ہوم << آسائش کے باوجودخواتین نوکری کیوں کرتی ہیں؟ ڈاکٹر عزیر سرویا

آسائش کے باوجودخواتین نوکری کیوں کرتی ہیں؟ ڈاکٹر عزیر سرویا

کسی جگہ خواتین کے کام کرنے پر بحث ہو رہی تھی۔ کسی نے پوچھا وجوہات کیا ہیں کہ خواتین کبھی کبھار سب سہولیات اور آسائشیں موجود ہونے کے باوجود اپنا گھر بار بگاڑ کر نوکری کے لیے ضد لگا لیتی ہیں۔ اس پر کسی خاتون نے یہ سکرین شاٹ والے موتی بکھیرے کہ دراصل یہ معاملہ اپنی عزت نفس قائم رکھنے کا ہے، کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے کا ہے، مانگ تانگ کے نہ کھانے کا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ باتیں بھی بنیادی ضروریات ہیں، سب کچھ بس روٹی کپڑا اور مکان ہی نہیں ہے۔

ایک ہوتی ہے بیمار ذہنیت، بیمار ذہنیت کی اچھی بات یہ ہے کہ بیماری اکثر تمام فریقین پر واضح ہوتی ہے۔ ایک غالب اکثریت چاہتی ہے کہ بیمار ذہنیت تبدیل ہو کر صحت مند ذہنیت بن جائے۔ لیکن ایک ہوتا ہے خبط۔ اس میں مبتلا شخص اور گروہ پر اپنی ذہنی بیماری واضح نہیں ہوتی، بلکہ وہ اپنی بیمار ذہنیت کو دراصل ایک معیار سمجھ کر باقیوں کو بھی اس پر لانے کی کوشش میں لگا رہا رہتا ہے۔

اب مثال کے طور پر دیکھیے کہ میاں بیوی جیسے محبت اور الفت کے تعلق میں، جہاں دو انسانوں نے مل کر ایک گھر بنانا ہے، ایک دوسرے کا لباس بننا ہے، ایک خاندان کو پروان چڑھانا ہے، ایک دوسرے پر اپنی محنت سے کمایا اور جوڑا ہوا رزق (جو مال بھی ہو سکتا ہے، وقت بھی، پیار بھی، توجہ بھی) نچھاور کرنا ہے، سب کچھ بانٹنا ہے، اور اس عمل میں جو “کُل” بننا ہے وہ جزو سے زیادہ ہونا ہے۔۔۔ایسے تعلق میں ایک فریق دوسرے سے کچھ لیتا ہے تو اسے وہ لینا “مانگنا تانگنا” لگے، اسے لگے کہ وہ ہاتھ پھیلا رہا ہے، اسے لگے کہ اس کی عزت نفس تار تار ہو رہی ہے۔۔۔یہ کیسا گھمبیر اور رنجیدہ کرنے والا نفسیاتی عارضہ ہے!!

اس بیماری کا اندازہ کرنے کے لیے آپ ایک منٹ تصور کریں کہ ایک لڑکا اپنی ماں کے پاس جائے اور اس سے کہے کہ ماں اپنے ہاتھ کا پراٹھا کھلا دو، تو پراٹھا کھاتے ہوئے اس کے حلق میں پھنس جائے اور اسے لگے کہ اس نے تو ماں کے آگے ہاتھ پھیلا دیے ہیں۔ پھر یہ لڑکا اپنے باپ کے پاس جائے اور کہے کہ پاپا مجھے ورک پلیس پر فلاں مسئلہ ہے اپنے تجربے سے مجھے مشورہ دیں، اور مشورہ لیتے ہوئے اسے لگے کہ اسے بھیک مل رہی ہے۔ پھر یہ اپنے بھائی یا بہن کے پاس بیٹھ کر اپنا کوئی دُکھ سُکھ کرے تو اسے محسوس ہونے لگے کہ بھائی بہن اس کا غم بانٹ کر کوئی احسان اس پر کر رہے ہیں۔ کیا ایسے انسان کو کوئی بھی باشعور آدمی نارمل سمجھے گا؟

لیکن مزے کی بات دیکھیں کہ اسی ذہنیت کو اپلائی کیے ہوئے یہ “عزت نفس” اور “خود کفیل” کے نعروں والی آنٹیاں جوق در جوق نکل کر شہر کے ایک چوک میں ہر سال اکٹھی ہوتی ہیں (عورت مارچ)۔ وہاں ان کی کوریج ہوتی ہے، پورے ملک تک ان کا پیغام پہنچتا ہے۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ وہاں فاونٹین ہاوس کا عملہ پہنچے اور انہیں علاج کے لیے دس پندرہ سال تک ایک الگ ادارہ شہر سے بہت دور بنا کے وہاں ڈمپ کرنے کا بندوبست کیا جائے۔۔۔۔۔

(جس تعلق میں مرد عورت کو خواہ مخواہ جتائے اور یہ محسوس کروائے کہ وہ کوئی احسان کر رہا ہے اس کا خرچ اٹھا کر، وہ تعلق بھی رکھنے کے قابل نہیں۔ مزید یہ کہ عورت کا نوکری کرنا از خود برا نہیں اگر ترجیحات کا توازن اور اپنی سوچ کو درست سمت میں رکھ کر کیا جائے)

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر عزیر سرویا

ڈاکٹر عزیر سرویا ماہر کینسر کے طور پر سرگودھا اور فیصل آباد میں خدمات انجام دیتے ہوں۔ سماجی و مذہبی امور میں دلچسپی ہے۔ سوشل میڈیا کے معروف لکھاریوں میں سے ہیں۔ وسیع حلقہ قارئین رکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں شوق سے پڑھتی جاتی ہیں

Click here to post a comment