جب 1947 میں پاکستان معرضِ وجود میں آیا، تو لاکھوں مسلمانوں نے بے شمار قربانیاں دے کر یہ مملکت حاصل کی۔ ہمارے آباؤ اجداد نے اپنی زمینیں، جائیدادیں، کاروبار، اور صدیوں پرانی وابستگیاں چھوڑ کر ایک ایسے دیس کی طرف ہجرت کی، جہاں اسلامی اصولوں کی پاسداری ہوگی، عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا، اور نبی کریم ﷺ کی سنت کو آئینی حیثیت حاصل ہوگی۔ انہیں یقین تھا کہ یہ ملک ایک ایسا مثالی معاشرہ تشکیل دے گا جہاں اخوت، بھائی چارہ، امن و سکون اور خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔
مگر افسوس! قائداعظم کی وفات کے بعد وہ خواب بکھرنے لگا جس کے لیے بے شمار جانیں قربان کی گئی تھیں۔ انگریز تو چلے گئے مگر ان کی باقیات نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھال لی۔ وہی استحصالی نظام جو انگریز چھوڑ کر گیا تھا، اسے چند مراعات یافتہ طبقات نے اپنی مرضی سے ڈھال لیا۔ ریاست کو اشرافیہ کے مفادات کا محافظ بنا دیا گیا، اور عام آدمی جو قربانی دے کر یہاں آیا تھا، وہی سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہوگیا۔
ایماندار قیادت کا فقدان یا عوام کی بے حسی؟
یہ سوال آج بھی ایک معمہ ہے کہ کیا اس ملک میں ایماندار لوگوں کی کمی ہے؟ ہرگز نہیں! پاکستان میں آج بھی دیانتدار، محبِ وطن، اور مخلص لوگ موجود ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ قیادت میسر نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ قوم اپنے حقیقی رہنماؤں کو پہچاننے سے قاصر رہی ہے۔ ہر الیکشن میں ایک مخصوص طبقہ، دولت، طاقت اور اثر و رسوخ کے ذریعے عوام کی رائے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ میڈیا، پروپیگنڈا اور جھوٹے وعدے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، اور نتیجتاً، اقتدار انہی لوگوں کے ہاتھ آتا ہے جو ہمیشہ سے عوام کو استحصال کا شکار بناتے آئے ہیں۔
جمہوری عمل اور جماعت اسلامی کی مثال
پاکستان میں ایسی سیاسی جماعتیں بھی موجود ہیں جو حقیقی معنوں میں ایمانداری اور دیانتداری کی علامت ہیں۔ جماعت اسلامی اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔ یہ وہ جماعت ہے جس کی قیادت مالی، اخلاقی، اور انتظامی لحاظ سے شفاف ہے۔ جماعت اسلامی میں مکمل جمہوری عمل کارفرما ہے، جہاں قیادت وراثت میں نہیں ملتی بلکہ انتخاب کے ذریعے چنی جاتی ہے۔ اس جماعت میں ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفیسرز، اور دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد موجود ہیں جو ملک کی بہتری کے لیے وژن اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ایک غیر فرقہ وارانہ جماعت ہے، جو دین اور سیاست کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین رکھتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی عوام نے کبھی پوری سنجیدگی سے ایسے ایماندار لوگوں کو منتخب کرنے کی کوشش کی؟ بدقسمتی سے نہیں! بار بار آزمائے ہوئے لوگوں کو ہی دوبارہ چن لیا جاتا ہے اور پھر شکایت کی جاتی ہے کہ حالات نہیں بدل رہے۔
مسئلے کا حل کیا ہے؟
پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی اور فلاحی ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ:
1. عوام میں سیاسی شعور پیدا کیا جائے: عوام کو سمجھنا ہوگا کہ جذباتی نعروں، جھوٹے وعدوں، اور وقتی فائدے کے لیے ووٹ دینا ملکی تباہی کو دعوت دینا ہے۔ ووٹ ایک امانت ہے، اور اس کا صحیح استعمال ہی قوم کے مستقبل کا تعین کرے گا۔
2. ایماندار قیادت کو موقع دیا جائے: بار بار وہی چہرے آزمانے کے بجائے نئی اور دیانتدار قیادت کو آزمانا ہوگا۔ ایسے افراد اور جماعتوں کو سپورٹ کرنا ہوگا جو حقیقی معنوں میں قوم کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہے ہیں۔
3. تعلیم اور شعور عام کیا جائے: ایک باشعور قوم ہی اچھی قیادت چن سکتی ہے۔ تعلیم صرف ڈگری حاصل کرنے کا نام نہیں، بلکہ اپنی ذمہ داریوں اور حقوق سے آگاہی کا ذریعہ بھی ہے۔
4. اسلامی فلاحی ریاست کا قیام: قائداعظم کے وژن کے مطابق، پاکستان کو ایک ایسا ملک بنایا جائے جہاں عدل و انصاف ہر شہری کو یکساں میسر ہو، اور دولت صرف چند ہاتھوں میں سمٹ کر نہ رہ جائے۔
حاصلِ گفتگو!
پاکستان ان گنت قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا، مگر آج بھی وہ خواب ادھورا ہے جس کے لیے ہمارے اجداد نے ہجرت کی تھی۔ یہ ملک کسی ایک فرد یا جماعت کی جاگیر نہیں، بلکہ 25 کروڑ عوام کا گھر ہے۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ یہ ملک ترقی کرے اور وہی اسلامی، فلاحی اور منصفانہ ریاست بنے جس کا خواب دیکھا گیا تھا، تو ہمیں اپنے رویوں، سوچ، اور انتخاب کے عمل میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ یہ فیصلہ اب ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم دوبارہ دھوکہ کھائیں گے یا اب کی بار صحیح قیادت کو آگے لے کر آئیں گے؟
تبصرہ لکھیے