ہوم << کام کرنے کا منہج - محمد یوسف شفیع

کام کرنے کا منہج - محمد یوسف شفیع

سر پر دستاریں سجائی جا رہی ہیں. بہت سے مدارس میں دستار فضیلت کا انعقاد ہو رہا ہے ، جہاں سے بہت سے طلبہ ایک میدان سے دوسرے میدان میں داخل ہو رہے ہیں، کیوں کہ تعلیمی سلسلہ ایک راہ ہے، جبکہ منزل ہماری علم ہے . آپ بخوبی جانتے ہیں کہ علم کوئی ختم ہونے والی چیز نہیں ، جب تلک سانس ہے علم کا حصول چلتا رہے گا . خیر میں عرض کر رہا تھا کہ ہمارے طلبہ مدارس سے بالیدگی اور قرب حاصل کرنے کے بعد اب ایک دوسرے میدان یعنی کام کرنے اور مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ، اور معاشرہ میں عزتیں سمیٹنے جا رہے ہیں.

اساتذہ کرام سب طلبہ کو آخری دنوں میں بالخصوص یہ نصیحت فرماتے ہیں کہ ” جڑے رہنا ، کہیں بھی دین کی خدمت کا موقع ملے بغیر کسی اضطراب کے لگ جانا ، اور اپنے علاقے میں جا کر دین کا کام کرنا . کیوں کہ دین کا غم بڑی اہم چیز اور فائدہ سے خالی نہیں جبکہ دنیا کا غم کوئی فائدہ والی چیز نہیں ، دنیا کے غم سے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں، مقدر میں جتنا مزہ لکھا ہے وہ مل کر رہے گا اور جو مزہ مقدر میں نہیں لاکھ کوششوں سے ملنے والا نہیں.

قصہ مختصر ایک طالب العلم کی حیثیت سے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا عصر حاضر میں ہمارے کا کام منہج کچھ اس طرح ہو کہ : سب سے پہلے ہم خود کو اپنے سامنے رکھ کر محاسبہ کریں کہ ہم دین کو سراسر اور واضح خیر خواہی سمجھتے ہیں، لیکن یہ خیر خواہی میرے اندر ہے یا نہیں غرض کہ پہلے اس خیر خواہی کا آغاز خودی سے ہو. پھر قبیلہ و اہل عیال اور اس کے بعد اپنے معاشرہ کو سامنے رکھیں. اور دیکھیں ہمارے معاشرہ کا رجحان کیا اور رخ کس طرف ہے ٬ معاشرہ کے افراد کا مزاج اپنے دین سے جڑا ہے یا ان کا مزاج کہیں اور بھٹک رہا ہے .

ان پہلوؤں کا جائزہ لے کر تعلق مع اللہ قائم کرتے ہوئے دین کے کام میں لگ جائیں. تدریس کا اگر کہیں موقع نہیں مل رہا تو کوئی قابلِ افسوس بات نہیں کیوں کہ عصرِ حاضر کو دیکھا جائے تو معاشرتی و عمرانی سطح پر بہت سے ایسے کام ہیں جو تقاضا کرتے ہیں، مثلاً ہمارے گھر اور ہمارا معاشرہ مسلم سوسائٹی سے تعلق تو رکھتا ہے لیکن حضور ﷺ کی سیرت طیبہ اور عقائد سے محروم ہے، من حیث المسلم ہمارہ معاشرہ دین کو بطور نظام قبول کرنے کو تیار نہیں .

بہرکیف ہمارے کام کام منہج کچھ اس طرح ہو کہ بالائی سطور میں درج باتوں کا مکمل خیال رکھا جائے.