 31,607 افراد نقل مکانی کر چکے ہیں، کیونکہ صوبائی حکومت سالانہ صرف 20,000 نوکریاں فراہم کرتی ہے، جن میں سے 5,000 بھی تعلیم یافتہ افراد کے لیے نہیں ہیں۔
بلوچستان میں تعلیمی نظام کی بحالی نہ صرف شدت پسندی کو ختم کر سکتی ہے، بلکہ روزگار کے مواقع، صحت کے مسائل، اور معاشی عدم استحکام بھی حل ہو سکتے ہیں۔ اس کے لیے اسکولز کی بحالی، اساتذہ کی تعیناتی میں توازن، لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ، اور روزگار کے منصوبوں کو تعلیم سے جوڑنا انتہائی ضروری ہے۔ صوبائی حکومت بجائے سٹال اٹھا کر لے جانے کے، اپنی پالیسی درست کرے تو معاملات کافی حد تک درست ہوسکتے ہیں ۔
تبصرہ لکھیے