ماسی جیراں ہمارے معاشرے کا ایک سچا کردار ہے۔ ماسی جیراں کسی جگہ ملازمت کرتی ہے۔اس کی ماہانہ تنخواہ 3 ہزار روپے ہے۔ اس کے بچوں کی تعدادآٹھ ہے۔ ان تین ہزار روپے میں اس کے گھر کا چولہا بھی نہیں جل سکتا۔ چہ جائیکہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکے۔ لیکن ماسی جیراں کے بچے اچھے اداروں میں تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔ ماسی جیراں ان کو پڑھانے کی خاطر پارٹ ٹائم جاب کرتی ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود ماسی جیراں کا گزارا بہت مشکل سے ہوتا ہے۔وہ زیادہ تر دوکانداروں سے ادھار سامان خریدتی ہے۔ اور انھیں پیسے کئی کئی مہینوں کے بعد واپس کرتی ہے۔
ماسی جیراں کسی زمانے میں خوشحال تھی۔ اس کے گھر روپے پیسے کی ریل پیل تھی۔ اس کا خاوند معقول تنخواہ پر ملازمت کرتا تھا لیکن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ اس کا خاوند بیمار پڑ گیا۔اور اسے ملازمت چھوڑ کر وطن واپس آنا پڑ گیا۔ماسی جیراں نے کوئی پیسہ ٹکا تو جمع کر نہ رکھا تھا۔ شروع شروع میں گھر کا خرچ چلانے کے لیے گھر کا سامان بیچنا شروع پڑا۔ پھر جب گھر کا سارا سامان بک گیا تو لوگوں کے گھروں میں نوکری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے لگی۔ اس کے گاؤں کے ایک شخص کو اس پر ترس آیا تو اس نے اسے ایک سرکاری ادارے میں ملازم کروا دیا۔ اس نے غربت کے باوجود اپنی بچیوں کی شادیاں انتہائی شان و شوکت سے کین۔اس نے لاکھوں روپے کا جہیز ادھار لے لیا، لیکن اپنی ناک کو نیچا نہ ہونے دیا۔یہ قرضہ اتارنے میں ماسی جیراں کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑے۔ یہ ایک علیحدہ داستان ہے۔لیکن ماسی جیراں نے ان واقعات سے کوئی سبق نہ سیکھا۔اور ایک بار پھر مکان بنانے کے لیے سود پر قرض لے لیا۔ اس نے یہ قرض ان سود خوروں سے لیا جن کی شرح سود اس قدر ہوتی ہےکہ آپ کی آئندہ نسلیں بھی اس سود پر لیے گئے قرضے کی اصل رقم بھی واپس نہیں کر سکتیں۔ماسی جیراں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ سود پر لیا گیا تمام قرض اتار گئی لیکن اس قرض پر چڑھنے والے سود کی قیمت اصل قرض سے بھی بڑھ گئی۔ ماسی جیراں کو یہ قرض اتارنے کے لیے مزید قرض لینا پڑا اور یوں وہ سود کی دلدل میں دھنستی چلی گئی۔
یہ انہی دنوں کی بات ہے کہ ماسی جیراں کے دو تین قریبی رشتہ دار یکے بعد دیگرے فوت ہو گئے۔ماسی جیراں قرضے کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی، لیکن اس کی ناک اب بھی اتنی ہی اونچی تھی۔ مجھے پتہ تھا کہ ماسی جیراں کے رشتہ داروں کو اس کے حالا ت کا بخوبی علم ہے۔ اگر ماسی جیراں اس فوتگی میں گاؤں کے رواج کے مطابق نہ بھی چل سکی تو اس کا کوئی بھی رشتہ دار اس چیز کو محسوس نہ کرے گا۔لیکن یہ بات ماسی جیراں کو منظور نہ تھی۔ اس نے ان فوتگیوں میں اس گاؤں کے رسم و رواج کے مطابق کھانا پکایا۔ کھانا پکانے میں کم از کم خرچہ پچاس ہزار روپے تھا۔لیکن ماسی جیراں کو قرضہ حاصل کرنے کا تجربہ تھا۔اس نے مزید قرضہ چڑھا لیا۔ لیکن اپنی ناک نیچی نہ ہونے دی۔
یہی وہ اونچی ناک ہےجس نے ہمارے معاشرے کو سرطان کی طرح لپیٹ رکھا ہے۔ آپ کے گھر میں کھانے کو گھاس تک نہیں لیکن آپ نے اپنی ناک اونچی رکھنی ہے۔ زمانے کے رسم ورواج کتنے ہی برے کیوں نہ ہوں، آپ نے انہیں قائم رکھنا ہے۔ ان سے بغاوت نہیں کرنی۔یہاں پر صرف ایک ماسی جیراں نہیں ہے۔ بلکہ ایسی ماسیاں آپ و ہر گاؤں، ہر شہر میں سینکڑوں کی تعداد میں مل جائیں گی۔ یہ وہ ماسیاں ہیں کہ جو ہمارے بدبودار معاشرے سے بغاوت کی ہمت نہیں رکھتیں۔ یہاں کی گندی رسموں کو چھوڑنے پر تیا ر نہیں۔ پھر آخر تبدیلی کیسے آئے گی۔ ہمارا ملک ترقی کیسے کرے گا۔ کسی نہ کسی کو تو کڑوا گھونٹ بھرنا پڑے گا۔ کسی نہ کسی کو تو پہلا پتھر مارنا ہی پڑے گا۔ کسی نہ کسی کو تو معاشرے سے بغاوت کرنا پڑے گی۔
اس طرح کی باتیں میں اکثر سوچتا رہتا ہوں۔ آخر ہم ان گندے رسم و رواج سے بغاوت کرنے کی ہمت کیوں نہیں کرتے؟۔ اگر ہمار ا کوئی قریبی عزیز فوت ہو جاتا ہے تو یہ کیوں ضروری ہوتا ہے کہ اس کے فوت ہونے پر سارے گاؤں کے لیے کھانے کا بندوبست کیا جائے۔آپ اگر فوتیدگی والے گھر جاتے ہیں، آپ کا موڈ ہے یا نہیں، آپ کو بھوک لگی ہے یا نہیں۔ آپ اپنے گھر سے کھانا کھا کر آئے ہوئے ہیں یا نہیں۔ فاتحہ پڑھنے کے بعد سب سے پہلے آپ کو کھانا کھانے کی دعوت دی جائے گی۔ آپ لاکھ انکار کریں، لاکھ بہانے بنائیں، لیکن آ پ کو کھانا کھائے بغیر وہاں سے واپس آنے نہ دیا جائے گا۔ میں کافی عرصے سے یہ سوچتا رہتا تھا اور دبے دبے لفظوں میں اپنے عزیزوں، رشتہ داروں کو یہ بات سمجھاتا بھی رہتا تھا کہ بھائی فوتیدگی کی صورت میں پورے محلے بلکہ گاؤں کو کھانا دینے کی ضرورت نہیں ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ آپ یہی پیسے اپنے کسی غریب عزیز، رشتہ دار کو دے دیں تاکہ یہ پیسہ اس غریب کے کسی کام تو آ سکے۔لیکن میری یہ بات یا تو کسی شخص کو سمجھ نہ آسکی اور اگر سمجھ آئی بھی تو وہ معاشرے سے بغاوت کی ہمت نہ کر سکے۔
کچھ عرصہ پہلے میری ملاقات دھیدوال کے محمد شفیع بٹ صاحب سے ہوئی۔ باتوں ہی باتوں میں تذکرہ ان کے مرحوم والد صاحب کی طرف نکل گیا۔بٹ صاحب اپنے والد صاحب کی وفات کے بارے بتانے لگے کہ ان کی وفات پر انھوں نے چار دن تک ان کا سوگ منایا۔پھر سب بھائیوں نے ملکر فیصلہ کیا۔۔۔۔۔۔ایک منفرد فیصلہ۔۔۔۔۔ ہمارے معاشرے کے لحاظ سے ایک عجیب فیصلہ۔۔ ان سب بھائیوں نے اپنی اپنی جیب سے پندرہ پندرہ ہزار روپیہ جمع کیا، ا ن کی بہنوں نے اس میں دس دس ہزار روپیہ ملایا، اور انہوں نے ان پیسوں سے اپنے گاؤں کی ایک کچی گلی پکی کروا دی، اور اپنے گاؤں کے اسکول کا ایک کمرہ بنوا دیا۔ اس گلی میں بارشوں کے موسم میں اس قدر پانی اور کیچڑ جمع ہو جاتا تھا کہ لوگوں کا وہاں سے گزرنا محال ہو جاتا۔ بچے اور بوڑھے وہاں سے گزرتے ہوئے کئی بار پھسل کر کیچڑ میں جا گرتے، ان کے کپڑے گندگی سے بھر جاتے اور وہ کیچڑ میں لت پت ہو جاتے۔ اسی طرح اس اسکول میں کمرے کم ہونے کے باعث بچے گرمیوں میں دھوپ میں تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ ان کے ان کاموں پر گاؤں کے لو گ اس پورے خاندان کو دعائیں دیتے ہیں، اور ان کے والد کی بخشش کی دعائیں مانگتے ہیں۔
مجھے بٹ صاحب کی یہ باتیں بڑی اچھی اور عجیب لگیں۔ میری نظروں میں بٹ صاحب کا قد کئی گنا بڑھ گیا۔مجھے بٹ صاحب کے سارے گھر والے بڑے عظیم لگے۔میں نے بٹ صاحب سے پوچھا کہ بٹ صاحب! اتنا عظیم خیال آپ کے ذہن میں آیا کیسے؟ بٹ صاحب کہنے لگے کہ اس بات کا سارا کریڈٹ ان کے ایک انکل کو جاتا ہے۔ ان کے اس انکل کا ایک بیٹا فوت ہو گیا، اپنے اس بیٹے سے انھیں بہت زیادہ پیا رتھا۔ وہ اپنے بیٹے کی بخشش کے لیے کوئی بڑا کام کرنا چاہتے تھے، انہوں نے وہ بڑا کام کیا۔ ان کے گاؤں میں پینے کے پانی کی بہت زیادہ قلت تھی اس لیے انہوں نے اپنے گاؤں میں اپنے بیٹے کے نام پر ایک پانی کا نلکا لگوا دیا۔ اب و ہ نلکا پورے گاؤں میں بٹ صاحب کے نلکے کے نام سے مشہور ہے۔محمد شفیع بٹ کا کہنا تھا کہ اپنے چچا کو دیکھ کر انہیں بھی یہ تحریک ہوئی کہ وہ اپنے والد صاحب کی یاد میں کوئی ایسا کام کریں کہ لوگ ساری عمر ان کے والد صاحب کے لیے دعائیں مانگتے رہیں اور انہیں بہت خوشی ہوتی ہے جب ان کے گاؤں کے لوگ ان کے والد صاحب کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔
تو قارئین! شفیع بٹ صاحب کے چچا اور ان کے خاندان نے ہمارے معاشرے کی گندی،فرسودہ اور واہیات رسموں سے بغاوت کی ابتداء کر دی ہے۔ انہوں نے اپنے حصے کا کام کر لیا ہے۔ انہوں نے پہلا پتھر مار دیا ہے۔ اب کون ہے جو اس کام کو آگے بڑھائے گا؟۔۔۔ جو ان رسموں کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ جو یہ فیصلہ کرے گا۔ کہ اب وہ کبھی بھی پورے محلے یا گاؤں کو کھانا کھلانے پر ہزاروں روپیہ خرچ نہیں کرے گا۔۔۔۔۔۔۔بلکہ اس پیسے سے اپنی کسی غریب بیٹی کے جہیز کا سامان بنوا دے گا۔۔۔۔۔ کوئی گلی پکی کروا دے گا۔ کسی اسکول کا کمرہ بنوا دے گا۔
نوٹ:۔ماسی جیراں اور شفیع بٹ کا کردار ضلع چکوال کا ایک سچا کردار ہے۔ یہ دونوں کردار اب اللہ کوپیارے ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں کرداروں کو غریق رحمت کرے۔
تبصرہ لکھیے