ہوم << ہائے معتصم ! - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

ہائے معتصم ! - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

اب تو گئے وقتوں کی بات ہی ہے کہ مسلمانوں کے بادشاہ ،خلیفہ،اور حکمران خواہ کتنے ہی غاصب و جابر ہوں، اموی ہوں یا عباسی ،بربری ہوں یا عثمانی ،مغل ہوں یا سلاطین ،کبھی نا کبھی قومی اور ملّی غیرت و حمیت کے جذبوں سے مغلوب ہو کر شجاعت و نُصرت کے ایسے کام کر جاتے کہ تاریخ کے اوراق پر بے مثال اور امر ہوگئے۔

یہ خلافت عباسیہ کا زمانہ ہے۔معروف خلیفہ مامون الرشید کے بعد آٹھویں عباسی خلیفہ محمد ،جو ہارون الرشید کا بیٹا تھا،جس کا لقب معتصم باللہ اور کنیت ابو اسحاق تھی،کا دور اقتدار "833 تا 842"ہے ۔ یہ وہی عباسی حکمران ہے جس کے عہدِ خلافت میں مسئلہ خلق قرآن کے فتنے کا عروج رہا۔ان دنوں بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کی روایتی مذہبی اور سیاسی کشمکش جاری تھی۔عیسائی رومیوں کے اسلامی دارالخلافہ بغداد سے بہت دور اب معدوم ہوگئے شہر" عموریہ"کے مصروف و مرکزی بازار میں ایک عیسائی اوباش نے اپنی سیاسی اور جسمانی طاقت کے بل پر ایک باپردہ ،ہاشمی مسلم خاتون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی،اس کا نقاب نوچ ڈالا اور مُغلّظات بکتے ہوئےاسے جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنا ڈالا ۔

عیسائی رومیوں میں گِھری بے بس اور بے سہارا خاتون کی مدد تو درکنار ،ہمدردی کے دو بول بولنے والا بھی وہاں کوئی نہ تھا۔وہ لاچارگی میں بس اتنا ہی پکار سکی۔
"وَا مُعتَصِمَاہ!" ہائے معتصم، دہائی ہے … دہائی.
موٹے وحشی رومی نے خاتون کو ایک تھپڑ اور جڑ دیا اور طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے چیخا۔
"ہاں ہاں بلاؤ اپنے معتصم کو وہ یہاں کہاں اور سیکڑوں میل دور قصر خلافت میں بیٹھا معتصم تیری پکار سن بھی کیسے پائے گا؟ اور اگر سُن بھی سکا تو رومیوں کے اس مضبوط ترین شہر تک پہنچ بھی کیسے سکے گا ،اور اگر چتکبرے گھوڑے پر سوار ہوکر پہنچ ہی گیا، تو اس کے مضبوط قلعے کو فتح کرنا اس کے بس کی بات کہاں۔۔!"

یقیناً یہ ناممکن تھا کہ دور دراز رومیوں میں گھری ایک مظلوم خاتون کی آواز عیش و عشرت میں غرق،مداحوں اور چاپلوسوں کے جلو میں گِھرے اور رقص و طرب کی محفلوں میں بیٹھے ،شمشیر و سِناں سے غافل اور مظلوم کی داد رسی اور آہ و فغاں سے بے خبر حکمرانوں تک ایک مسلمان لونڈی کی فریاد رسائی حاصل کر پاتی۔ مگر مظلوم کی دعا تو سارے فاصلے مِٹا اور زمانے سمیٹ کر،سب حجابات عبور کرکے سات آسمانوں پر متمکن خدائے مختار و مقتدر تک بلا روک ٹوک اور بلا تأخیر جا پہنچتی ہے،وہ قصر خلافت تک پہنچنے سے رُک نہ سکی ۔

عموریہ کے بازار میں برپا ہونے والے اس ظلم کا عینی شاہد ایک ویسا ہی مجبور و مقہور مسلمان بھی تھا ۔وہ مسلم خاتون کو بچانے کے لیئے تو کچھ نہ کرسکا،البتہ خود کلامی کے انداز میں یہی بُڑبُڑا سکا۔
"میں تیری پکار اور فریاد خلیفہ المسلمین معتصم باللہ تک بہر صورت ضرور پہنچاؤں گا ۔"
کچھ دن لگے یا مہینے۔نجانے کیسی کیسی صعوبتیں سفر کی اس غیرت مند مسلم نے برداشت کیں۔بالآخر دربار خلافت جا پہنچا ،اور خلیفہ کو سارا واقعہ لفظ بلفظ ،مرحلہ بہ مرحلہ بتاکر اپنے فرض سے سبکدوش ہوگیا ۔

وا معتصماہ۔۔۔کے لفظ سنتے ہی خلیفہ غصے میں لال بھبھوکا ہوگیا. اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا اور کمر میں حمائل تلوار نیام سے نکال کر،اسے لہرا کر عموریہ کی سمت رخ کرکے بے خودی میں چیخا۔
لبیک، ایتھا الجاریۃ! البیک، ھاذا المعتصم باللہ اجابک، لبیک یا اختاہ . لبیک لبیک یا اختاہ
میری مسلم بہن۔۔حاضر ہوں۔ابھی پہنچتا ہوں ۔
بھرے ہوئے دربار میں سراسیمگی پھیل گئی۔ایک طویل وقت ،مسافت اور صعوبتوں بھرے سفر کی بڑی جنگ کا خطرہ منڈلانے لگا ۔

خلیفہ نے درباریوں ،وزیروں،امیروں اور مشیروں کے مشوروں،اندیشوں اور خطروں سے آگاہ کرنے کےلیئے منہ کھولنے سے پہلے ہی جنگ کا نقارہ بجانے،لوگوں میں عام اعلان کرنے اور تیرہ ہزار چتکبرے طاقتور گھوڑے اکٹھے کرنے اور ایک بڑا لشکر ترتیب دینے کا اعلان کردیا ۔
لشکر تیار بھی ہوا،جانب منزل روانہ بھی ہوا اور چتکبرے گھوڑوں نے برق رفتاری سے عموریہ پہنچا بھی دیا۔ بزدل رومی اپنے مضبوط قلعے میں چھپ گئے اور بزعم خود محفوظ ہوگئے۔معتصم کے لشکر نے محاصرہ کرلیا جو طویل ہونے لگا۔خلیفہ کو یہ تأخیر و طوالت کچھ اچھی نہ لگی کہ اس کا ہدف محض شہر اور قلعہ فتح کرنا نہیں ،مسلم خاتون کی داد رسی اور انتقام تھا،جس کی آگ میں وہ اور اس کے لشکری جل رہے تھے۔

قصص العرب کی کسی کتاب میں یہ واقعہ بالتفصیل بیان کیا گیا ہے کہ
"جب یہ محاصرہ طول پکڑ گیا تو معتصم باللہ نے مشیروں سے مشورہ طلب کیا- انہوں نے کہا: ہمارے خیال کے مطابق آپ ‏عموریہ کو انگور اور انجیر کے پکنے کے زمانے ہی میں فتح کرسکتے ہیں- چونکہ اس فصل کے پکنے کے لیے ایک لمبا وقت درکار تھا، اس لیے خلیفہ پر یہ مشورہ بڑا گراں گزرا-
خلیفہ اسی رات اپنے خاص سپاہیوں کے ہمراہ چپکے چپکے لشکر کے معائنے کے لیے نکلا تاکہ مجاہدین کی ‏باتیں سن سکے کہ اس بارے میں ان کی چہ مگوئیان کس نتیجے پر پہنچنے والی ہیں-

خلیفہ کا گزر ایک خیمے کے پاس سے ہوا جس میں ایک لوہار گھوڑوں کی نعلیں تیار کر رہا تھا- بھٹی گرم تھی- وہ گرم گرم سرخ لوہے کی نعل نکالتا تو اس کے سامنے ایک گنجا اور بدصورت غلام بڑی تیزی سے‏ ہتھوڑا چلاتا جاتا- لوہار بڑی مہارت سے نعل کو الٹتا پلٹتا اور اسے پانی سے بھرے برتن میں ڈالتا جاتا- اچانک غلام نے برے زور سے ہتھوڑا مارا اور کہنے لگا:
" فی رأس المعتصم۔۔ یہ ہتھوڑا معتصم کے سر پر"
لوہار نے ڈرتے ڈرتے غلام سے کہا:
"تم نے بہت بری بات کہی ہے- اپنی اوقات میں رہو-‏تمہیں اس بات کا کوئی حق نہیں کہ خلیفہ کے بارے میں ایسا کچھ کہو۔"

غلام کہنے لگا:
" تمہاری بات بلکل درست ہے ،مگر ہمارا خلیفہ بالکل عقل کا کورا ہو گیا ہے- اتنی فوج ، تمام تر قوت اور طاقت ہونے کی باوجود حملہ میں تاخیر کرنا بے وقوفی نہیں تو کیا ہے۔اللہ کی ‏قسم! اگر خلیفہ مجھے یہ ذمہ داری سونپ دیتا تو میں کل کا دن عموریہ شہر میں گزارتا۔"
لوہار اور اس کے غلام کا یہ مکالمہ سن کر خلیفہ معتصم باللہ دنگ سا رہ گیا- اس نے چند سپاہیوں کو اس خیمے پر نظر رکھنے کا حکم دیا اور اپنے خیمے کی طرف واپس لوٹ آیا- ‏صبح ہوئی تو ان سپاہیوں نے اس ہتھوڑے مارنے والے غلام کو خلیفہ معتصم باللہ کی خدمت میں لا حاضر کیا-

خلیفہ نے پوچھا:
" رات جو باتیں مین نے سنی ہیں، ان باتوں کی کرنے کی تمہیں جرات کیسے ہوئی؟
غلام نے جواب دیا:" آپ نے جو کچھ سنا ہے، وہ سچ ہے- اگر آپ جنگ میں مجھے کمانڈر بنادیں تو مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی عموریہ کو میرے ہاتھوں فتح کروا دے گا-"
خلیفہ نے کہا: "جاؤ میں نے فوج کی کمان تمہیں سونپ دی-"اس غلام کی قیادت و حکمت عملی کے مطابق جنگ کی بساط بچھی،تو شام سے پہلے اللہ تعالی نے عموریہ کو اس غلام کے ہاتھوں سرنگوں کرکے اسلامی لشکر کو فتح سے ہمکنار کر دیا۔

فتح کے بعد معتصم باللہ شہر کے اندر داخل ہوا-‏اس نے فوراً اس آدمی کو تلاش کیا جو اس عورت کے متعلق اس کے دربار تک شکایت اور پیغام لے گیا تھا اور اس سے کہا: جہاں تو نے اس دُہائی دینے والی عورت کو دیکھا تھا وہاں مجھے لے چلو. وہ آدمی خلیفہ کو وہاں لے گیا اور عورت کو اس کے گھر سے بلا کر خلیفہ کی خدمت میں پیش کیا- اس وقت خلیفہ نے اس عورت سے کہا:
یا جاریۃ! ھل اجابک المعتصم؟
" لڑکی! بتا معتصم تیری مدد کو پہنچا یا نہیں؟" اس لڑکی نے ممنونیت اور تفاخر کے ملے جلے احساسات کے ساتھ اثبات میں اپنا سر ہلا دیا-

اور اب تلاش اس خودسر موٹے عیسائی کی ہوئی جس نے اس لڑکی کو بے نقاب کرکے تھپڑ رسید کیا تھا- اس کو پکڑ کر لایا گیا اور اس ‏لڑکی سے کہا گیا کہ آج وقت ہے تم اس سے اپنا بدلہ لے لو۔ اس بدلے نے جس کے پیچھے خلیفۃ المسلمین کی ملّی حمیت اور قومی غیرت محرک و دافع تھی، نہ صرف اس غیرت و حمیت کو تاریخ کے اوراق میں زندہ و جاوید کردیا بلکہ اہل اسلام کے لیئے فخر کا مقام بھی بنا دیا۔کچھ ایسا ہی غیرت و حمیت کا معاملہ تاریخ نے تب بھی محفوظ کیا جب نوعمر اموی جرنیل محمد بن قاسم سندھ کے راجہ داہر کے ایک بے بس عورت پر ظلم کی دادرسی کرتا دیبل کے ساحل پر اترا اور فتح کے پھریرے لہراتا کہاں سے کہاں جا پہنچا۔

بے شک شاعر مشرق نے بجا کہا،

ُوہ تو تھے آباء تمہارے ہی،مگر تم کیا ہو!

آج کے57 اسلامی ممالک کے حکمران اس ملّی غیرت و حمیّت سے ناآشنا ہیں،جو ان کے آباء و اجداد کا طُرّہِ امتیاز تھی. وگرنہ قوم کی ایک بے قصور بیٹی عافیہ صدیقی دشمن کے عقوبت خانے میں سالہاسال سے بے قصور و گناہ گل سڑ نہ رہی ہوتی اور وقت کے ابن قاسم اور معتصم کو دہائیاں نہ دے رہی ہوتی۔
"مجھے اس جہنم سے کوئی تو نکالے"۔۔۔!

Comments

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم سابق چیئرمین تعلیمی بورڈ فیصل آباد ہیں۔ ڈائریکٹر کالجز، گورنمنٹ کالج سمن آباد کے ریٹائرڈ پرنسل اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے سابق چیئرمین شعبہ عربی ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے 30 سال کا تعلق ہے۔ بطور مقرر قومی پروگرام ۔۔حی علی الفلاح۔ سلسلہ "قر ان حکیم اور ہماری زندگی۔ نشری تقاریر پر مشتمل چھ کتب ''قول حسن، قول سدید، قول مبین، قول مجید، قول کریم اور قول حکیم شائع ہو چکی ہیں۔ دو کتب قول فصل اور قول کریم زیر ترتیب ہیں۔ ترکی جو میں نے دیکھا کے نام سے سفرنامہ شائع ہو چکا ہے۔ خود نوشت ''یادوں کا دریچہ'' زیرقلم ہے

Click here to post a comment