ہوم << سوز حیات - عمارہ عابد

سوز حیات - عمارہ عابد

دور کہیں افق پر سفید روئی کے گولے بادلوں کا روپ دھارے ایک دوسرے کے ساتھ اٹکھیلیاں کرنے میں محو تھے۔ پچھلی دوپہر سے ہوتی مسلسل بارش اب تھم چکی تھی لیکن کبھی کبھی میگھا رک کر بھی رکتی نہیں ہے شاید یہی اصول درد ہے جو روح کو متواتر زخمی کرتا رہتا ہے۔ جھریوں زدہ چہرہ اپنی ناتواں بصارت کے بل بوتے پر تمام پرانے خطوط پڑھنے کی کوشش کررہا تھا تاکہ پرانی یادوں کے امرت میں ایک بار پھر سے خود کو مدہوش کیا جا سکے۔

” ہم اپنی غلطی پر معافی کی امید رکھتے ہیں مگر سامنے والا ہمیشہ گناہ گار بن جاتا ہے اور گناہوں کی ہمیشہ سزا ہی یہ دنیا والے دیتے ہیں۔ “ یہ الفاظ تھے یا حقیقت؟ لیکن سامنے والے کو شرمندہ ضرور کر گئے تھے۔

” گل خان! ہم بدکردار نہیں ہیں۔ ہم تمہارے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں۔ تمہیں اللہ کا واسطہ ہمیں گھر سے نہ نکالو۔ “ ایک اذیت بھری چیخ فضا میں بلند ہوئی تو انہیں اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہوا اور وہ جلدی سے کھڑکی کے پاس جا کھڑے ہوئے جہاں اب پھر سے ہلکی پھلکی بوندا باندی جاری تھی۔

گل خان ایک عام انسان کی طرح ہی اپنی زندگی گزارنے میں مصروف تھا۔ والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے ہر خوشی ملی لیکن کہتے ہیں کہ سارا جہاں بھی مل جائے تو کہیں کوئی کمی ضرور باقی رہتی ہے پھر چاہے وہ پسندیدہ انسان ہو یا کوئی لاحاصل خواہش جس کا پایہ تکمیل تک پہنچنا لازمی نہیں ہوتا ہے۔

گل خان نے بچپن سے بہت سے دکھ دیکھے اور انہی مشکلات نے اسے اس قدر بہادر بنادیا کہ وہ تیرہ سال کی عمر میں اپنے گھر کا بوجھ اٹھانے لگا تاکہ اس کے والد کے لیے آسانی ہو جائے۔ وہ صبح سکول جاتا اور شام میں چائے والے ڈھابے پر کام کرتا تھا۔ وہ بہت محنتی تھا اور جلد ہی اس نے ایم- اے کرلیا۔ اس کی قمست نے پلٹا کھایا اور وہ برطانیہ جا بسا جہاں ایک اچھی کمپنی میں اسے ملازمت مل گئی۔ اب یہ گل خان اس چائے والے گل خان سے زیادہ کامیاب تھا۔ جو چاہتا خرید سکتا تھا لیکن گل خان میں شک نام کی بیماری تھی۔ جو اس کی تمام اچھائیوں پر حاوی آ جاتی اور اسی وجہ سے اس کے بہت سے اپنے گل خان سے دور ہوتے چلے گئے۔

زندگی میں ہمسفر ڈھونڈنے کا وقت آیا تو گل خان کے لیے اس کی چچا زاد ناصرہ کا رشتہ مانگ لیا گیا۔ یہ سب اس قدر تیزی سے ہوا کہ دو ماہ کے اندر اندر گل خان اور ناصرہ ایک دوسرے کے محرم بن بیٹھے۔ پہلے پہل تو گل خان کا برتاؤ ناصرہ کے ساتھ بہت اچھا رہا اور ناصرہ بھی اسی کے رنگ میں رنگنے لگی تھی۔ انسان اپنی عادتوں سے کبھی باز نہیں آتا ہے بالکل اسی طرح گل خان نے بھی اپنا رویہ تبدیل کرلیا۔ اب وہ ہر چھوٹی سی چھوٹی حرکت ناصرہ کی دیکھتا حالانکہ ناصرہ بہت اچھے کردار کی مالک تھی پھر بھی گل خان نے اپنی شک والی پرانی عادت کا زہر اپنے اور ناصرہ کے درمیان پھیلایا۔

” یہ ہر وقت تم موبائل میں کیا کرتی رہتی ہو؟“

” گل خان! میں مصنفہ ہوں اور بس کہانیاں وغیرہ لکھتی ہوں۔“ صبح کے خوبصورت اجالے میں گل خان نے ناصرہ سے سوال کیا جس کا اس نے نہایت ہی مہذب انداز میں جواب دیا۔ آج یہ جواب کسی کام کا نہیں تھا کیونکہ گل خان تو شک کی بیماری میں جل رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے آؤ دیکھا نا تاؤ اور ناصرہ کو بہت زیادہ مارا۔ وہ بیچاری رحم مانگتی رہی لیکن اسے ترس نہ آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اگلے لمحے میں ناصرہ گھر کی دہلیز کے پار تھی۔ گل خان نے اسے سفر زیست میں تنہا کردیا اور وہ نیک روح تڑپتی ہوئی اپنے رب کے پاس لوٹ گئی۔

ناصرہ کے جانے کے بعد گل خان کے حالات بگڑنے لگے۔ دھیرے دھیرے ہر شے اس کے ہاتھ سے نکلنے لگی اور وہ جلد ہی برطانیہ سے اپنے وطن لوٹ آیا۔ اب نہ پہلے جیسا روزگار رہا اور نہ ہی گھر کو جنت بنانے والی ناصرہ اس کے ساتھ تھی۔ گل خان نے ایک سکول میں چوکیداری شروع کردی اور اپنی زندگی کو دوبارہ صحیح ٹریک پر لے آیا مگر ناصرہ کی کہی ہوئی باتیں وہ بھلا نہیں پارہا تھا۔ ان سب میں تکلیف دینے کے لیے ناصرہ کے وہ خطوط ہی کافی تھے جو اس نے گل خان سے بچھڑنے کے بعد اسے بھیجے تھے۔ دور کہیں بادلوں نے کروٹ لی تو ماضی کی یادوں کے بھنور میں پھنسا وہ شخص اپنے حال کے روبرو آ کھڑا ہوا۔

” کبھی کبھی ندامت بھی ہمارے کام نہیں آتی اور بالکل اسی طرح زندگی کے اتنے سال گزرنے کے باوجود مجھے میرے گناہوں کی معافی نہ ملنا بہت اذیت ناک مرحلہ ہے شاید اب موت ہی مجھے اس غم سے آزاد کرسکتی ہے ورنہ اب جینا آسان نہیں ہے۔ “ عینک کے دھندلے شیشوں کو صاف کرتے گل خان خیالوں میں ہی ناصرہ سے مخاطب تھا مگر اب جواب ندارد تھا۔ بارش کی جلترنگ ابھی بھی جاری تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ گل خان کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں کا سیلاب جاری تھا۔ یہ سوز حیات گل خان نے اپنے لیے خود خریدا تھا اور بلاشبہ ابھی اسی کے ساتھ اسے جینا تھا۔ ہم انسانوں کو اپنی زندگی میں ہر فیصلہ کرنے سے پہلے احتیاط کرنی چاہیے تاکہ مستقبل میں ملال نامی پنچھی ہمارا جینا اجیرن نہ کر ڈالے۔ اپنے سے منسوب ہر رشتے کو عزت کی چادر اوڑھ کر محبت جیسا شرف بخشتے رہیں ورنہ انسان کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے اکثر زندگی زہر آلود ہوجاتی ہے جو کاٹے سے بھی نہیں کٹتی ہے۔

Comments

Click here to post a comment