ویلنٹائن ڈے ایک غیر اسلامی رسم ہے جو ملک پاکستان میں رائج ہو چکی ہے۔ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا نے اس کو فروغ دینے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس تحریر میں اس کی تاریخ، احادیث کی روشنی میں اس کا مقام اور فتاویٰ جات ملاحظہ کریں گے۔ آئیے ہم پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ یہ بے ہودہ رسم کے تاریخی حقائق کیا ہیں۔ یہ رسم کیسے شروع ہوئی؟ کب شروع ہو ئی؟ اور کس نے اس کی ابتداء کی؟
تاریخی حقائق
ویلنٹائن ڈے کی ابتداء کس طرح ہوئی، اس ضمن میں کافی روایات ہیں، مگر معتبر روایت کے مطابق Encylopedia Britannica [/english میں یہ رقم ہے کہ اس شیطانی دن کا تعلق ہرگز ہرگز Saint Valentine س[/englishے نہیں ہے۔ بلکہ یہ وہ مشرکانہ تہوار ہے جو قدیم رومیوں کے دیوتا Lupercalia کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ جو Juno Februata[/english کے اعزاز میں منعقد ہوتا تھا۔ اس دن تمام لڑکیوں کے نام لکھ کر ایک برتن میں ڈالے جاتے تھے، اور تمام مرد اس برتن سے ایک پرچی نکالتے جاتے۔ جس لڑکی کا قرعہ جس مرد کے ہاتھ آتا، وہ لڑکی تہوار کے اختتام تک اس مرد کی غیر شرعی اور غیر اخلاقی ساتھی بن جاتی۔ المیہ یہ کہ یہ دونوں است اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے تھے اور سارا سال اس شیطانی فعل پر فخر کیا کرتے تھے۔ روم میں جب عیسائیت کو فروغ ملا تو یہ شیطانی فعل ختم کرنے کے بجائے اس کو مزید فروغ دیا گیا۔
دوسری روایت میں ہے کہ تیسری عیسوی میں جب روم پر شہنشاہ کلاڈیئس (دوم) کی حکومت تھی۔ تو ملک کو کئی خون ریز جنگوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اہل روم جنگوں سے تنگ تھے۔ شادی بیاہ پر پابندی تھی۔ ایسے میں ایک عیسائی راہب ویلنٹائن نے لوگوں کی چوری چھپے شادی کروانی شروع کر دی۔ اس جرم کی پاداش میں اسے قید کیا گیا۔ ایسے میں اسے جیلر کی بیٹی سے محبت ہو گئی اور خطوط کا سلسلہ شروع ہوا۔ لڑکی خط کے آخر پر لکھتی You are my Valentine [/english اور وہ آخر میں لکھتا From your Valentine[/english پھر اس نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو اسے اس کے جرم کی پاداش میں 14 فروری کو قتل کیا گیا۔ پھر پوری قوم نے اس کی یاد میں 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منانا شروع کر دیا۔ ایک اور روایت کے مطابق اس کا آغاز اوپر کا لیا کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی آستینوں پر لکھتے تھے اور تحفے تحائف کا تبادلہ کیا کرتے تھے۔ اسی کی پیروی میں 14 فروری (Meeting Season) [/english ایامِ اختلاط میں شامل ہوتا جا رہا ہے۔ در اصل ویلنٹائن ڈے ”یومِ عیاشی و اوباشی” ہے۔
ایک عیسائی اپنی کتاب ”اے ہسٹری آف ویلنٹائن” میں رقم طراز ہے کہ اس یوم کی تاریخ تہوار، رسم و رواج تحریف در تحریف کے عمل سے گزر کر تاریخ میں شرمناک رسم کا حصہ بن گئے ہیں۔ جن کی عملی، عقلی اور فکری بنیادیں ابھی تک مغرب تلاش کر رہا ہے۔ چوتھی صدی عیسوی تک یہ دن تعزیتی انداز میں منایا جاتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ اس دن کو محبت کی یادگار کا رتبہ حاصل ہو گیا۔ برطانیہ میں اس دن اپنے منتخب محبوب اور محبوبہ کو محبت کے جذبات سے بھرے خط اور پیغامات اور سرخ گلاب بھیجنے کا رواج پا گیا۔ جنگ عظیم دوم تک اس کو جرمنی میں نہیں منایا گیا مگر یہ بعد میں امریکہ اور جرمنی میں بھی منایا جانے لگا۔
امریکہ میں یہ روایات مشہور ہیں کہ 14 فروری کو وہ لڑکے یا لڑکیاں جو آپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سٹیم ہاؤس جا کر ڈانس کریں اور ایک دوسرے کے ناموں کو دہرائیں۔ جاپان میں خواتین 14 فروری کو تمام مردوں کو تحفے تحائف پیش کرتی ہیں۔ اسی طرح اٹلی میں یہ مشہور ہے کہ خواتین 14 فروری صبح کو کھڑکی کے سامنے کھڑی ہو جائیں جو پہلے ان کی نظروں سے گزرے گا وہی اس کا مستقبل کا ساتھی ہوگا۔ اسی طرح مغربی ممالک میں یہ مشہور ہے کہ اگر کوئی یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کی کتنی اولاد ہو گی تو اسے چاہیے کہ وہ 14 فروری کو سیب کو کاٹیں اور آدھے سیب میں جتنے بیج ہوں گے اتنے ہی ان کے بچے ہوں گے۔
اس کے آغاز کے بارے میں کچھ افراد کہتے ہیں کہ یہ دن وہ ہے جب سنیٹ ویلنٹائن نے روزہ رکھا۔ اور لوگوں نے اسے محبت کا دیوتا مان کر یہ دن اس کے نام سے منسوب کر دیا۔ فن لینڈ کے لوگ اس دن کو ”فرینڈز ڈے ” کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔ سویڈن میں اسے ”آل ہرٹز ڈے” کہا جاتا ہے۔ رومانیہ میں 14 فروری کو پیار کرنے والوں کا دن کہا جاتا ہے۔ بعض اسلامی ممالک جن کو کچھ اسلام کی حدود کا خیال ہے اس کو ناپسند کرتے ہیں مگر ترقی والے اس دن کو ”سویٹ ہارٹ ڈے ” کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ دن اسرائیل، برازیل اور بہت سے افریقی ممالک میں منایا جاتا ہے۔ ڈنمارک اور ناروے میں اس دن کو ”محبت کرنے والوں کا دن” سے منسوب کیا جاتا ہے۔
ویلنٹائن ڈے کے بارے میں ایک کالم نگار دی نیشن اخبار میں لکھتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے کا آغاز کیسے ہوا: ایک بادشاہ کے زمانے میں جنگوں کا بے انتہا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بادشاہ نے جنگوں کے پیش نظر سپاہیوں کی شادیوں پر پابندی عائد کر دی۔ تو ایک پادری نے راتوں رات شادیاں کرانی شروع کر دیں۔ اسی اثناء میں اس کو گرفتار کیا گیا۔ تو دوران جیل اس کی جیلر کی بیٹی سے محبت ہو گئی اور 14 فروری 270 AD کو اس نے اپنی محبوبہ کو کارڈ دیے اور خط دیا۔ اور اس نے آخر پر لکھا کہ From my Valentine[/english تمہارے ویلنٹائن کی طرف سے۔ پھر اس کو پھانسی دے دی گئی تو پھر اس کی یاد میں ویلنٹائن ڈے منایا جانے لگا۔ (The Nation, Sunday Plus, March 9,2008, Page No: 13)[/english
باقاعدہ چھٹی
1840 میں امریکہ میں اس دن کے موقع پر باقاعدہ چھٹی کی گئی۔ روم میں بھی ویلنٹائن ڈے بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ 1400 عیسوی میں پیرس میں یہ شیطانی رسم ویلنٹائن ڈے ”ہائیکورٹ آف لَو” منائی گئی۔
ویلنٹائن ڈے مذہب و اخلاق سے آزادی کا تہوار ہے۔ وہ خوشی کس کام کی جو ہمیں دین اور اخلاق سے دور کر دے۔ اسلام میں ایمان، حیا اور وقار بنیادی اقدار ہیں۔ مجھے 14 فروری کے روزنامہ پاکستان میں یہ پڑھ کر انتہائی کوفت ہوئی کہ ایک بوڑھی عورت اس دن کو منانے کی خاطر سرخ گلاب خرید رہی ہے۔ ہمارے بزرگوں کا یہ حال ہے تو ہماری نوجوان نسل کا کیا بنے گا۔ انتہائی افسوس ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جب کوئی قوم دشمن کے کپڑے پہنے اور دشمن کے گیت گانے لگ جائے اور اس کے تہواروں میں مشغول ہو جائے تو وہ قوم جنگ سے پہلے ہی شکست تسلیم کر چکی ہوتی ہے۔ افسوس ہے کہ اس کی تقلید کرتے ہوئے اپنی دینی، معاشرتی و اخلاقی اقدار اور شرم و حیا اور غیرت کو پس پشت ڈال کر اس غیر شرعی، غیراخلاقی، اور فحش شیطانی فعل و رسم کو بڑی با قاعدگی سے منایا جاتا ہے۔ یہ غیر اسلامی اور غیر اخلاقی رسم ہے۔ اسلامی ملک میں مغربی تہوار کو منانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہاں پر ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں مغرب کی تقلید کرنی چاہیے یا کہ آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غلامی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ ہمیں رحمان کو راضی کرنا چاہیے یا کہ شیطان کو۔ ہم نے مغرب کی تقلید کر کے بے پردگی، بےشرمی کو فروغ دینا ہے یا حیا و شرم اور غیرت کو فروغ دینا ہے۔ کیا ہماری عقلیں ماؤف ہو گئی ہیں؟ کیا ہمارے ذہنوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے؟ کیا ہمارے دل خدا کا ٹھکانہ بننے کے بجائے اغیار کا ٹھکانہ بن گئے ہیں؟ ہمارا انجام کیا ہوگا؟ قیامت کو ہمارا حساب کن کے ہمراہ ہوگا؟ کن میں ہمارا شمار ہوگا؟ آخر ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہم اپنے اسلامی تہوار اسلامی ثقافت بھول رہے ہیں اور ہنود و یہود کے رسم و رواج کو اپنائے جار ہے ہیں۔ علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا ؎
وضع میں تم نصاریٰ تو تمدن میں تم ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
اے نوجوان مسلم ! تو کس نام نہاد رسم میں کھو گیا؟ تو کن کی تقلید کر رہا ہے؟ تو کس رسم کے لیے اپنا مال ضائع کر رہا ہے؟ کس کے لیے اپنی جوانی داؤ پر لگا رہا ہے؟ تیری نسبت مغرب سے ہے یا کالی کملی والے سے؟ تو غلام مغرب ہے یا غلام مصطفیﷺ؟ تیرا دل و دماغ مصطفی کریم ﷺ کے تصور و خیال کے لیے ہے یا مغرب کی بےشرم بے حیا و بے پردہ تہذیب کے تصور و خیال کے لیے؟ اے نوجوان تجھے آج دیکھنا ہوگا کہ صراطِ مستقیم کون سا ہے؟ اور غلط راستہ کون سا ہے؟ صراطِ رحمان کون سا ہے؟ صراطِ شیطان کون سا ہے؟
اے نوجوان! تیری زبان قرآن و حدیث پڑھنے کے لیے ہے نہ کہ عشق و محبت کے گیت گانے کے لیے۔ تیرا ہاتھ اسلام کا علم بلند کرنے کے لیے ہے، قرآن کو ہاتھ میں لینے کے لیے ہے، بزرگوں اور بے سہاروں کی مدد کرنے کے لیے ہے نہ کہ بے پردہ بے حیا لڑکیوں کے ہاتھوں میں ہاتھ دینے کے لیے۔ تیرے قدم بھلائی کی جانب بڑھنے کے لیے ہیں نہ کہ برائی کو فروغ دینے کے لیے۔ تجھے آج یہ فیصلہ کرنا ہے کہ تو آج اغیار کی رسومات کو منا کر شہیدان جنگ آزادی کی روح کو تڑپائے گا یا پھر ان کے خلاف آواز اٹھائے گا؟ کیا تو شہیدان جنگ آزادی کے خون سے کھیلے گا یا پھر ان کے نقش قدم پر چل کر اغیار کے خلاف باطل کے خلاف آواز اٹھائے گا؟۔
اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھے جس کا تو ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
خدائے وحدہٗ لا شریک نے جن و انس کو پیدا فرمایا تو اس خاطر کہ اس کی بندگی کی جائے۔ اور اس کے پیارے محبوب کی غلامی کی جائے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو فروغ دیا جائے۔ فرمایا: وَمَا خلقت الجن والانس لیعبدون o ہم نے تمہیں یعنی جن و انس کو عبادت کیلئے پیدا کیا ہے۔ رسول اللہؐ نے ہمیں عشق حقیقی کا درس دیا ہے نہ کہ عشق مجازی کا۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ عشق و محبت کے لائق کون ہے؟
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر روز ایک فرشتہ اعلان کر کے کہتا ہے کہ اے جوانو! اپنی جوانی مت ضائع کرو ورنہ پچھتاؤ گے۔ (نفیس الواعظین صفحہ نمبر 280)
مفہوم: اے نوجوان تو کچھ ہوش کے ناخن لے، تیری جوانی بڑی قیمتی ہے، اگر تو نے اسے لعب و لہو، عشق و محبت، موج و مستی میں گنوا دیا تو پھر مستقبل میں بڑا پچھتائے گا۔ تو اپنی جوانی کو دنیا کی رنگینیوں میں ضائع نہ کر، قیمتی وقت کو برباد نہ کر، ورنہ بعد میں سوائے پچھتائے کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جوان کی ایک رکعت بوڑھے کی دس رکعتوں سے افضل ہے اور اللہ کو جوان کی توبہ بہت پسند ہے۔ (نفیس الواعظین صفحہ 279)
مفہوم حدیث: آدمی جوانی میں ایک رکعت ادا کرے تو وہ بوڑھے کی دس رکعتوں سے بہتر ہے۔ کیونکہ بڑھاپے میں وہ پابندی و چستی وغیرہ نہیں رہتی لہٰذا اے نوجوان تو اپنی جوانی کی قدر کر اور اس کو عشق و مستی میں ضائع نہ کر۔ تیری جوانی گزر جانی ہے۔ ڈھل جانی ہے۔ یہ ہمیشہ نہیں رہے گی۔ اے نوجوان تو اپنی جوانی رب کی رضا کے لیے گزار۔ مگر تو اس دنیا کے پیچھے ہے۔ موج و مستی میں غرق ہے۔ موسیقی میں گم ہے یاد رکھ۔ اے نوجوان ؎
ڈھل جائے گی یہ جوانی جس پر تجھ کو ناز ہے
تو بجا لے چاہے جتنا چار دن کا ساز ہے
؎ کسی نے یوں کہا:
[poetry] چھوڑ دے سب غلط رسم و رواج
تو اچانک موت کا ہو گا شکار
موت آئی پہلواں بھی چل یے
خوبصورت نوجوان بھی چل دیے
دبدبہ دنیا میں ہی رہ جائے گا
حسن تیرا خاک میں مل جائے گا
کر لے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی
قبر میں ورنہ سزا ہو گی کڑی
اے غافل نوجوان:
تو چاہے کتنا ہی پہلوان ہو۔ کڑیل جوان ہو۔ کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو۔ تیری بہادری، جرأت اور حسن و خوبصورتی کافی مشہور کیوں نہ ہو. یاد رکھ تو نے ایک دن اس دنیا کو خیرباد کہنا ہے۔ تو نے اپنے حسن سے کتنوں کو ہی دیوانہ بنایا ہو۔ کتنے ہی اپنی جانیں تجھ پر نچھاور کرنے والے ہوں۔ مگر میرے بھائی اس عشق مجازی کو چھوڑ۔ عشق حقیقی کو اپنا تا کہ تو دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: توبہ شاب واحد احب الی اللّٰہ تعالیٰ من توبۃ الف شیخ، اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک نوجوان کی توبہ ہزار بوڑھوں کی توبہ سے زیادہ عزیز ہے۔ میرے بھائی تو آج عشق و معشوقی، کھیل کود میں غرق ہے ذرا ہوش کے ناخن لے دیکھ کہ دشمن تیرے خلاف کیسے کیسے جال بن رہا ہے۔ میرے سامنے 14 فروری کے چند اخبارات ہیں جن میں یہ بات لکھی ہوئی ہے۔ کہ ڈنمارک کے اخبارات میں آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے توہین آمیز خاکے شائع کئے ہیں۔
اے نوجوان مسلم:
تجھ کو کیا ہو گیا ہے کہ تو ان کی تقلید کر رہا ہے کہ جنہوں نے تیرے پیارے نبی ﷺ کے بارے میں توہین کی ہے۔ وہ تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ نوجوان مسلم آوارگی میں مبتلا ہو۔ کھیل کود میں مست ہو۔ لڑکیوں کا دیوانہ ہو۔ خدا سے بے خبر ہو۔ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات سے بے خبر ہو۔ قرآنی تعلیمات سے بے خبر ہو۔ نبیؐ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا ساتھ دے۔ نبی کی محبت اس کے دل سے ختم ہو جائے۔ اس کا دل نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیوانہ و عاشق نہ ہو بلکہ دنیا کا اور عورت کا دیوانہ و عاشق ہو۔ اے مسلم نوجوان ابھی بھی وقت ہے تو اپنے گناہوں سے توبہ کر اور نفاذ نظام مصطفی اور شانِ نبی آخر الزمان ﷺ کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔
غرضیکہ ویلنٹائن ڈے ایک طوفان بد تمیزی ہے۔ بازاروں مارکیٹوں، کالجوں یونیورسٹیوں میں اوباش اور اوارہ گرد نوجوان راہ چلتی لڑکیوں کو پھول پیش کر کے ان کی عزتوں کے جنازے نکالتے ہیں۔ اے نوجوان! آخر تیری بھی بہن ہوگی اور اگر تیری بہن کو کوئی راہ چلتے ہوئے پیغام محبت، پھول، ویلنٹائن کارڈ پیش کر دے تو تیرا طرزعمل کیا ہوگا؟ کبھی سوچا تو نے؟۔ اگر تجھے اس بات سے غصہ آتا ہے تو تو دوسروں کی بہنوں کی عزتوں کے جنازے کیوں نکالتا ہے؟ تو جانتا ہے کہ بہن کا رشتہ کتنا پاکیزہ اور مبارک اور نازک ہوتا ہے۔ ایک غیرت منہ نوجوان کبھی برداشت نہیں کرتا کہ اس کی پھول جیسی بہن کو کوئی کانٹا بھی چبھے۔
آہ! ایک طرف سارا عالم کفر جمع ہو کر اسلحہ جمع کر کے مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے ہے اور دوسری طرف ہمارے غافل نوجوان کے ہاتھ میں پتنگ ڈور، ویلنٹائن کارڈ اور پھول ہے اپنی بہنوں کی عزتوں کے جنازے نکالنے میں مصروف ہے۔ یاد رکھو جب کسی قوم سے جہاد کا جذبہ مقصود ہو جاتا ہے، اس کی شامیں رنگین ہونے لگتی ہیں۔ ان کے دن مے خانوں میں گزرتے ہیں۔ تو پھر ایسی قوم تباہی کے دھانے پر پہنچ جاتی ہے۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے چاہیں تو اس تباہی کے طوفان میں چھلانگ لگا دیں چاہیں تو بچنے کی تدبیر کریں۔ ؎
یہ کچھ دن کی بات ہے اے مرد ہوش مند
غیرت نہ تجھ میں ہوگی نہ زن اوٹ چاہے گی
میں نے دیکھا ہے بے پردگی میں الجھ کر ہم نے
اکثر اپنے اسلام کی عزت کے کفن بیچ دیے
نئی تہذیب کی بے رخ بہاروں کے عوض
اپنی تہذیب کے شاداب چمن بیچ دیے
اقبال نے فرمایا تھا:
ہر کوئی مست ذوق تن آسانی
تم مسلمان ہو یہی انداز مسلمانی ہے
مغرب پاکستان اور عالم اسلام کو دینی اور اخلاقی لحاظ سے تباہ کرنے کی سازش کر رہا ہے اور ہم فضول قسم کے رسم و رواج، مغرب کے تہوار منانے میں مشغول ہیں۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کیوں مغرب کی تقلید کریں؟ کیا وہ ہماری تقلید کرتے ہیں۔ ہم ان کے تہوار مناتے ہیں۔ کیا وہ ہمارے اہم مذہبی دن مناتے ہیں؟ ہم بسنت، ویلنٹائن ڈے اور اپریل فول وغیرہ مناتے ہیں۔ کیا وہ ایام عاشورہ، عید میلاد النبیﷺ، عید الفطر، عید الضحیٰ وغیرہ مناتے ہیں؟ ہم اپنی دینی، اخلاقی، معاشرتی اقدار اور شرم و حیا کو پیش پشت ڈال کر کیوں غیرشرعی، غیر اخلاقی، غیر اسلامی غیر پاکستانی بےودہ تہوار منا رہے ہیں۔ سچ ہے۔
وہ کریں ہم پر یلغار
ہم منائیں ان کے تہوار
کچھ مشہور دانشوروں کے تاثرات
اسلامک ڈیپارٹمنٹ کے چیئر میں ڈاکٹر شبیر احمد منصوری 14فروری 2008ء کے روزنامہ پاکستان میں اپنے تاثرات یوں بیان کرتے ہیں کہ اسلام میں حیاء ایمان وقار بنیادی اقدار ہیں۔ میڈیا پر نئی نسل کو صحیح راہ پر چلانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ معاشرے میں نوجوان کو مشیت اقدار میں رہنمائی فراہم کریں۔ خوشی ہو یا غم جو چیز ہمیں دین سے دور لے جائے وہ کسی کام کا نہیں۔ (ڈاکٹر شبیر احمد۔ 14 فروری 2008۔ روزنامہ پاکستان)
ناظم تعلیمات جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور علامہ مولانا عبد الستار سعیدی نے ویلنٹائن کے بارے میں اپنے تاثرات میں فرمایا کہ: اسلام حیاء اور پردہ کا حکم دیتا ہے۔ اسلام نے عورت کو پردے میں رہنے کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا ویلنٹائن ڈے ماننے کا اسلام میں کوئی جواز نہیں۔ یہ شرعاً بالکل ممنوع ہے۔ اسلام نے ہمیں بے حیائی سے روکا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کے موقع پر عورتوں مردوں کا اختلاط ہوتا ہے۔ بے پردگی بے حیائی اور بے شرمی عام ہو تی ہے۔ لہٰذا اسلام نے عورت کو پردے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا کہ جب تک عورت کے بال ننگے ہوتے ہیں فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔ اسلام میں اس کا قطعاً کوئی جواز نہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس قبیح رسم سے روکنا چاہیے۔ جو مغرب کی پیدا کردہ ہے۔ مغرب کی تقلید سے روکنا چاہئے۔ تاکہ اسلام کی اقدار پامال نہ ہوں اور ہماری عزت و غیرت محفوظ رہے۔ استاذ العلماء مولانا مفتی اللہ بخش سیفیؔ سیالوی نے ویلنٹائن ڈے کے بارے میں اپنا فتویٰ صادر فرمایا: ” ویلنٹائن ڈے کے موقع پر مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے۔ بے پردگی عام ہوتی ہے۔ عورت کا غیر محرم افراد سے ملنا قطعاً ناجائز ہے۔ اس میں یہ اختلاط پایا جاتا ہے۔ لہٰذا شریعت نے ہمیں اس طرح کے کاموں سے منع کیا ہے۔ یہ بالکل ناجائز ہے۔ علامہ امجد علی اعظمی فرماتے ہیں کہ مسلمان کفار و مشرکین کی رسومات تہوار میں شرکت نہ کریں۔ اپنے (مسلمان) مذہب کا تحفظ کریں۔ کفری رسومات وغیرہ سے اجتناب کریں۔ (بہارِ شریعت جلد 1 حصہ 9، 796 مکتبہ اعلیٰ حضرت)
آج کی فیشن ایبل نوجوان نسل یہ کہتی ہے کہ پردہ ملا کی ایجاد ہے۔ علمائے کرام کو غیر مہذب صلواتیں سناتے ہیں۔ حالانکہ یہ تو قرآن و حدیث کا حکم ہے کہ عورت پردہ کرے، مرد اپنی نگاہیں نیچی رکھے۔ مغربی ممالک میں مسلمان عورتیں پردہ کرنے اور حجاب کی کوشش کرتی ہیں تو انھیں روکا جاتا ہے اور یہاں نوجوان نسل تقلید مغرب کر رہی ہے۔ شیطان نے نئی چال چلی ہے لوگوں کو راہِ حق سے ہٹانے کے لیے کہ جو قرآن و حدیث کا حکم ماننے سے نفس گریز کرے تو وہ مولوی کا تراشیدہ بتا دیتا ہے۔
اسلام نے عورت کو پوشیدہ رہنے کا حکم دیا ہے مگر مغربی تہذیب کے دیوانے حیا و شرم سے عاری رقص و سرود کی محفلیں منعقد کرتے ہیں، بے حیائی کو فروغ دیتے ہیں، شرعی ستر سے کم کپڑا اپنے جسم پر ڈالتے ہیں۔ جدید تہذیب نے انہیں ایسا دیوانہ بنایا ہے کہ نوجوان لڑکیاں ہاف پیٹ یا نیکر یا ذرا جانگیہ پہن کر باہر نکل آتی ہیں۔ جسم برہنہ ہوتا ہے۔ اسے ثقافت، آرٹ، روشن خیالی کا نام دیا جاتا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا:
ب
ے پردہ کل جو نظر آئیں چند
اکبر زمین میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جوان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
اسلام نے عورت کی عفت و عصمت و عزت کی حفاظت کا پورا پورا اہتمام کیا۔ بدنظری سے بچنے کے لیے تفصیلی احکام بتائے۔ مگر مغرب پرستوں نے، نام نہاد بہی خواہاں نسواینت نے خواتین کو برسر بازار رسوا کر کے چھوڑا۔ کسی نے تہذیب کے بارے میں کہا تھا۔ ؎
جس کی فطرت تھی حیا و آبرو
عصمت و عفت کی پتلی نیک خو
ہو گئی تہذیب یورپ سے خراب
کر دیا بد نام و رسوا کو بہ کو
اس آیت اور حدیث کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں کہ شریعت اسلامی پر پابندی کرتی ہیں یا ہم اس کی دھجیاں اڑاتی ہیں۔ میری بہنو! ابو داود کی ذرا یہ حدیث ملاحظہ کرو۔ سیدنا ام خلاد رضی اللہ تعالیٰ عنہا پردہ کیے منہ پرنقاب ڈالے اپنے شہید فرزند کی معلومات حاصل کرنے کے لیے بارگاہِ رسالت مآب میں حاضر ہوئیں۔ کسی نے کہا آپ اس حالت میں بیٹے کی معلومات حاصل کرنے آئی ہیں کہ آپ کے چہرہ پر نقاب ہے۔ کہنے لگیں: ”اگر میرا بیٹا جاتا رہا تو کیا ہوا میری حیا تو نہیں گئی۔ (سنن ابی داؤد جلد 3 صفحہ 9 حدیث 2488)
با حیا عورتیں کبھی بے پردہ نہیں ہوتیں۔ ہر حال میں پردے کو لازم پکڑتی ہیں۔ کیا اسیران کر بلا رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر ظلم و ستم و آفتوں کے پہاڑ نہیں ٹوٹے تھے؟ کیا انھوں کو پر دے کو ترک کر دیا تھا؟ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صدقے ہمیں دین کی سمجھ عطا کرے۔ درست و غلط کی تمیز عطا کرے اور ہمیں مغربی تقریبات کو چھوڑ نے اور اسلامی تقریبات کو فروغ دینے کی توفیق دے آمین ثم آمین۔
تبصرہ لکھیے