اجتماعی ماحول انتہائی حساس ہوتا ہے۔ اس میں محض اقدام یا مخالفت پر اَڑ جانے والا شخص کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یہاں مختلف اوقات میں حکمتِ عملی کو بدلنا پڑتا ہے۔ کبھی خود کو صرف اصلاح و تبلیغ تک محدود رکھنا پڑتا ہے، تو کبھی سرپھروں کی گوشمالی بھی ضروری ہو جاتی ہے۔ کبھی حق پر ہو کر بھی دشمن کے ناجائز مطالبات ماننے پڑتے ہیں، تو کبھی پیش قدمی کرکے رعب بٹھانا لازم ہوتا ہے۔ یہی حکمت عملی ایک اجتماعی ماحول کو پُرسکون رکھنے کی ضمانت بنتی ہے۔
آپ کسی بھی کامیاب معاشرے کو دیکھ لیں، آپ کو یہ چار اصول ضرور نظر آئیں گے۔ ہم کہیں اور کیوں جائیں؟ سیرتِ مبارکہ پر ہی نظر ڈال لیتے ہیں۔ مکہ میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے متعلقین اور صحابہ کی اخلاقی و ایمانی تربیت میں مصروف نظر آتے ہیں اور دیگر معاملات، باوجود ضرورت کے، نظر انداز کر دیتے ہیں۔ لیکن یہی ذاتِ عالی مدینہ کے مضافات میں بدر کے میدان میں مشرکینِ مکہ کی گوشمالی کرتے دکھائی دیتی ہے۔
اور آگے بڑھتے ہیں تو ایک اور حیران کن منظر نظر آتا ہے۔ ایک معاہدہ، جو بظاہر اسلام کے خلاف ہے، مگر نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اسے ہر لحاظ سے قبول کر لیتے ہیں۔ صحابہ، باوجود حق پر ہونے کے، اس پر بےچین ہو جاتے ہیں، مگر حکمت کے اسرار کو صرف چند لوگ ہی سمجھ پاتے ہیں۔ کچھ ہی عرصے بعد دنیا دیکھتی ہے کہ وہی معاہدہ اسلام کے حق میں فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جب مدینہ پر رومی حملے کی خبریں آتی ہیں، تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انتظار نہیں کرتے، بلکہ خود پیش قدمی فرما کر دشمن کو متنبہ کر دیتے ہیں۔
یہی وہ حکمت عملی تھی جس نے مدینہ کو پُرسکون اور کامیاب شہر بنا دیا۔ تاریخ چاہے کسی غیر مسلم نے لکھی ہو یا کسی مسلمان نے، جب بھی مدینہ کا تذکرہ ہوا، اس کے امن و استحکام کی وجہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حکمت کو ہی مانا گیا۔
حکمت سے جو کام آسانی سے ہو سکتا ہے، وہ شاید ہی کسی اور طریقے سے ممکن ہو۔ ہم چاہے جوائنٹ فیملی سسٹم کا حصہ ہوں یا مختلف الخیال مسالک اور مذاہب کی سوسائٹی میں رہتے ہوں، اگر ہم ہر قدم حکمت سے اٹھائیں گے، تو ہی کامیاب ہوں گے۔
تبصرہ لکھیے