ہوم << اسلامی تہذیب کو درپیش مشکلات کا حل - سید سردار علی

اسلامی تہذیب کو درپیش مشکلات کا حل - سید سردار علی

ظہورِ اسلام کےایک ہزار سال بعد تک مسلمان قرآن کے اخلاقی احکامات کے تناظر میں ہی اپنی تاریخ کی تعبیر اور تجزیہ کرتے رہے۔ مسلمانانِ عرب نے اسلام کے اخلاقی تصور ِحیات کو افریقہ اور دجلہ و فرات کے علاقوں میں پچھلے چار ہزار سالوں کے دوران پروان چڑھنے والے رائج الوقت معاشرتی نظام اور پیداواری نظام سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ امتزاج کا یہ کام اموی دور میں شروع ہوا، عباسی خلافت میں فکری طور پہ بار آور ہونے لگا ، اور عثمانی خلافت میں اس کوشان و شوکت اور غلبہ حاصل ہوا۔ جدیدیت کی پیراڈائم شفٹ کےبعد حالات کا تقاضا تھا کہ مسلمان یہ ادراک کر لیتے کہ کوئی سابھی اخلاقی نظام ہو، وہ اپنے اظہار کے لئے بہرحال اسی مادی دنیا کے اسباب اوروسائل کا محتاج ہوتا ہے، مسلم شعور آج تک تاریخ کو اس تناظر میں دیکھنے کی صلاحیت ہی پیدا نہیں کر سکا۔ اس لئے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ان کی وہ تمام کوششیں جو اسلامی دنیا اور مسیحی مغرب کے درمیان فوجی طاقت، مادی دولت، اور ثقافتی اثر و رسوخ کےمسلسل بڑھتے ہوئے فرق کی تشخیص کرنے کے لئے تھیں، سودمند ثابت ہوتیں۔ کیونکہ ان کی تشخیص انسانی معاشروں کے عروج و زوال کے معروضی اور آفاقی پیمانوں کی بجائےان کے اپنے عقائد کےزیرِاثر ، جزوی، اورسطحی مفروضوں پر مبنی تھی۔ نتیجتاً، ان کی تمام کوششیں جو صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے تھیں، ناکام ثابت ہوئیں۔اسی لئےاس بات سے اب ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے کہ قوت اور وسائل میں یہ تفاوت ، صرف مسلم معاشروں اور مغرب کے درمیان ہی نہیں ہے، بلکہ اب تو مسلم معاشروں اور کئی دیگرغیرمغربی معاشروں کے درمیان بھی یہ فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ صرف اخلاقی زوال یا مذہب کی راہ سے بھٹکنا ان کی اس کمزوری کا سبب نہیں ہے۔ ہمارے دور میں مختلف تہذیبوں کے درمیان طاقت کےاس عدمِ توازن کے ادارک کے لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے اس بات کو شعوری طور پر سمجھ لیں کہ ایک جدید صنعتی معاشرہ ماضی کےپیداواری نظاموں اور سماجی بندوبست سے بنیادی ہیئت ہی میں مختلف ہے۔ جب تک مسلمان تجزیے اور اصلاحِ احوال کی کوششوں کوان مبادیاتی غلطیوں سے پاک نہیں کریں گے تب تک، اپنی عظمتِ رفتہ کی بازیافت کے لئے کی گئی مسلمانوں کی تمام کوششیں ماضی کی طرح لا حاصل ہی رہیں گی۔

قبولِ اسلام کے بعد مسلمانانِ عرب چند ہی دہائیوں میں اپنے آبائی صحرائی مسکن جزیرہ نمائے عرب کے گرد پھیلے زرخیز ہلال نما خطے ( فرٹائل کریسنٹ) پر قابض ہو گئے ۔ عراق، شام، مغربی ایران اور مصر پر مشتمل یہ علاقہ اپنی مخصوص جغرافیائی ہیئت اور ہزاروں برس قبل اس زمین پر باقاعدہ کاشتکاری کا اولین مرکز ہونے کے ناطے اس نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اور پھرصرف ایک صدی میں وہ دریائے سندھ سے لے کر اسپین کے ساحل تک پہنچ چکے تھے۔ مگراس دنیا میں ایسی سلطنت قائم کرنے والے وہ نہ تو پہلے فاتح تھے اور نہ ہی آخری۔ ان سے پہلے سائرسِ اعظم، سکندرِ اعظم اور رومی فاتحین اور ان کے بعد منگول، مغربی یورپی اور روسی فاتحین فتوحات کرتے آئے۔ گو کہ اسلام نے ہی عربوں کو وہ ولولہ، اتحاد اور اشاعتِ دین کا جذبہ دیا جو اس کارِ عظیم کا محرک بنا، مگر فتوحات کے لئے انہیں وہی جنگی حربےاور نظم و نسق کے طریقے استعمال کرنے پڑے جو اس زمانے کے دیگر تمام معاشروں میں رائج تھے۔ عرب جن ہتھیاروں اور جنگی چالوں کا استعمال کر تے تھے وہی ان کے دشمن بھی کر تے تھے۔ جب وہ وسیع و عریض علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے، تو انہیں ریاست کے نظم و نسق کو چلانے کے لئے انہی انتظامی ڈھانچوں کا سہارا لینا پڑا جو پرانی میسوپوٹیمین اور مصری سلطنتوں نے بنائے تھے۔ ان کے شوقِ شہادت اور جذبۂ ایمانی کی میدانِ جنگ میں اہمیت اپنی جگہ مگر میدانِ جنگ میں فتح و شکست کا فیصلہ صرف جذبے کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ اسلامی فوج ہربار ہر جنگ میں فتح یاب نہیں ہو سکی۔ اموی خلافت کےدوران قسطنطنیہ پر کئے گئے تمام حملے ناکام رہے، فاطمی حکمران یروشلم شہر کو صلیبیوں کے قبضے میں جانے سے نہ بچا سکے ، اور بنو عباس کا دارالخلافہ بغداد ہلاکو خان کےلشکر نے تاخت و تاراج کر دیا ۔ جنگ میں فتح و شکست جن مادی اسباب پر منحصر ہوتی تھی وہ اسباب کافر، عیسائی یامسلمان فوج سبھی کی دسترس میں ہوا کرتے تھے۔

جو بھی مادی ترقی عرب اور مسلمانوں نے اپنی سلطنت کے قیام کے بعد حاصل کی وہ صرف دین پر عمل کرنے کا ہی انعام نہیں تھی بلکہ اس میں ان کی فکری اورہمہ جہت عملی جدوجہد بھی شامل تھی۔ عباسی خلافت کے سنہری دور کے دوران اسلامی تہذیب اپنے دور کی باقی تہذیبوں سے دنیاوی خوشحالی اور آسائش کے حوالے سےکوئی خاص بہتر نہیں تھی۔ ایک ہزار سال پہلے، دنیا میں تین بڑے تہذیبی مراکز تھے۔ اس دور کا سب سے زیادہ خوشحال معاشرہ چین کا تھا۔ سونگ خاندان کی چینی سلطنت میں 10 کروڑ سے زیادہ لوگ باقی تہذیبوں سے کہیں بڑھ کے ایک ترقی یافتہ اور اعلیٰ تمدن کے پر امن ماحول میں زندگی گزار رہے تھے۔ سلطنتِ روم کی شان و شوکت کی وارث بازنطینی سلطنت کا دارالسلطنت قسطنطنیہ، دنیا کا امیر ترین شہر تھا۔ جبکہ اس دور کی تیسری بڑی طاقت عباسی خلافت کے مسلمان شہریوں کی خوشحالی اور معیارِ زندگی ان دو ہم عصر تہذیبوں کےشہریوں سےیک گونہ مماثلت رکھتے تھے۔ عربوں اور مسلمانوں کی فتوحات کےنتیجے میں ہمسایہ ریاستوں کے زرخیز علاقےان کے زیرِ قبضہ آگئے اور فاضل زرعی پیداوار اب دمشق اور بغداد آنے لگی جس کے نتیجے میں انہیں مادی ترقی اور خوشحالی دیکھنے کا موقع ملا۔ مسلمان زراعت کے طریقوں میں کچھ جدت بھی لائےمگردولت کی تخلیق کے کسی نئے نظام کو جنم نہیں دےسکے۔ اس دور کی اسلامی خلافت سمیت تمام معاشروں میں زیادہ تر آبادی بمشکل ہی گزر بسر کر پاتی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ساڑھے پانچ ہزار سال پہلے انسانی تہذیب کے آغاز سے انسان کی فی کس آمدنی آج کے حساب سے دو سے تین ڈالر یومیہ تک ہی محدود چلی آ رہی تھی۔ اس معمولی گزر بسر کے قابل فی کس آمدنی میں بڑھوتری کے آثار تواٹھارویں صدی کے وسط میں صنعتی انقلاب کےنتیجے میں آنا شروع ہوئے۔ ورنہ چین ہو یا ہندوستان، مشرقِ وسطیٰ ہو یا یورپ، انسانی تاریخ کی ان سبھی عظیم تہذیبوں میں کم و بیش ایک ہی طرح کا معیارِ زندگی اور معاشی حالات تھے۔ اسلامی دنیا کے حالات بھی ان سے چنداں مختلف نہیں تھے۔

اسلام کے آغاز سے ایک ہزار سال تک مسلمانوں کو ملنے والی فتوحات، مال و دولت اور طاقت کے مذہبی اسباب کے باوجود یہ سب انہی دنیاوی آلات و ذرائع کے سہارے ممکن ہوا جو اس دور میں مروج تھے اور دنیا کے تمام دوسرے معاشروں کو بھی یکساں میسر تھے۔ اپنی سلطنت کے قیام اور استحکام کے دوران دنیا میں دستیاب ان مادی ذرائع سے فائدہ اٹھانے میں مسلمان اکثر اوقات بہت کامیاب رہے لیکن کبھی ایسا بھی ہوا کہ انہیں زیادہ کامیابی نہ مل پائی۔ اس دنیا میں ا سلامی تہذیب کا عروج اپنے مخصوص اخلاقی جوہر کے باوجود زمان و مکاں میں کارفرما علت و معلول کے ان آفاقی اصولوں کے باعث ممکن ہوا جو باقی تمام معاشروں پربھی اسی طرح لاگو ہوتےتھے، یعنی علت و معلول کے قانون سے کسی کو مفر نہیں ۔ چوں کہ عربوں کے اسلام قبول کر لینے کے بعد سے فتوحات اور خوشحالی کے ایک طویل دور کا آغاز ہوا تھا اس لئے فطری طور پر مسلمانوں کے نزدیک ان کو ملنے والی طاقت، عظمت اور مادی خوشحالی اسلام کی فیوض و برکات کا لازمی نتیجہ تھیں ۔ سماجی عوامل اور نتائج کے لئے مادی اسباب و عِلل کی بجائے اخلاقی توجیہات تلاش کرنے کا یہ اندازِ فکر آج تک مسلمانوں میں مقبول ہے۔اپنے مخصوص تاریخی تجربے کے نتیجے میں مسلمان جس تجزیاتی طریقۂ کار کو آفاقی سمجھے بیٹھے تھے وہ غیر اسلامی تہذیبوں کے عروج و زوال کےدرست تجزیے میں یکسر ناکام ثابت ہوا۔ یہ اندازِ فکر آج تک جدید صنعتی مغربی تہذیب کے عروج اور اس کے نتیجے میں عالمِ اسلام کے زوال کی درست تشخیص کرنے میں مکمل طور پہ ناکام ثابت ہوا ہے۔

اسلامی تہذیب سمیت دورِ جدید سے پہلے کی تمام تہذیبوں کا استحکام ایک مخصوص سماجی نظام اور تخلیقِ دولت کے روایتی نظام پر منحصرہوا کرتا تھا۔ لیکن یورپی نشاۃِ ثانیہ کے ساتھ ہی مغربی یورپ کے ممالک میں یہ دونوں نظام ایک جوہری تبدیلی سے گزرنے لگے۔ یونان اور روم کے قدیم علوم، فلسفہ و منطق کی تکنیکی مہارت اور انسانی عظمت و عزم سے بھرپورفلسفۂ زندگی کو اپنا لینے کے بعد یورپی فلاسفرز نے ان کلاسیکل علوم میں اضافے بھی کئے۔ کائنات کے ہیلیؤ سینٹرک ماڈل کو تسلیم کر لینے سے انسان اور زمین کی مرکزیت کا عقیدہ متزلزل ہو گیا۔ استقرائی استدلال، تجرباتی سوچ اورعلمِ ریاضی کے ملاپ نے جدید سائنس اور نیوٹن کے قوانین کو جنم دیا۔ کرۂ ارض کے گرد بحری مہمات اور امریکی براعظموں کی دریافت نےانسان کے ذہنی اُفق کو مزید وسعت بخشی۔ انسان کی یہ دریافتیں اور پیش قدمیاں کئی عملی اہمیت کی ایجادات، انسانی زندگی میں بہتری کے ساتھ سماجی ، معاشی اور سیاسی اداروں میں جدتیں لےکے آئیں۔ پرنٹنگ پریس کی آمد نےوسیع پیمانے پراشاعتِ علم کو آسان کر دیا۔ کولمبیئن ایکسچینج اور دوسرے زرعی انقلاب نے یورپی باشندوں کی غذا کو پہلے سے بہت بہتر بنا دیا۔ ریفارمیشن کے بعد، چرچ کی سیاسی اجارہ داری کے خاتمے سے جدید نیشن اسٹیٹس کے نظام کو پنپنے کا موقعہ ملا۔ یورپ میں ہونے والی مذہبی جنگوں بالخصوص تیس سالہ جنگ کے نتیجے میں ان کے فنِ حرب و ضرب میں بہت بہتری آئی ۔ اور بالآخر19ویں صدی میں صنعتی انقلاب نے صنعتی پیداواراور سروسز کی فراہمی کے ذریعے مغرب اور باقی دنیا میں ایک ایسی تفریق پیدا کر دی جو دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

مغرب کا عروج، صرف اسلامی دنیا کے لئے ہی نہیں بلکہ تمام غیر مغربی تہذیبوں کے لئےبھی تباہ کن ثابت ہوا۔ برصغیر میں برطانوی نوآبادی کے قیام سے نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو اور سکھ اقوام کو بھی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ 19ویں صدی کے دوران، امریکیوں نے جاپان میں تقریباً 700 سال سے قائم شوگن نظام کو ختم کر دیا اوراس ملک کو باقی دنیا کے ساتھ رابطے پر مجبور کر دیا۔ 1911 میں، پہلی جنگ عظیم سے ذرا پہلے، چین کے انقلابیوں نے 2000 سال پرانے بادشاہت کے نظام کو ختم کر دیا، اور پہلی جنگ عظیم نے روسی اور عثمانی سلطنتوں کا بھی خاتمہ کر دیا۔ پرانی کولمبیئن تہذیبوں اور سب صحارن افریقہ کی آبادیوں کا حال تو اور بھی برا ہوا۔ صرف پانچ سو سال پہلے تک، مغربی یورپ کی کوئی قوم اپنی سرزمین کے علاوہ کسی اور جگہ موجود نہیں تھی۔ لیکن 1913 میں اس دنیا کا84 فی صد رقبہ یورپی طاقتوں کے قبضے میں تھا۔ تہذیبوں کی کشمکش میں بازی کا ایسے پلٹ جانا انسانی تاریخ کا ایک ناقابل یقین واقعہ تھا۔

اسلامی تہذیب کے بر عکس بہت سی غیر مغربی تہذیبوں نے مغرب کی بےپناہ قوت کو دیکھتے ہوئے جلد ہی یہ بھانپ لیا تھا کہ اب ان کا وجود خطرے میں ہے اور دنیاوی طاقت کے ہر ایک پیمانے پر مغرب کے ہم پلہ بن کر ہی اپنی اقدار کا تحفظ کیا جا سکتا ہے ۔ تھا۔ ان اقوام نے اپنے عقیدے، اقدار، اور روایات کے ضروری خواص اور مغربی تسلط کی بنیاد یعنی صنعتی پیداواری نظام کے امتزاج کے لئے بھرپور کوششیں شروع کر دیں۔ یہ کوششیں رنگ لائیں اور وہ مکمل بربادی سے بچ گئے۔ حالانکہ ان تمام غیرمغربی تہذیبوں کے مقابلے میں یہ مسلمان ہی تھے جو نہ صرف مغرب کی فلاسفی، کلچر اور مذہب کو زیادہ اچھی طرح سے سمجھتے تھے بلکہ ایک لمبے عرصے سے اس کے ساتھ برسرِ پیکار بھی تھے۔ اسی لئے توقع کی جا سکتی تھی کہ مغرب کے مقابلے میں طاقت کے اس غیر معمولی فرق کو وہ جلد ہی دور کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ تو آخر کیا وجہ بنی کہ تین سو سال سے جاری کوششوں کے باوجود مسلمان اپنے اور مغرب کے مابین طاقت اور وسائل کے اس غیر معمولی تفاوت کو ختم نہیں کر سکے۔

ایک تو مسلمان ابھی تک یہ نہیں جان سکے کہ ان کے موجودہ بحران کی وجوہات داخلی نہیں۔ پچھلے پانچ سو سال کے دران، دنیا کاکوئی بھی سیاسی نظام مغرب کی یلغار کے سامنے نہیں ٹھہر سکا۔ 18ویں صدی کے اواخر سے کوئی بھی معاشرہ معاشی پیداوار کے میدان میں مغرب کا مقابلہ نہیں کر سکا۔بلا تفریق سبھی غیرمغربی اقوام ،مغرب کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئیں۔ پھر بھی مسلمان یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ وہ اپنی کسی کوتاہی یا کمزوری کی وجہ سے پیچھے نہیں رہ گئے بلکہ مغرب اپنی غیر معمولی ترقی اور پیراڈائم شفٹ کی وجہ سے دوسری تمام تہذیبوں سے آگے نکل گیا۔ وہ اپنے "زوال" کے اسباب کو اپنے ہی ماضی میں ڈھونڈتے ہیں۔ وہ آج بھی اپنی تاریخ کے اس لمحے کی کھوج میں ہیں جب وہ صراطِ مستقیم سے بھٹک گئے تھے۔ وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ ان کا انسانی تاریخ کواپنے دینی مقاصد کے تناظر میں دیکھنے کا مخصوص نقطۂ نظر آفاقی اور معروضی نتائج نہیں دے سکتا۔ اپنی تہذیب کے عروج کے دوران مسلمان اپنے دین کے مِن جانب اللہ ہونے اوراسی کی طرف سے دنیا پر اس کے غلبے کو مقدر کردینے پر نازاں تھے۔ لیکن انہوں نے اس خدائی منصوبے کی تکمیل میں کام آنے والے وسائل اور انسانی کاوش کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی ۔ اس لئے ان کی طرف سے تاریخ کو دیکھنے کا ایک دینی زاویۂ نظر تراش لینا عین فطری تھا۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی طاقت اور آن بان ماضی میں ان کے خالص ایمان اور اچھے اعمال کی وجہ سے تھی، اسی لئے اب ایمان میں کمی اور اخلاقی گراوٹ ہی ان کی شان و شوکت چھن جانے کی وجہ ہو سکتے ہیں۔ اس تجزیاتی فریم ورک کی ناکامی ظاہر ہوئے تین صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود، مسلم ذہن اب تک اس نظریے کی جگہ علت و معلول کے فطری اور آفاقی قوانین کی روشنی میں اپنے مسائل کا تجزیہ کرنے پہ آمادہ نہیں ہو سکا۔

جب مسلمان مغرب سے کچھ سیکھنے پر مجبور ہو بھی جائیں تو وہ مغرب کے فکری پیمانوں کو اپنا نہیں سکتے یا پھر ان کے سطحی استعمال سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ وہ جو بھی تجزیہ کرتے ہیں وہ تاریخی اور منطقی طور پر غلط ہوتا ہے۔ مسلمان غیر ارادی طورپر اپنے اخلاقی نظریۂ تاریخ کی روشنی میں ہی مغرب کے عروج کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ مغرب کی تاریخ میں وہی اخلاقی قوت کارفرما دیکھتے ہیں جو کبھی خود ان کی اپنی کامیابی کا باعث تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ مغرب میں یہ اخلاقی تعلیمات اور اقدار کسی بھی مابعد الطبیعاتی نظام کا نتیجہ نہیں۔ ان کے نزدیک مغرب سیکولر ہوتے ہوئے بھی اس لئے کامیاب ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کے دین اور ایمان سے کشید کی گئی آفاقی اقدار کا حامل ہے۔ مغرب کے عروج کی یہ سطحی سی وضاحت ایک تو ان کے اپنے اندازِ فکر کی تصدیق کردیتی ہے اور اس کے نتیجے میں معاملات کے درست ادراک کے لئے تاریخ کے کسی بھی معروضی اور تنقیدی تجزیے کی راہیں بھی مسدود ہو جاتی ہیں۔

مغربی طاقتوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے والی مسلم اقوام جب اپنے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر نہ کر پائیں تو پھرمغربی کالونائزیشن کے دور کو ہی اپنی موجودہ ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ اسی کالونائزیشن نے ان کی شان وشوکت کو برباد کیا تھا اور یہ انہی جیسی یورپی کالونیوں سے لوٹی ہوئی دولت تھی جس کے سہارے یورپ میں صنعتی انقلاب آیا۔ جب آج کے جدید دور کو ماضی پر قیاس کرنے کی غلطی کی جائے گی تو اسی قسم کے تجزیے ہی سامنے آئیں گے۔ اگر یہ مسلم اقوام طاقت اور عوامی فلاح و بہبود کے پیمانوں پر مغربی اقوام سے بہتر ہوتیں تو کوئی ایک تو جدیدیت کی اس یلغار کو روکنے میں کامیابی حاصل کر لیتی۔ آخر آزادی کے بعد بھی ان میں سے کوئی ایک قوم بھی اپنی عظمتِ رفتہ کا احیاء کیوں نہ کر سکی؟ اور کیوں کوئی ایک بھی مسلم ملک اپنے نوآبادیاتی دور کے آقا کی طاقت کے ہم پلہ نہیں آ سکا؟ دراصل صنعتی دور سے پہلے کی بادشاہتوں کے طرزِ حکمرانی اور جدید دور کی یورپی نیشن اسٹیٹس کے غلبے میں مماثلت قائم کر کے کیا جانے والا تجزیہ نہ تو ماضی میں فاتح اور مفتوح کی دولت اور طاقت کے فرق کی کوئی درست وضاحت کرتا ہے اور نہ ہی نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے صدیوں بعد بھی اس فرق میں مسلسل اضافے کی کوئی قابلِ قبول وضاحت پیش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دو سو سال سے مغرب کے عروج کو سمجھنے کے لئے کی جانے والی کوششیں ابھی تک یہ عقدہ نہیں حل کرسکیں کہ جدیدیت در اصل ماضی اور حال کے درمیان ایک واضح تقسیم، ایک کوانٹم لیپ اور انسان کو دستیاب مادی اسباب میں ایک پیراڈائم شفٹ کا نام ہے۔

جب بھی مسلمان محققین یورپ کے عروج کا معروضی تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی فکری کم مائیگی ان کے آڑے آتی ہے۔ وہ یورپی تاریخ میں عہدِ وسطیٰ کے بعد پیش آنے والے واقعات کے تسلسل میں سے معاشرتی ترقی کے ایسے تصورات اور نظریات اخذ نہیں کر پاتے جو آفاقی ہوں اور وقت کی قید سے آزاد بھی۔ وہ کچھ مخصوص تاریخی واقعات میں ہی الجھے رہتے ہیں یاوہ علامات اور نتائج کو ہی اصل مسئلہ سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں اور یوں ان کا تجزیہ منطقی مغالطے کا شکار ہو جاتا ہے ۔ کچھ مسلمان مؤرخین نے غیرالہامی فلسفۂ تاریخ پر کام کا آغازتو ضرور کیا لیکن مسلم معاشرے بحیثیتِ مجموعی کبھی ایسے علمی پیمانے تشکیل نہیں دے سکے جو اس عالمِ اسباب میں پیش آنے والے تاریخی واقعات کی عقلی توجیہہ کرنے کی ضرورت کو پورا کر پاتے۔ مسلم شعور نے واقعات یا شخصیات کے مشاہدے سے کوئی ایسا عقلی استدلال تشکیل نہیں دیا جو ہر مابعدالطعبیاتی نظام کے لئے معیار اور حوالہ بن سکے اور نہ ہی مسلمانوں کا علمی ذخیرہ اتنا وسیع ہے کہ وہ یورپی تاریخ کے ہر سیاسی، سماجی اور معاشی واقعہ کا درست تناظر سمجھتے ہوئے اس کی نوعیت اور اہمیت پر کوئی یونیورسل ججمنٹ دے سکیں ۔ اپنی روایتی علمیت کی تنگ دامنی کا اندازہ ہو جانے کے باوجود مسلمان کوئی ایسا متبادل نظامِ فکر نہ بنا سکے جو جدید مغرب کو اسی کے فکری پیمانوں، اسی کی علمی روایات اور اس کے فلسفیانہ سرچشموں کے تناظر میں سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

مسلم شعور نہ صرف مغرب کی کامیابیوں کی فلسفیانہ بنیادوں کا کھوج لگانےمیں ناکام ثابت ہوا بلکہ وہ یورپ کے سائنسی اور سماجی تجربات کے نتائج اورثمرات سے استفادے کا بھی کوئی داخلی معیار قائم نہ کر سکا۔ کم و بیش تین سو سال سے جدید جنگی ساز و سامان، صنعتی مشینری، قانونی اور آئینی فریم ورک، جدید انتظامی سسٹم اور سماجی اور معاشی اداروں سے استفادہ کرنے کے باوجود مسلمان ایک ایسا نظامِ فکر تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں جس میں وہ اپنے ناقابلِ تغیر اخلاقی تصورات اور ان تصورات کے حصول یا تنفیذ کے لئے درکار ہر دم تغیر پذیر ذرائع میں واضح تفریق کر سکیں۔ مسلمان جدید ٹیکنالوجی، جدید تصورات اور جدید اداروں سے استفادہ کرتے ہوئے ایک نفسیاتی تذبذب کا شکار بھی رہتے ہیں۔ وہ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ قُرونِ اولیٰ میں کسی خاص روحانی مداخلت کے باعث مسلم تہذیب اور ریاست کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ مسلمانوں کے اندر ایسے نظریات نہیں پنپ سکے جو انہیں اطمینان دلاتے کہ سائنس، عقل اور سماجی ارتقاء سے حاصل کئے گئے ذرائع کا ستعمال قطعاً غیر اسلامی نہیں، اور یہ بھی کہ ایمان ان سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ جدید سے جدید تر علم اور ذرائع کے استعمال سے انسانی تاریخ میں اپنا کردار ادا کریں۔ ایسےعلم الکلام کے نہ ہونےکی وجہ سے جدید ٹیکنالوجی، جدید تصورات اور جدید ادارے جب کبھی مسلم معاشروں میں راہ پاتے ہیں تو اسلام کے پیغام کی حقانیت پر شکوک و شبہات جنم لینے لگتے ہیں اور اسی لئےان کو بے دلی سے اپنایا جاتا ہے جس سے ان میں کسی مزید بہتری کا امکان بھی باقی نہیں رہتا۔

مسلم شعور کے مطابق تاریخ کا آغاز ہی اس وقت ہوا جب پیغمبر ِاسلام کی دعوت پر انہوں نے کفر اور شرک چھوڑ کے اسلام قبول کیا، اس تاریخ کا نقطۂ اختتام انسان کی اُخروی نجات ہے، علت و معلول کی پابند یہ مادی دنیا ہماری تاریخ کو ایک ضروری پس منظر فراہم کرتی ہےمگر اس کی اہمیت اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب تک دنیا کے تمام معاشروں میں مادی حالات ایک جیسے تھے تو یہ مسلم سوچ عالمی تاریخ کا ایک سادہ اور عملی نوعیت کا تجزیہ کرنے کے لئے کافی تھی ۔ لیکن انسانی تہذیب میں آنے والی پیراڈائم شفٹ کے بعد تجزیے کے اس طریقۂ کار کی کمزوریاں واضح ہونے لگیں۔ دوسری طرف اپنی ناکامیوں اور ہزیمتوں کی وجوہات سے آنکھیں بند کر کے مسلمان صدیوں بعد بھی پھر اسی اندازِ فکر کو اپنا کر ،احیاء کی اسی حکمت عملی پر اعتماد کرتے ہیں جو پہلے بھی انہیں بار بار ناکامی سے دوچار کرتی رہی ہے۔

یورپ کی طاقت کا درست ادراک نہ ہونے کے جو اثرات ہندوستان میں مسلم احیاء کی کوششوں پر پڑے، ان کا ذکر کرتے ہوئے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں" حیرت تو یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب کے زمانہ میں انگریز بنگال پر چھا گئے تھے اور الٰہ آباد تک ان کا اقتدار پہنچ چکا تھا، مگر انہوں (سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ) نے اس نئی ابھرنے والی طاقت کا کوئی نوٹس نہ لیا ۔۔۔" ۔مولانا مودودی ان حضرات کی شہادت کے ایک صدی بعد تجزیہ کرتے ہوئے درست نشاندہی کرتے ہیں کہ سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید نے "سارے انتظامات کئے مگر اتنا نہ کیا کہ اہلِ نظر علماء کا ایک وفد یورپ بھیجتے اور یہ تحقیق کراتے کہ یہ قوم جو طوفان کی طرح چھاتی چلی جا رہی ہے اور نئے آلات، نئے وسائل ، نئے طریقوں اور نئے علوم و فنون سے کام لے رہی ہے ، اس کی اتنی قوت اور اتنی ترقی کا کیا راز ہے" ۔

اسلام انسانیت کو اخلاقی زندگی کے مثالی اصول پیش کرتا ہے۔ ظہورِ اسلام کے وقت معاشرے کے سیاسی، معاشی اور سماجی بندوبست کو اس وقت کے جدید ترین پیمانے اور ادارے استعمال کرتے ہوئے اسلامی اخلاقی پیراڈائم میں نافذ کیا گیا۔ ان اداروں کی ترقی میں بازنطینیوں، ساسانیوں اور مصریوں کے علاوہ بھی کئی اقوام کا کردار رہا تھا۔ اسلامی تہذیب میں ایمان کی روح تو تھی لیکن اس کی تعمیرو ترقی میں اس زمانے کے مادی اسباب اور انسانی محنت ہی بروئے کار آئے۔ 1400 سال بعد آج اس سلطنتِ ایمان کو جو صورت حال درپیش ہے اس سے بچاؤ کیلئے عقل اور انسانی کاوش ہی کی مدد درکار ہوگی۔ مولانا مودودی بھی اسی نتیجے پر پہنچے تھے"پس نبیﷺاور اصحابِ نبیؐ کا صحیح اتباع یہ ہے کہ تمدن اور اور قوانینِ طبعی کے اکتشافات سے اب جو وسائل پیدا ہوئے ہیں ان کو ہم اسی طرح تہذیبِ اسلامی کا خادم بنانے کی کوشش کریں جس طرح صدرِ اول میں کی گئی تھی" ۔

(فہیم بلال نے اس کا ترجمہ کیا ہے)