وہ جو کہتے ہیں ناں کہ عورت کو سمجھا نہیں جا سکتا ، یا بعضوں کو تو یہ ستم ڈھاتے پایا کہ اسے کچھ سمجھایا بھی نہیں جا سکتا۔۔ یقین مانیں غلط کہتے ہیں۔۔ اور یہی غلط سوچ زندگیوں میں کڑواہٹ کا باعث بنتی ہے۔ شریعت مطہرہ میں عورت کی مثال ٹیڑھی پسلی سے دی گئی ہے ، کہ اسے سیدھا کرنے کی کوشش کی تو ٹوٹ جائے گی۔۔ لیکن یہی مثال دیتے ہوئے ہم یہ بھلا دیتے ہیں کہ ہر کسی کے جسم میں عام طور پر پسلیوں کے بارہ جوڑے ہوتے ہیں یعنی کُل ملا کر چوبیس پسلیاں پہلی سانس سے آخری سانس تک ہمارا بھرپور ساتھ دیتی ہیں۔ ہمارے دل ، جگر اور دیگر ضروری اعضاء کے گرد حصار بنا کر ان کی حفاظت کرتی ہیں۔۔ غرض کہ اگر انہیں بلاوجہ چھیڑا نہ جائے ، چوٹ نہ لگائی جائے تو وہ تمام پسلیاں اپنا کردار بخوبی نبھاتی اور تکلیف کا ذریعہ بننے کے بجائے بڑی تکالیف سے نجات کا باعث بنتی ہیں۔ ان چوبیس پسلیوں کو اگر ہم عورت ذات کے رشتے سے تشبیہ دیں جن کا کوئی نہ کوئی کردار کسی نہ کسی پیرائے میں ایک مرد کی زندگی میں بہرحال رہتا ہے۔
1) ماں، 2) بہن، 3) خاتونِ اول، 4) زوجہِ دوم، 5) تیسری بیگم، 6) چوتھی بیوی، 7) بیٹی، 😎 ساس، 9) خالہ، 10) پھپھی، 11) تائی/چاچی، 12) ممانی، 13) بھانجی، 14) بھتیجی، 15) نانی، 16) دادی، 17) نواسی، 18) پوتی، 19) بھابھی ، 20) سالی، 21) کزن، 22) نامحرم دوست/دشمن، 23) استاذہ، 24) محبوبہ. ان تمام میں ہمارا کسی سے تعلق مضبوط اور کسی سے سرسری سا ہی کیوں نہ ہو البتہ ہماری کُل مرکز کا توجہ اور سارا زور چند پسلیوں کو ہی سیدھا کرنے پر رہتا ہے جس سے ان کے عطا کیے گئے کردار کی کارکردگی شدید متاثر ہوتی ہے۔۔ مثلاً: بیوی ، بیٹی ، بہن ، پرائی عورت ، اور محبوبہ وغیرہ۔۔
یہاں ایک لطیف نکتے پر غور کیا جائے تو اس فہرست کے جو آخری کے چار چھ رشتے ہیں وہ مرد کے لیے ویسے ہی نا محرم ہیں جیسے پشت کی چند پسلیوں تک ہماری مکمل رسائی اور چھونا وغیرہ مشکل ٹھہرتا ہے۔۔ البتہ جن عورتوں کے سب سے زیادہ حقوق ہیں ، جو سامنے سے دل پر لگنے والی ہر چوٹ اپنے اوپر لے کر زخم برداشت کرتی ہیں۔۔ مرد کا سینہ چوڑا کرکے فخر سے سر اٹھا کر چلنے کا ذریعہ بنتی ہیں ، مرد ان ہی کے معاملے میں زیادہ حق تلفی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔۔ بھلا اس کو سیدھا کرنا ہی کیوں ہے؟ اسے اللہ نے ٹیڑھا بنایا اور یہی اس کی قدرتی ساخت ہے۔
ہر پسلی سے رشتہ کیا ؟؟ لا الہ الا اللہ (یہی معیار ہے میرے بھائی ، اسی میزان میں ہر رشتہ تولا جائے گا) اور ہر رشتے کی بابت تم سے سوال ہوگا۔ ہمیں اگر معلوم پڑ جائے کہ ان کی حفاظت کیسے کرنی ہے ، کیسی خوراک انہیں کیلشم فراہم کرتی ہے، ہڈی کو مضبوط کرتی ہے اور کیسے یہ ہمارے اندر رہتے ہوئے ہمارا ڈھانچہ مکمل کرتی ہیں نیز اپنا آپ ظاہر کیے بنا کیسے خود کو بھی محفوظ رکھتی ہیں۔۔ تو معاملہ بڑا ہی واضح ہو جاتا ہے ، آیا سب ہی کو اپنا کردار نبھانا ہے اور بطور جسم (قوام) ہمیں کس قدر ان ٹیڑھی پسلیوں کی حاجت ہے ، نیز کوئی ایک بھی تکلیف میں ہو تو کیسی فطری بے سکونی میں یہ جسم مبتلا رہتا ہے۔
اس بات سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا کہ یہ ساتھ ، ہڈی اور گوشت کا لازم و ملزوم ہے تب ہی ایک صحت مند بدن مکمل ہوتا ہے۔۔ پس ثابت ہوا کہ دونوں ہی کو ایک دوسرے کے ساتھ اور سہارے کی ضرورت ہے نیز ہر ' ایک ' دوسرے کے بغیر ادھورا اور نا مکمل ہے۔ انہیں جوڑے رکھنے میں ریڑھ کی ہڈی سا کردار "ایمان" فراہم کرتا ہے۔ اس جسم میں موجود نسیں اور رگیں ، توجہ اور جذبات کا کام کرتی ہیں ، ان میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو جسم میں کینسر پھیل سکتا ہے، دل کے شریان تنگ یا بند پڑ سکتے ہیں ، حتی کہ یہ ہم دل پھٹنے سے مر بھی سکتے ہیں۔ ان پسلیوں کو اعلی کارکردگی کے ساتھ با عمل رکھنا ہے تو احساسات پر توجہ دیں۔۔ ذمہ دار بنیں اور اہل بنیں۔۔ کون کہتا ہے عورت کو سمجھنا مشکل ہے؟ اسے سمجھانا تو اور بھی آسان ٹھہرا۔ اگر کسی جسم کی کوئی پسلی ہماری ضربوں سے ابھی تک مکمل چکنا چور نہیں ہوئی ، اسے سرطان کا روگ نہیں لگا ، یہ خشک اور کھوکھلی نہیں ہوئی ، تو بہت دیر نہیں ہوئی۔۔ آپ نے بس اسے اس کا کردار سمجھا دینا ہے اور اپنا نبھاتے چلے جانا ہے۔ یہ پیار کی ، محبت کی ، کئیر کی ، عزت کی ، احترام کی زبان بخوبی سمجھتی ہے۔۔ اسے مطلوبہ خوراک مہیا کرو پھر دیکھو اس کے کمالات۔
یہ جسم کا حصہ ہے ، ایک اور جگہ اسے تمہارا اور تمہیں اس کا لباس کہا گیا ہے۔۔ لباس جسم پر پہنا جاتا ہے جو عیب چھپاتا ہے اور شرمگاہوں کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔۔ اسے پیروں کی جوتی سمجھ کر پہننا چھوڑ دیجیے اور جو مقام ہے وہاں رکھ کر دیکھیں کہ اس نسبت سے ملنے والا ہر رشتہ کتنا سہانا ہے۔ زندگی حسین محسوس ہونے لگے گی اگر تم نے اپنے حلال رشتوں کا حق حسن سلوک سے ادا کرنا شروع کردیا۔۔ اس اٹھا کر دل کے پاس رکھا جائے۔۔ پیروں کے نیچے نہیں۔۔ پسلی نے تو جسم کے مطابق ہی چلنا ہے۔۔ اطاعت اس کی گتھی میں پرو دی گئی ہے ، اگر تمہیں لیڈر بننا آتا ہے تو اس سے بہتر فالوور ،دنیاوی مصائب میں چٹان سا سہارا اور آخرت کا ہمسفر تمہیں اس دنیا میں اس رشتے کے علاوہ تو ملنے سے رہا۔ البتہ اسے اس کے مرکز سے توڑ کر ، باہر نکال کر اس کی نمائش کروگے تو تکلیف تمہیں ہی ہوگی۔ اس کے اوزار بناکر ان سے ڈھول پیٹو گے تو جسمانی ہی نہیں معاشرتی فساد برپا ہوگا ، تمہاری ساخت بھی بری طرح متاثر ہوگی اور جلد ہی ہوا اکھڑ جائے گی۔
ایک اور جگہ اسے تمہاری کھیتی کہا گیا ہے۔۔ واللہ ہر ہر اصطلاح پر غور کیا جائے تو ناجانے اس فلسفے پر کتنی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔۔ کیا آپ اپنے ہاتھوں اپنی کھیتیاں نفرت کے عوض برباد کرنے کے درپے ہیں؟ اسے بنجر بناکر اس سے کس قسم کے پھل ، پھول اور فصل کی امید رکھتے ہیں ؟؟ بھلا کسے اپنی پھل دینے والی زرخیز زمین سے محبت نہیں ہوتی ؟ اس میں ظلم کا زہر کوئی نہیں انڈیلتا ، اسے تو لگن سے تیار کیا جاتا ہے ، کاشت کی جاتی ہے ، موسم اور آب و ہوا ، دھوپ چھاؤں وغیرہ کا خیال رکھا جاتا ہے ، دن رات اس پر محنت اور اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔۔
غرض کہ اس معمے کو پسلی سمجھا جائے ، لباس یا پھر کھیتی۔۔ یہ تمہاری ہے اور تم اس کے ہو۔۔ نہ یہ تمہارے بغیر کوئی وجود رکھتی ہے نہ تم اس کے بغیر ، تم نے اس پر ظلم کیا تو یہ بنجر ہو جائے گی جس کی بے برکتی تمہاری زندگی میں واضح نظر آئے گی ، نیز اسے کھلا بے یار و مددگار چھوڑ دیا تو آوارہ کتے ، جنگلی جانور اور بدمست شیاطین جن و انس اس پر ننگا ناچ کرکے اسے اس کی اصل سے ہٹا کر نیست و نابود کر دیں گے۔ تمہیں بس ایک مالی ، ایک کسان ، ایک درزی ، ایک قوام ، اور ایک ہڈی کے ڈاکٹر کی طرح اس کی کئیر کرنی ہے۔۔ پھر تم دیکھنا کہ جب تمہاری ٹیوننگ اس سے ویسی مل جائے گی جیسا اسلام کا مزاج ہے تو تم اپنے رب کا اس کے نعمت عظیم ہونے پر شکر ادا کرتے نہیں تھکوگے۔اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟ اللہ آپ سے راضی ہوں۔
تبصرہ لکھیے