پالتو پرندے مثلا ً طوطے جن کو اچھے اخلاق و دعائیں سکھائی جاتی ہیں، تقریر کی نقل کرنے، پیار بھرے رویے کا مظاہرہ کرنے، اور سوال کا جواب دینے کی ان کی تربیت و صلاحیت انہیں خوشگوار ساتھی، خاص دلکشی اور قدر کا حامل بناتی ہے، یہ اپنی ذہانت اور نظم و ضبط سے خوشی اور تفریح لاتے ہیں، ان کی نایاب مہارتوں اور تربیت میں درکار محنت کی وجہ سے، وہ اکثر مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں، یہ تربیت دینے والوں کی لگن اور ان پرندوں کی انسانوں کے ساتھ بنائے جانے والے انوکھے رشتے کی عکاسی کرتا ہے، جو انہیں قیمتی پالتو جانور، حکمت اور مثبتیت کی علامت بناتا ہے۔
افریقی گرے طوطا ایک ناقابل یقین حد تک ذہین اور دلکش پرندہ ہے، جو انسانی تقریر کی نقل کرنے اور پیچیدہ احکامات کو سمجھنے کی اپنی غیر معمولی صلاحیت کے لیے جانا جاتا ہے، یہ 50 سال کی عمر تک سیکھ سکتا ہے، یہ وفاداری اور پیار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مالکان کے ساتھ گہرے رشتے بناتے ہیں، ان کی مسئلہ حل کرنے کی مہارت، تجسس کا گہرا احساس، ہمیشہ نئی چالیں سیکھنے اور انٹرایکٹو کھیل میں مشغول رہنے کا شوق گھر کا ماحول خوشگوار بنا دیتا ہے، ان کے حیرت انگیز سرمئی رنگ کے پنکھ، روشن سرخ دم، ان کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں، افریقی گرے طوطے صرف پالتو جانور ہی نہیں بلکہ وہ قابل ذکر شخصیات کے ساتھ زندگی بھر کے دوست ہیں۔
قابل قدر دوست مرزا اجمل جرال سینیئر ایڈووکیٹ نے افریقی سرمئی طوطا خریدا، گھر میں تمام بچے بشمول ہانیہ، معیز، حرم، صیام و دیگر جلد اس سے منسلک ہوگئے، اپنے ذہین پروں والے دوست کے ساتھ گہرا اور پیار بھرا رشتہ بنا لیا، وہ بے تابی سے طوطے کو نئے الفاظ، کلمے، دعائیں اور دیگر خوش آئند جملے سکھانے میں وقت گزارتے، ہر اس لفظ میں خوش ہوتے جس کی وہ نقل کرنا سیکھتا، یہ طوطا خاندان کا ایک پیارا حصہ بن گیا، اس خاص تعلق سے نہ صرف طوطے کی بات چیت کی مہارت بڑھی بلکہ بچوں کے صبر، مہربانی اور احساس ذمہ داری کو بھی پروان چڑھانے میں مدد ملی۔
وفادار طوطے کا بچوں کے ساتھ ایک دلی رشتہ بن گیا، ہر صبح، وہ بچوں کو اسکول کے لیے نکلتے وقت انھیں بے تابی سے دیکھتا "خدا حافظ" بولتا اور دوپہر کو، سکول سے واپسی پر خوش دلی سے چہچہاتے ہوئے انھیں خوش آمدید کہتا، بچے باری باری اسے ہاتھ سے کھلاتے اور بدلے میں، وہ میٹھے انداز میں ان میں سے ہر ایک کو "شکریہ" بولتا، محبت کے آخری لمس کے طور پر، وہ نرمی سے انہیں اپنی ناک سے بوسہ دیتا، پیار بھرے اشارے اسے خاندان کا ایک پیارا رکن بنا دیتے ہیں۔
جب بچے اسکول سے دیر سے آتے تھے، ان کی غیر موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے، طوطا بے چینی سے ٹہلتا رہتا، دیوار پر بیٹھ کر ان کی راہ تکتا، چند منٹوں بعد وہ اندر واپس آجاتا، پھر جلدی سے باہر نکل جاتا، اس کی پریشانی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی جاتی، آخر کار جب وہ بچوں کو دور سے دیکھتا تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہتی، پرجوش پھڑپھڑاہٹ کے ساتھ، وہ ان کے سروں کے اوپر پرواز کرتا، تقریباً یوں جیسے وہ انہیں گھر لے جا رہا ہو، ان کی واپسی کا جشن منا رہا ہو، اس سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ پرندے کے دل میں بھی محبت اور لگاؤ کی کوئی حد نہیں ہوتی۔
سرمئی طوطے اور خاندان کے درمیان تعلق محبت، عقیدت اور گرمجوشی سے بھرا ہوا تھا، ہر صبح، اس کی دعاؤں اور خدا کے ناموں کی روحانی تلاوت نے گھر میں ایک پرسکون اور روحانی ماحول پیدا کیا، جب بھی بھوک لگتی، اس کا پرجوش نعرہ "مجھے کھانا کھلاؤ" صرف ایک درخواست نہیں بلکہ اعتماد اور محبت کا اشارہ تھا، کھانا کھلانے کے بعد خاندان کے ہر فرد کا فرداً فرداً شکریہ ادا کرنا، اس مہربانی اور شکرگزاری کی عکاسی کرتا ہے جو اس نے اپنے پیارے ماحول سے سیکھا تھا، یہ قابل ذکر طوطا ایک پالتو جانور، ایک پیارا ساتھی، خوشی کا ذریعہ اور یکجہتی کی علامت تھا، یہ ثابت کرتا تھا کہ محبت اور شکرگزاری کی کوئی سرحد نہیں ہے.
سرمئی طوطا کھانے کی میز اور ہر خاندانی اجتماع کا ایک ناقابل تلافی حصہ بن گیا تھا، بچے فخر سے ہر مہمان سے اس کا تعارف کراتے، اس کی معصومانہ حرکات خواہ وہ گفتگو کی نقل کرنا ہو یا کھلے دل سے اس کے سر کو دائیں بائیں ہلانا — خوشی کی شمع بن گئی، دلوں کو روشن کرتی اور ہر کھانے کو تھوڑا گرم، ہر موقع کو قدرے روشن بناتی۔
سرمئی طوطے نے کبھی خود کو قیدی محسوس نہیں کیا، اس کی دنیا اس کے دل کی طرح کھلی تھی، اس کا پنجرہ محض ایک آرام گاہ تھی جو ہر وقت کھلا رہتا تھا، وہ گھر کے باغیچے میں آزادانہ چہل قدمی کرتا، ہر کونے کو تلاش کرتا ہوا، ہوا کے جھونکے کے ساتھ آسمان تلے رقص کرتا، جب کبھی وہ نظروں سے دور اڑ جاتا تو ہمیشہ گھر کو لوٹ آتا کیونکہ گھر پنجرہ نہیں تھا، بلکہ محبت اور تعلق کی جگہ تھی۔
ایک دن طوطا باغ میں سہانے موسم سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک، کوّوں کا ایک گروپ آ پہنچا، جو زور سے کانگ رہا تھا، شاید خوب صورت طوطے کی توہین بھی کر رہا ہو، شوروغوغا سے طوطا پریشان ہو کر اڑا اور غائب ہو گیا، گھر والوں نے ہر جگہ تلاش کیا، اس کا نام پکارا اور چھپنے کی ہر ممکن جگہ کی جانچ کی، لیکن کوششیں رائیگاں گئیں، اپنے پیارے پالتو طوطے کو تلاش کرنے کے لیے بے چین، انہوں نے مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پر اعلانات کروائے کہ جو بھی اس گمشدہ طوطے کو پکڑ کر واپس کر دے اسے معقول انعام دینے کی پیشکش کی.
طوطے کا کھو جانا خاندان کے لیے ایک گہرا صدمہ تھا لیکن بچوں نے اس گمشدگی کو دل پر لے لیا، بچے پریشان تھے کہ کیا ان کے پروں والے دوست کو کبھی گھر کا راستہ ملے گا؟ اسے ڈھونڈنے کی امید میں گلیوں میں گھومتے پھرتے ہر جگہ تلاش کیا، بچے زیادہ جذباتی ہو گئے، چھوٹی حرم کے آنسو بہنے لگے، بچوں نے رات کو سونے سے انکار کر دیا، گھر میں ایک خوفناک خاموشی چھا گئی، ہر چہرے پر غم نمایاں تھا، وہ اپنے پیارے طوطے کو بہت یاد کرتے تھے، وہ جو خالی پن چھوڑ گیا تھا وہ ناقابل تردید تھا۔
اگلی صبح بچے بیدار ہوئے تو یہ دیکھ کر ایک مرتبہ پھر سے دل ٹوٹے کہ ان کا پیارا طوطا غائب ہے، پنکھ والے دوست کا کوئی نشان نہیں تھا، جب وہ کسی معجزے کی امید میں اسکول کے لیے روانہ ہوئے تو دلوں میں اداسی چھائی تھی، گھر واپس آئے تو خاموشی اور بھی تکلیف دہ تھی، ہر روز، ان کا استقبال طوطے کی " خوش آمدید، خوش آمدید" سے ہوتا تھا لیکن آج، کچھ بھی نہیں تھا، گھر میں خالی پن نے ان کے غم کو مزید گہرا کر دیا۔
کھانے کی میز پرمعمول کی چہچہاہٹ غائب تھی، صرف پلیٹوں پر چمچوں کے ٹکرانے کی آواز خاموشی میں گونج رہی تھی، بچوں نے بمشکل چند لقمے کھائے اور کسی سے بات نہیں کی، طوطے کی عدم موجودگی نے ایک ایسا خلا چھوڑ دیا تھا جسے الفاظ بھی بھر نہیں سکتے تھے۔
ایک گھریلو ملازمہ نے بتایا کہ ان کا گمشدہ سرمئی طوطا تین گلیوں کے فاصلے پر ایک گھر میں دیکھا گیا ہے جنہوں نے کبوتر پال رکھے ہیں، مرزا اجمل جرال صاحب پوچھنے گئے لیکن گھر کا مالک جو ایک مقامی سکول کا گارڈ تھا، نے کسی طوطے کی موجودگی سے انکار کر دیا، اجمل جرال نے اگلے دن اس کے کام کی جگہ پر دوبارہ اس شخص سے ملاقات کی، تاہم، آدمی نے قسم کھائی کہ اس نے طوطے کو کبھی نہیں دیکھا، بچوں نے اصرار کیا کہ طوطے کی واپسی کی امید میں پولیس اسٹیشن میں فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (F.I.R) درج کریں۔
جیسے ہی F.I.R. درج ہوئی، پولیس نے فرسٹ مشتبہ ملزم یعنی مقامی سکول گارڈ کو پوچھ گچھ کے لیے اٹھا لیا، چند ہی منٹوں میں اس نے بتا دیا کہ اس نے طوطا چوری نہیں کیا بلکہ کبوتروں کے ڈربے میں افریقی طوطا گھس گیا تھا جسے پکڑ کر لاہور کی کینال برڈ مارکیٹ میں 80 ہزار روپے میں فروخت کر دیا تھا، اس نشاندہی پر کارروائی کرتے ہوئے مقامی پولیس نے لاہور پولیس سے رابطہ کیا اور سکول گارڈ کو لاہور لے گئی جہاں پرندوں کی دکان کے مالک سے پوچھ گچھ کی، دکان کے مالک نے پہلے انکار کیا، اسے گرفتار کرکے حافظ آباد لایا گیا.
ایک رات اسے حوالات میں رکھا گیا، دوران تفتیش اس نے انکشاف کیا کہ طوطے کو ایک لاکھ بیس ہزار کے عوض کراچی کی ایک پارٹی اے ٹو زی برڈز شاپ کو فروخت کر دیا تھا، اب تفتیش رک چکی تھی کیونکہ طوطا بین الصوبائی حدود پار کرچکا تھا اور کراچی سے طوطا کی بازیابی جوئے شیر لانے مترادف تھی، تاہم ایک مقامی بااثر شخصیت کی مدد سے اس نے پولیس کو یقین دلایا کہ وہ لاپتہ طوطے کی بازیابی کیلئے ہر ممکن تعاون کرے گا اور کچھ وقت حاصل کر لیا۔
لاہور والا ملزم کچھ وقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا لیکن مرزا اجمل جرال اور مشترکہ دوست قیصر منیر کھوکھر نے تگ ودو جاری رکھی، اس کوشش میں قیصر نے دو مرتبہ اس کی دکان کا رخ کیا لیکن کاروائی آگے نہ بڑھ رہی تھی، اب خود ہی کوئی ایکشن کرنا مطلوب تھا۔
مرزا اجمل جرال نے ایک دیرینہ دوست ملیر چھاؤنی کے بریگیڈیئر مشتاق سے رابطہ کیا، تمام ضروری کاغذات و ایف آئی آر کی کاپی فراہم کی، تاہم اصل سسپنس اس وقت شروع ہوا جب اے ٹو زیڈ برڈز شاپ کے مالک نے اس معاملے میں ملوث ہونے یا علم ہونے سے انکار کیا، کینال لاہور والے ملزم پر قیصر منیر کھوکھر نے خوب دباؤ ڈالا، روز اس کی دکان پر جا کر پریشر ڈالتا اور طوطے کی بازیابی کا مطالبہ کرتا، اسے واضح الفاظ میں بتایا کہ طوطا بازیاب کروائے بغیر جان خلاصی ناممکن ہے، تب دکاندار نے تب حیل و حجت شروع کی، اس نے ایک اہم ثبوت فراہم کیا، اے ٹو زی برڈز شاپ کے مالک نے اپنے یوٹیوب چینل پر سرمئی طوطے والی وڈیو اپلوڈ کی تھی جس میں وہی طوطا دعائیں اور کلمات بول رہا تھا، یہ ناقابل تردید ثبوت تھا، دکان کے مالک نے اس دعوے کو مسترد کر دیا جس سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی، اس کا موقف تھا کہ روزانہ ایسے کئی پرندے خرید وفروخت کیلئے لائے جاتے ہیں لہذا اسے ٹھیک سے یاد نہیں، اسے ملیر چھاؤنی لے جایا گیا اور فقط ایک آپشن دیا گیا کہ طوطا بازیاب کراؤ، شروع میں اس نے مزاحمت کی اور چیخنا چلایا لیکن ایف آئی آر کی کاپی دکھانے پر وہ پرسکون ہو گیا، دوران حراست اس نے انکشاف کیا کہ سدھائے ہوئے میل طوطے کا فی میل طوطی کے ساتھ جوڑا بنا کر پرندوں کے شوقین میاں بیوی کو 380000 روپے میں فروخت کر دیا ہے، جب خریدار کا رابطہ نمبر مانگا گیا تو اس نے دکان کے ویڈیو کیمروں کو چیک کرنے کا بتایا، ملیر چھاؤنی والے اسے واپس دکان پر لے گئے، جہاں فوٹیج کا جائزہ لیکر خریدار کی شناخت کی گئی، دکاندار نے مزید انکشاف کیا کہ یہ خریدار جوڑا ہر اتوار کو اس کی دکان پر آتا ہے، اتوار تک انتظار کرنا ہوگا۔
اگلے اتوار کو، خوش قسمتی سے خریدار جوڑا اسی دکان پر آیا، جہاں سے انہیں گرفتار کرکے تفتیش کے لیے ملیر چھاؤنی لے گئے، ابتدائی طور پر، انہوں نے لالو کھیت کے علاقے میں واقع برڈز مارکیٹ میں ایک راہگیر کو طوطوں کی جوڑی فروخت کرنے کا دعوی کیا اور مزید تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کردیا کہ وہ فقط ایک عام راہگیر تھا جسے وہ بالکل نہیں جانتے، اس اعتراف کے باوجود طوطا ہنوز لاپتہ تھا، کہانی سلجھنے کی بجائے مزید الجھ چکی تھی، ہر جگہ طوطے کی ہجرت آگے سے آگے جاری تھی، وجہ بہت مضبوط تھی کہ طوطے کو الفاظ وکلمات سکھانے میں برسوں بیت جاتے ہیں اور یہ پہلے سے سدھایا فرینڈلی طوطا تھا جو بچوں کو بالکل نہیں کاٹتا تھا، ہر کوئی اس کی زبان سے دعائیں و درود سن کر اس کا فین ہو جاتا تھا، اگر استطاعت ہوتی تو اسے خریدنے کی کوشش ضرور کرتا تھا یا کم از کم قیمت ضرور دریافت کرتا، اسان الفاظ میں طوطے کا سی وی ہیوی مینڈیٹ پر مشتمل تھا.
ملیر چھاؤنی والوں کی قابل ستائش کاروائی کے باوجود طوطے کا مصدقہ سراغ نہ مل سکا تھا، اب تفتیش کا سب سے پیچیدہ مرحلہ باقی تھا، لالو کھیت برڈز مارکیٹ پولیس سٹیشن کے قریب ہی واقع ہے، سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے خریدار کی شناخت کی گئی اور امید تھی کہ یہ آخری منزل ہوگی، آخر کار سی سی ٹی کیمروں اور ڈیٹا کی مدد سے کلفٹن سے طوطا بازیاب کر لیا گیا، مزید تسلی کیلئے واٹس ایپ وڈیو کال پر مرزا اجمل جرال کو طوطے کی شناخت کروائی گئی، اجمل جرال کو دیکھتے ہی طوطے نے چہچہانا شروع کر دیا، "اجمل، اجمل"، یہ آخری نشانی بھی پوری ہوگئی۔
اس کے بعد طوطے کی قیمت واپس کرنے کا سلسلہ اوپر سے نیچے کی طرف شروع ہوا، ضروری کاغذی کاروائی مکمل کرنے کے بعد طوطے کو کراچی سے لاہور بزنس کلاس ٹرین میں سوار کیا گیا، لاہور پولیس نے اسے ریلوے سٹیشن سے وصول کرکے مزید کارروائی کے لیے تھانہ حافظ آباد بھیج دیا.
مقامی حافظ آباد پولیس نے افریقی طوطا اصل مالک مرزا اجمل جرال کے حوالے کر دیا، طوطا جب گھر واپس پہنچا تو بچوں میں راحت اور خوشی کی لہر دوڑ گئی، پرجوش، بچوں کی خوشیاں ان کے چہروں سے عیاں تھیں، جیسے ہی طوطے نے بچوں کو دیکھا، وہ خوشی سے چہچہانے اور ان کے نام پکارنے لگا "ہانیہ، معیز، حرم، صیام"، اور پرجوش انداز میں پنجرے میں چکر لگانے لگا کہ جیسے ناچ رہا ہو، دل دہلا دینے والا دوبارہ ملاپ بچوں کی طوطے سے لگن کا سچا ثبوت تھا، بچوں کی محبت و دعائیں رنگ لائیں، مقامی سکول گارڈ کی لغزش کو بھی معاف کر دیا گیا، اس کیس نے ثابت کر دیا کہ جب پولیس پرعزم اور فرض شناس ہو تو انتہائی غیر متوقع کیس بھی حل کر سکتی ہے اور غیر متوقع وصولی کو بھی حقیقت میں بدل سکتی ہے! بائیس دن آوارہ گردی کے بعد طوطا گھر واپس آ چکا ہے، امید ہے کہ اب طوطے کے حقوق کا بھرپور خیال رکھا جائے گا اور اسے دوبارہ لمبی اڑان کا موقع نہیں دیا جائے گا، اس کہانی میں سب سے قابل قدر رول ملیر چھاؤنی والوں کا رہا ہے ورنہ حافظ آباد سے اڑان بھرنے والا طوطا کراچی میں سے بازیاب کروانا جوئے شیر لانے مترادف ہی تھا.
تبصرہ لکھیے