جلال و جمال اور ہیبت و عظمت کا نشان۔ دنیا کے بتکدوں میں خداے لم یزل کا پہلا گھر۔ خلیل اﷲ ابراہیم اور ذبیح اﷲ اسماعیل کی مشقت تعمیر کا مظہر۔ کعبۃ اﷲ۔ ہزاروں اہلِ ایمان‘ طواف کرنے والوں کے گھیرے میں عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز بنا‘ اپنے جلوے بکھیر رہا تھا۔ ایک جانب سے بنو امیہ کا ولی عہدِ سلطنت ہشام بن عبدالملک اپنے خدام اور سرکاری اہلکاروں کے ہمراہ طوافِ کعبہ کے لیے نمودار ہوا۔انتظار کرنے لگا کہ ہجوم چھٹے تو سعادتِ طوافِ کعبہ سے مشرف ہو کہ دوسری جانب سے پروانوں‘ فرزانوں اور مستانوں کے جمِ غفیر کے ہمراہ حسین خدوخال‘ پرکشش قد و قامت‘ نور و جلال اور ہیبت و وجاہت کی پیکر شخصیت دھیرے دھیرے باوقار‘ شائستہ و متین اندازمیں قدم اٹھاتے کعبہ کی جانب بڑھی۔ یک لخت ہجوم بے کراں چھٹ گیا۔ خود بخود راستہ ملتا گیا‘ طواف اور حجرِ اسود کو بوسہ دینے کے بعد یہ شخصیت واپس پلٹ گئی۔ ہشام جسے اپنی شاہی عظمت و قوت پر ناز تھا‘ احساسِ کمتری کا شکار ہو کر غصے میں پیچ و تاب کھاتے ہوئے بھڑک کر کہنے لگا: من ہذا؟ یہ کون ہے؟
عہد اموی کا معروف و ممتاز شاعر فرزدق بھی اسی مجمع میں موجود تھا۔ پکار اٹھا۔ کوئی جانے‘ نہ جانے‘ پہچانے نہ پہچانے‘ میں اس ہستی کو جانتا ہوں۔ زمانہ بھی ان کا معترف ہے اور سرزمینِ حرم اور وادی بطحا نہ صرف ان سے آگاہ بلکہ ان کے پاکیزہ قدموں کی چاپ اور نقشِ پا سے آشنا ہے۔
ھٰذَا الَّذِی تَعْرِفُ الْبَطْحَآء وَطَأتَہ
وَالْبَیْتُ یَعْرِفُہ وَالْحِلَّ وَالْحَرَمُ
دلآویزی کا مرقع‘ لطف و کرم کی مثال‘ شفقت و محبت کا مجسمہ‘ عجز و نیاز کا سراپا‘ زہد و تقویٰ کی تصویر یہ عظیم ہستی خانوادۂ ہاشمی‘ علوی اور حسینی کے چشم و چراغ‘ مہر و وفا کے مرکز‘ دلوں کے فاتح اور مرجع خلائق ابو محمد اور ابلاوحسن‘ علیؒ تھے۔ خیر الخلائق‘ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے محترم خاندان سے وابستہ‘ دامادِ رسول‘ حیدر کرار‘ علی ابنِ ابی طالبؓ کے پوتے۔ جنت کے نوجوانوں کے سردار‘ دلوں کے تاجدار‘ حسین شہید کے لختِ جگر‘ جن کی وادی شہنشاہِ کون و مکاں‘ زمین و زماں اور عرب و عجم کی صاحبزادی اور خواتینِ بہشت کی سردار فاطمۃ الزہراؓ اور والدہ شاہ ایران کی بیٹی شہر بانو!! زمانہ انہیں حضرت زین العابدین کے نام سے جانتا اور پہچانتا ہے۔
وہ عالی مرتبت اہلِ بیت کے نمایاں فرد تھے۔ سیدنا حسینؓ کی نسل انہی کے ذریعے سے پھیلی۔ آپ ۳۸ ہجری میں مسجدِ نبوی سے متصل سیدۃ فاطمۃ الزہراؓ کے مکان میں پیدا ہوئے۔ تاریخ ساز معرکۂ کرب و بلا میں بہتر رکنی قافلۂ حسینی امین ٹھہرے اور متعدد اہلِ علم کی نظر میں بے مثل و یگانۂ روزگار شمار ہوئے۔ ۹۴ یا ۹۵ ہجری میں مدینہ منورہ ہی میں وفات ہوئی اور جنت البقیع میں اپنے عم بزرگوار حضرت حسنؓ کے پہلو میں دفن ہوئے۔
حضرت زین العابدین کی پرورش عزت و عظمت اور رفعت و مرتبت کے ماحول میں ہوئی۔ نواسۂ رسول کے فرزندِ ارجمند نے اپنے ارد گرد کے پاکیزہ و مقدس ماحول میں کیا کیا نہ عظمتیں سمیٹیں۔ اہلِ بیت پر سختیوں اور مصائب کے دس بارہ سال کتنے ہی قریب سے دیکھے اور جھیلے۔ کھیل کود کے بجائے ذکر و فکر کو اپنا طرزِ حیات بنالیا۔ تقویٰ اور عبادت سیرت و کردار کی بلندی کا نشان بن گئے۔ عالی نسب باپ نے عالی مرتبت جد امجد ابراہیم علیہ السلام سے تشبیہ دی۔ جوں جوں زندگی کا سفر بڑھتا گیا‘ ذکر و عبادت میں کثرت پیدا ہوتی گئی۔ رات دن میں ایک ہزار نفل ادا کرتے۔ دن کو روزہ اور رات کو نماز کے اس قدر عادی کہ خادمہ کہنے لگی دن کو دسترخوان بچھانے اور رات کو بستر سجانے کی نوبت کم ہی آتی۔ کثرتِ عبادت سے اس قدر کمزور ہو گئے کہ تیز ہوا میں گندم کی بالی کی طرح جھومنے لگتے۔ کثرتِ بیداری سے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ گریہ و زاری اس قدر کرتے کہ بینائی متاثر ہو گئی۔ کثرت قیام و رکوع سے پنڈلیوں پر ورم ہو گیا۔ اسی باعث زین العابدین اور زین الصالحین۔۔۔ عبادت گزاروں اور نیکو کاروں کے جھومر کہلائے۔
اﷲ کا خوف اور عاجزی اس قدر کہ وضو کرتے تو چہرے کا رنگ بدل جاتا‘ ذوالجلال والاکرام کی عظمت و ہیبت کے سامنے زرد پڑ جاتا۔ بارگاہِ الٰہی میں اس قدر سجدہ ریز ہوتے کہ پیشانی پر کثرتِ سجدہ سے نشان پڑ گیا۔ نعمتِ الٰہی یاد آنے پر یا کسی تکلیف سے راحت پانے پر‘ دشمن کی شرارت سے نجات حاصل کرنے پر سجدہ ریز ہو جاتے۔ کثرتِ سجدہ کے باعث‘ سجاد یعنی بہت سجدہ کرنے والے اور سیدالساجدین یعنی سجدہ گزاروں کے آقا اور منار القانتین جھکنے والوں کے لیے مینارۂ نور کے القاب سے پکارے گئے۔ الخاشع‘ خشوع کا مظاہرہ کرنے والے‘ المتہجد‘ تہجد پڑھنے والے‘ الزاہد‘ زہد اختیار کرنے والے‘ البَکَّائی‘ بہت گریہ و زاری کرنے والے بھی آپ ہی کے صفاتی نام ہیں۔
تحمل و بردباری‘ نرمی و ملاطفت آپ کے پاکیزہ اخلاق کی نمایاں صفات ہیں۔ علم وورع کے لیے ضرب المثال۔ فیاضی و دریا دلی اور انفاق فی سبیل اﷲ آپ کا معمولِ حیات۔ خفیہ طور پر سیکڑوں غربا و مساکین کی مدد کرتے۔ اپنے کندھوں اور کمر پر اشیاے خورد و نوش لاد کر مستحقین تک پہنچاتے۔ اس طرح کہ انہیں خبر بھی نہ ہو کہ ان کا محسن کون ہے؟ موت کے بعد میت کو غسل دیا جانے لگا تو جسم پر بوریاں لادنے کے گہرے نشانات عظمت کی ابدی داستان بن گئے۔ آپ نے پاپیادہ اور پارکاب بائیس حج کیے اور ہر حج کے دوران میں اپنی شخصیت کے اظہار کے بغیر راستے میں ہر ملنے والے کی بلاامتیاز خدمت و دستگیری کی۔
رمضان المبارک میں اپنے غلاموں‘ کنیزوں اور ملازموں کی ہر غلطی و خطا کو لکھتے جاتے‘ مگر باز پرس نہ کرتے۔ عید کی شب سب کو اکٹھا کرتے‘ غلطیاں گنواتے جاتے اور معاف کرتے جاتے۔ تقاضا فرماتے کہ تم بھی رو رو کر خدا سے میری مغفرت اور معافی کی درخواست کرو اور پھر خود بھی آہ و بکا اور استغفار میں مصروف ہو جاتے۔ اپنے دادا جناب علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی پیروی میں موٹا لباس پہنتے اور اپنے پردادا جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع میں خوشبو لگاتے اور مختلف عبارتوں سے مزین نگینوں والی انگوٹھیاں پہنتے۔
اسی لیے وہی آن بان‘ شان و شوکت‘ جاہ و جلال‘ قدر و منزلت‘ سطوت و عظمت جو خاندانِ ہاشمی و علوی و حسینی کا طرۂ امتیاز ہے‘ اسی نور و عرفان نے ایک زمانے کو ان کو اسیر بنا دیا۔
مدح خوان اہلِ بیت فرزدق کے الفاظ میں اس عظیم ہستی کے روبرو نگاہیں ان کی جلالت و ہیبت اور حیا و عفت کے سبب جھکی رہتی ہیں اور یہ تو اس خانوادے کے چشم و چراغ ہیں جن سے محبت اور ان کا قرب دین کا تقاضا اور نجات کا معیار ہے۔ حضرت زین العابدین مدینہ میں اصحابِ نبی اور تابعین کے مقتدا ٹھہرے۔ لوگ اپنی مشکلات کے حل کے سلسلے میں آپ سے رجوع کرتے۔ متعدد اہلِ علم اور اکابرینِ امت آپ کے حلقۂ درس میں شامل ہوئے۔ لاکھوں عقیدتمندوں نے آپ سے فیض پایا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے آپ کی وفات پر کہا۔۔۔ ذَھَبَ سِرَاجُ الدُّنْیَا وَجَمَالُ الْاِسْلَامِ وَزَیْنُ الْعَابِدِیْنَ۔۔۔ دنیا کا روشن آفتاب گم ہو گیا‘ اسلام کا حسن کھو گیا اور عبادت گزاروں کا جھومر رخصت ہو گیا۔
آپ کی شادی ۱۸ سال کی عمر میں حضرت حسنؓ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ سلام اﷲ علیہما سے ہوئی۔ یوں ایک بار پھر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسلِ مبارک کے دونوں سرے یکجا ہو گئے۔ جناب باقرؒ انہی کے بطن سے تولد ہوئے۔
حضرت زین العابدینؒ کا حرمین الشریفین سے گہرا تعلق تھا۔ مسجد الحرام میں سیاہ پیرہن میں ملبوس کعبۃ المشرفۃ آپ کے قدموں کی آہٹ سے آشنا تھا اور مسجد النبی میں سبز چادر میں مستور الروضۃ المقدسۃ آپ کے حسب و نسب اور سیرت و کردار کا مرکز و منبع۔۔۔!
حجاج نے ۷۳ ہجری میں دوبارہ تعمیرِ کعبہ کا آغاز کرنا چاہا تو روئے زمین پر اس کے سب سے زیادہ حقدار حضرت زین العابدین ہی سے بنیادیں رکھوائیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے روضۂ اطہر کی اصلاح کا ارادہ کیا‘ تو عظیم المرتبت ہستیؐ کے رفیع المنزلت سپوت جناب زین العابدین سے درخواست کی‘ جنہوں نے قبر اطہر کو غبار سے صاف کیا۔
۶۳ ہجری میں یزید نے مدینہ پر لشکر کشی کی تو اپنی سپاہ کو اہلِ مدینہ سے شدید جنگ کرنے کا حکم اور شہر کو تین روز تک لوٹنے کی اجازت دے دی۔ ان پرآشوب لمحات میں بھی حضرت زین العابدینؒ نے مدینہ نہ چھوڑا۔ اگر وہ بھی شہر سے نکل جاتے تو وراثتِ رسول کا حق کون ادا کرتا؟ روضۂ رسول پر بیٹھے رہے اور مرقد پاک کی حفاظت میں دعا میں مشغول رہے۔
یزیدی فوجوں کے سالارِ اعلیٰ مسلم بن عقبہ نے بلوایا‘ کھڑے ہو کر عظمت کو خراج پیش کیا۔ کچھ مانگنے کی درخواست کی مگر آپ نے شہرِ رسولؐ میں گردن زدنی کے سزا وار ٹھہرائے گئے قیدیوں کی رہائی کے سوا کچھ نہ کہا۔
سیاسی اور مالی مفادات اٹھانے کے کتنے ہی مواقع ملے مگر اپنے بے مثل باپ کے اسوہ حسینی کو اپناتے ہوئے اخلاق و کردار‘ صبر و استقلال‘ عظمت و عزیمت‘ رشد و ہدایت کا مینارۂ نور بنے رہے۔
جس شخصیت کے ظاہر و باطن‘ خون اور جسم‘ سیرت و کردار میں رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم سے وابستگی کے تمام قرینے جھلک بلکہ چھلک رہے ہوں‘ اس سے بڑھ کر ثنا خوانی کا حق اور کون ادا کر سکتا ہے۔ آپ نے اپنی شخصیت کے ہر زاویے و انداز سے رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس طرح مدح خوانی کی کہ مجسم نعتِ محبوبِ کبریا بن گئے۔
جذبوں کو لفظوں کا روپ ملا تو دس اشعار پر مشتمل قصیدہ نعت رسول کا بے مثل بلکہ ضرب المثل شاہکار قرار پایا۔
اِنْ نِلْتَ یَا رِیْحَ الصَّبَا یَوْماً اِلٰی اَرْضِ الْحَرَمِ
اے بادِ صبا اگر کسی روز تمہارا گزر ارضِ محترم کی جانب ہو
بَلِّغْ سَلَامِیْ رَوْضَۃً فَیھَا الْنَبِیُّ الْمُحتَرَمِ
تو اس روضہ اقدس پر جس میں رسولِ محترم تشریف فرما ہیں‘ میرا سلام بھی عرض کرنا۔
اس مدحیہ قصیدہ میں حالات کی ناسازگاری کا عکس نمایاں ہے اور رسالت مآب کی دہائی ہے۔ حضرت زین العابدین کا یہ قصیدہ نہ صرف عرب میں زبان زد عام ہوا‘ بلکہ برصغیر میں شدید عقیدت و محبت کا مرکز ٹھہرا۔
مذکورہ بالا مدحیہ قصیدہ کے علاوہ آپ کے خطوط اور خطبات کا کچھ حصہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ جبکہ آپ کی اکسٹھ دعائوں پر مشتمل الصحیفہ الکاملۃ جسے زبور آلِ محمد کا لقب دیا گیا‘ حیرت انگیز علوم و معارف اور عربی ادب کا شاہکار ہے۔ اسی طرح حقوق و قوانین کا مجموعہ رسالۃ الحقوق اور آپ کے خطبوں‘ خطوط اور کلمات کا مجموعہ بلاغۃ الامام علی بن الحسین بھی موجود ہے۔
تبصرہ لکھیے