زمانۂ قدیم سے لے کر آج تک، انسانیت کا سب سے خوبصورت اور روشن پہلو کمزوروں، بے کسوں اور محتاجوں کی خبر گیری رہا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں وہ افراد سب سے زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں جنہوں نے اپنی ذات کو بھلا کر دوسروں کے دکھ درد کو اپنانے کی کوشش کی۔
کسی مجبور کا ہاتھ تھامنا، کسی بے سہارا کو کندھا دینا، اور کمزور رشتہ داروں کی مدد کرنا نہ صرف ایک انسانی فریضہ ہے بلکہ یہ انسان کے باطن کی خوبصورتی اور اس کے دل کی گہرائیوں کو ظاہر کرتا ہے۔زندگی کی شاہراہ پر ہر شخص کسی نہ کسی امتحان سے گزر رہا ہوتا ہے۔ کوئی مالی تنگی کا شکار ہے، تو کوئی جسمانی بیماریوں سے لڑ رہا ہے۔ کوئی رشتوں کی کمزوری کا مارا ہوا ہے، تو کسی کی تنہائی اسے کھائے جا رہی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی شخص خالص نیت اور محبت کے جذبے سے کسی کی مدد کرتا ہے تو وہ گویا ایک چراغ جلانے کا عمل کرتا ہے جو اندھیرے میں روشنی بکھیر دیتا ہے۔
کمزور رشتہ داروں کی مدد کرنا، چاہے وہ مالی ہو یا جذباتی، انسان کے دل میں سکون پیدا کرتا ہے۔ یہ وہ سرمایہ ہے جو دنیا کی کسی دولت سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ آپ کا ایک سادہ سا مسکراتا چہرہ، ایک ہمدردانہ جملہ، یا وقت پر دی گئی مدد کسی کے ٹوٹے دل کو جوڑ سکتی ہے اور کسی کی زندگی کو سہارا دے سکتی ہے۔اللہ کے نبی ﷺ کی زندگی اس سلسلے میں سب سے بڑی مثال ہے۔ آپ ﷺ ہمیشہ یتیموں، مسکینوں، اور کمزوروں کی مدد میں پیش پیش رہتے۔ آپ نے یہ سکھایا کہ انسانیت کا اصل مقام صرف اپنے لیے جینا نہیں بلکہ دوسروں کے لیے زندگی گزارنا ہے۔ آپ نے فرمایا:
"مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے بے سہارا چھوڑتا ہے اور نہ اسے حقیر سمجھتا ہے۔"
آج کے دور میں، جہاں نفسا نفسی کا عالم ہے اور ہر شخص اپنی ذات میں گم ہے، ہمیں ان لوگوں کی تلاش کرنی چاہیے جو ہماری توجہ اور مدد کے مستحق ہیں۔ ایک کمزور بوڑھا شخص جو اپنی ریڑھ کی ہڈی جھکائے کسی سہارے کی تلاش میں ہے، یا وہ یتیم بچہ جو محبت کے چند لمحوں کو ترستا ہے.یہ سب ہمیں اپنی دعاؤں اور عملی مدد کے مستحق نظر آتے ہیں۔
آئیے، ہم سب عہد کریں کہ جہاں کہیں بھی ہمیں کسی بے کس یا کمزور انسان کا سامنا ہوگا، ہم اس کے لیے روشنی کا مینار بنیں گے۔ یہی انسانیت کا تقاضا ہے، یہی ہماری فطرت کا تقاضا ہے، اور یہی وہ عمل ہے جو ہمیں دنیا و آخرت میں کامیابی دلائے گا۔
تبصرہ لکھیے