شاعر انقلاب اور شاعر عوام کے القابات رکھنے والے حبیب جالب کی مقبول نظم کے اس بول سے تحریر کا آغاز کروں گا کہ
ظلمت کو ضیاء، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا
نیکی اور بدی کے افسانے، دنیا کو فنا کیا لکھنا
زندگی جہد مسلسل کا نام ہے۔اک ایسا امتحان جس سے احسن انداز میں نبرد آزما ہونا بہت ضروری ہے۔ انسان اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پاتے ہوئے درجہ کمال تک پہنچتا ہے۔ اسی کا اللّٰہ نے تقاضا بھی کیا ہے۔ نیکی کی طرف راغب ہونا اور بدی کی طرف مائل نہ ہونا بھی انسان کے اسی اوج کمال پر متمکن ہونے کے سبب ہے۔ بہت ساری چیزیں جو انسان کی سرشت میں شامل نہیں ہوتیں تاہم معاشرہ، ماحول اور تہذیب و تمدن و تربیت انہیں فروغ دیتے ہیں۔ آپ کسی دین دار گھرانے میں پیدا ہوں یا مادہ پرست ماحول و معاشرے میں، یہ انسان کے اختیار سے باہر ہے۔ انسان کو نیکی یا بدی کی ترغیب اس کا نفس، معاشرتی اقدار اور تربیت دیتے ہیں۔ انسان جب اپنے نفس کی گہرائیوں میں جاتا ہے تو اسے دو راستے نمایاں نظر آتے ہیں۔ ایک سچائی، پرہیزگاری، تقوی اور محبت و اطاعت کا راستہ اور دوسرا راستہ وہ جس میں پارسائی کا ڈھونگ رچاتے ہوئے تمام غلط کاموں کو شعار زیست بنایا جاتا ہے۔ حقیقت میں دیکھیں تو نہ نیکی کی طرف بڑھنا انسان کے بس میں ہے نہ ہی برائی کو اپنانا اس کی خصلت ہے۔ اپنی ذات کی گہرائیوں سے روشناس ہونا اور ناجائز خواہشات پر احسن انداز میں قابو پانا اسے شر سے نجات دلانے اور نیکی کی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقدیر کیا ہے؟ اگر چیزیں انسان کے اعمال پہلے سے ہی طے شدہ ہیں۔ اس کا رزق، نیکی اور بدی سب پیشگی متعین ہیں تو جنت اور دوزخ کے چی معنی دارد؟ اگر انسان نے اس دنیا میں مقررہ آسائشوں اور پریشانیوں کے ساتھ آنا ہے تو کیسا حساب کتاب؟ تو یہاں یہ باور کرانا بہت ضروری ہے کہ اللّٰہ کی ذات تمام علوم کا منبع ہے۔ اسے ہر چیز کا علم ہے کہ فلاں مخلوق یا انسان کتنا رزق لے کہ آیا ہے؟ کتنی بہاریں اس کے مقدر میں لکھی گئی ہیں اور وہ کتنی نیکیاں سمیٹنے میں کامیاب رہے گا؟ جب ایک علم نجوم کا حامل شخص اپنے ہنر اور تعلیمات کی بدولت انسان کا مستقبل بتا سکتا ہے تو خالق حقیقی کو اس بات کا علم نہ ہو گا کہ اس انسان کے نصیب میں کیا ہے؟
انسان نیکی اور بدی کی طرف اپنی مرضی سے راغب ہوتا ہے لیکن اس چیز کا علم اللّٰہ کو ہے کہ کیسے اور کیوں کر انسان ایسا عمل کرنے جارہا ہے؟ چونکہ عقل و شعور کا زیور اس کے پاس ہے تو اسکو سامنے رکھتے ہوئے جو اعمال سر انجام دیتا ہے وہ اسکا مقدر بنتے ہیں۔ اگر وہ رضا الٰہی کے بر عکس کوئی عمل کرتا ہے تو روز قیامت سزا کا حقدار ٹھہرے گا اور رب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جتن کرے گا تو جنت کا حقدار کہلائے گا ۔ اللّٰہ تعالٰی نے قرآن مجید میں فرمایا : "اور ظاہری اور باطنی گناہوں کو چھوڑ دو۔ یقیناً جو لوگ گناہ کرتے ہیں، ان کو ان کے عمل کی سزا دی جائے گی۔" (سورۃ الانعام آیت 120)
اخلاقیات انسانی جبلت
اخلاقیات انسانی وقار کی بنیاد ہے۔ انسان کا معاشرہ اسے نیک، شائستہ، باوقار، برا، بد زبان بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔انسان کو اگر گود سے ہی سچائی، نرم دلی، بھائی چارگی کا درس ملے تو ایک عظیم شخصیت پروان چڑھتی ہے ۔ دین اسلام بھی انسان کو اچھی گفتار کی تلقین کرتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔" (بخاری و مسلم )
اعلیٰ اخلاقیات کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ دل میں کسی کا برا نہ چاہیں، کسی سے حسد نہ رکھیں۔ بعض، کینہ، نفرت سے بالاتر ہوکر محبت کی تلقین کریں۔ نیکی کا پرچار کریں۔ فقط پاکیزہ زبان، نیک دل اور تقویٰ و عاجزی سے بھرپور جسم انسان کو اس کے درجے پر براجمان کرتا ہے۔ ان سب عناصر کے بغیر انسان محض ایک سیاہ وجود کی مانند ہے جس کا اس دنیا میں کوئی مقصد نہیں۔محض زبان کی مٹھاس اور دل کی نرمی ہی ایسا آلہ ہے جس سے دوسروں کے دلوں میں جگہ بنائی جاسکتی ہے ۔ اسی طرح زبان کا زنگ آلود ہونا روحانی طاقت کے زوال کی وجہ بنتی ہے۔ زبان کی نرمی عزت میں اضافہ کرتی ہے اور خلق خدا کی بہت سی پریشانیوں میں مرہم ثابت ہوتی ہے۔ انسان جو دوسروں کو سب سے قیمتی تحفہ دے سکتا ہے وہ اس کا بیش قیمت وقت ہے۔ ہمدردی کے دو بول ہیں۔ آپ کی کوئی علمی بات، اچھی نصیحت دوسروں کے بہت مسائل حل کرسکتی ہے۔ عزت کمانے میں بہت وقت لگتا ہے اس کے برعکس انسان کسی ایسے موقع پر جذبات میں آکر دو کڑوے بول بول دے تو بعد میں پچھتاوا ہوتا ہے۔ بے شک خاموشی عبادت کے زمرے میں آتی ہے۔ گویا انسان جب بھی لب کشائی کرے تو فقط ایسا لگے کہ پھول جھڑ رہے ہوں۔ گفتگو ایسی ہو کہ دوسرے سننے کو بے تاب رہیں۔ بقول فراز
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
تبصرہ لکھیے