ہوم << پہلا پتھر۔ ڈاکٹر اکرام الحق اعوان

پہلا پتھر۔ ڈاکٹر اکرام الحق اعوان

ماسی جیراں ہمارے معاشرے کا ایک سچا کردار ہے۔ ماسی جیراں کسی جگہ ملازمت کرتی ہے۔اسکی ماہانہ تنخواہ ۰۰۰۳ روپے ہے۔ اسکے بچوں کی تعدادآٹھ ہے۔ ان تین ہزار روپے میں اسکے گھر کا چولہا بھی نہیں جل سکتا۔ چہ جائیکہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکے۔ لیکن ماسی جیراں کے بچے اچھے اداروں میں تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔

ماسی جیراں انکو پڑھانے کی خاطر پارٹ ٹائم جاب کرتی ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود ماسی جیراں کا گزارہ بہت مشکل سے ہوتا ہے۔وہ زیادہ تر دوکانداروں سے ادھار سامان خریدتی ہے۔ اور انہیں پیسے کئی کئی مہینوں کے بعد واپس کرتی ہے۔ماسی جیراں کسی زمانے میں خوشحال تھی۔ اسکے گھر روپے پیسے کی ریل پیل تھی۔ اسکا خاوند معقول تنخواہ پر ملازمت کرتا تھا لیکن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ اسکا خاوند بیمار پڑ گیا۔اور اسے ملازمت چھوڑ کر وطن واپس آنا پڑ گیا۔ماسی جیراں نے کوئی پیسہ ٹکا تو جمع کر نہ رکھا تھا۔ شروع شروع میں گھر کا خرچ چلانے کے لئے گھر کا سامان بیچنا شروع پڑا۔ پھر جب گھر کا سارا سامان بک گیا تو لوگوں کے گھروں میں نوکری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے لگی۔

اسکے گاؤں کے ایک شخص کو اس پر ترس آیا تو اس نے اسے ایک سرکاری ادارے میں ملازم کروا دیا۔ اس نے غربت کے باوجود اپنی بچیوں کی شادیاں انتہائی شان و شوکت سے کی۔اس نے لاکھوں روپے کا جہیز ادھار لے لیا۔ لیکن اپنی ناک کو نیچا نہ ہونے دیا۔یہ قرضہ اتارنے میں ماسی جیراں کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑے۔ یہ ایک علیحدہ داستان ہے۔لیکن ماسی جیراں نے ان واقعات سے کوئی سبق نہ سیکھا۔اور ایک بار پھر مکان بنانے کے لئے سود پر قرض لے لیا۔ اس نے یہ قرض ان سود خوروں سے لیا جنکی شرح سود ااس قدر ہوتی ہے۔کہ آپکی آئندہ نسلیں بھی اس سود پر لیئے گئے قرضے کی اصل رقم بھی واپس نہیں کر سکتیں۔ماسی جیراں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ سود پر لیا گیا تمام قرض اتار گئی لیکن اس قرض پر چڑھنے والے سود کی قیمت اصل قرض سے بھی بڑھ گئی۔

ماسی جیراں کو یہ قرض اتارنے کے لئے مزید قرض لینا پڑا اور یوں وہ سود کی دلدل میں دھنستی چلی گئی۔یہ انہی دنوں کی بات ہے کہ ماسی جیراں کے دو تین قریبی رشتہ دار یکے بعد دیگرے فوت ہو گئے۔ماسی جیراں قرضے کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔ لیکن اسکی ناک اب بھی اتنی ہی اونچی تھی۔ مجھے پتہ تھا کہ ماسی جیراں کے رشتہ داروں کو اسکے حالا ت کا بخوبی علم ہے۔ اگر ماسی جیراں اس فوتگی میں گاؤں کے رواج کے مطابق نہ بھی چل سکی تو اسکا کوئی بھی رشتہ دار اس چیز کو محسوس نہ کرے گا۔لیکن یہ بات ماسی جیراں کو منظور نہ تھی۔ اس نے ان فوتگیوں میں اس گاؤں کے رسم و رواج کے مطابق کھانا پکایا۔ کھانا پکانے میں کم از کم خرچہ پچاس ہزار روپے تھا۔لیکن ماسی جیراں کو قرضہ حاصل کرنے کا تجربہ تھا۔اسنے مزید قرضہ چڑھا لیا۔ لیکن اپنی ناک نیچی نہ ہونے دی۔

یہی وہ اونچی ناک ہے۔جسنے ہمارے معاشرے کو سرطان کی طرح لپیٹ رکھا ہے۔ آپ کے گھر میں کھانے کو گھاس تک نہیں لیکن آپنے اپنی ناک اونچی رکھنی ہے۔ زمانے کے رسم ورواج کتنے ہی برے کیوں نہ ہوں۔آپنے انہیں قائم رکھنا ہے۔ ان سے بغاوت نہیں کرنی۔یہاں پر صرف ایک ماسی جیراں نہیں ہے۔ بلکہ ایسی ماسیاں آپکو ہر گاؤں، ہر شہر میں سینکڑوں کی تعداد میں مل جائیں گی۔ یہ وہ ماسیاں ہیں کہ جو ہمارے بدبودار معاشرے سے بغاوت کی ہمت نہیں رکھتیں۔ یہاں کی گندی رسموں کو چھوڑنے پر تیا ر نہیں۔ پھر آخر تبدیلی کیسے آئے گی۔ ہمارا ملک ترقی کیسے کرے گا۔ کسی نہ کسی کو تو کڑوا گھونٹ بھرنا پڑے گا۔

کسی نہ کسی کو تو پہلا پتھر مارنا ہی پڑے گا۔ کسی نہ کسی کو تو معاشرے سے بغاوت کرنا پڑے گی۔ اسطرح کی باتیں میں اکثر سوچتا رہتا ہوں۔ آخر ہم ان گندے رسم و رواج سے بغاوت کرنے کی ہمت کیوں نہیں کرتے؟۔ اگر ہمار ا کوئی قریبی عزیز فوت ہو جاتا ہے تو یہ کیوں ضروری ہوتا ہے کہ اسکے فوت ہونے پر سارے گاؤں کے لئے کھانے کا بندوبست کیا جائے۔آپ اگر فوتیدگی والے گھر جاتے ہیں۔ آپکا موڈ ہے یا نہیں، آپکو بھوک لگی ہے یا نہیں۔ آپ اپنے گھر سے کھانا کھا کر آئے ہوئے ہیں یا نہیں۔ فاتحہ پڑھنے کے بعد سب سے پہلے آپکو کھانا کھانے کی دعوت دی جائے گی۔ آپ لاکھ انکار کریں۔ لاکھ بہانے بنائیں۔ لیکن آ پ کو کھانا کھائے بغیر وہاں سے واپس آنے نہ دیا جائے گا۔

میں کافی عرصے سے یہ سوچتا رہتا تھا اور دبے دبے لفظوں میں اپنے عزیزوں، رشتہ داروں کو یہ بات سمجھاتا بھی رہتا تھا کہ بھائی فوتیدگی کی صورت میں پورے محلے بلکہ گاؤں کو کھانا دینے کی ضرورت نہیں ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ آپ یہی پیسے اپنے کسی غریب عزیز، رشتہ دار کو دے دیں۔تاکہ یہ پیسہ اس غریب کے کسی کام تو آ سکے۔لیکن میری یہ بات یا تو کسی شخص کو سمجھ نہ آسکی اور اگر سمجھ آئی بھی تو وہ معاشرے سے بغاوت کی ہمت نہ کر سکے۔ کچھ عرصہ پہلے میری ملاقات دھیدوال کے محمد شفیع بٹ صاحب سے ہوئی۔ باتوں ہی باتوں میں تذکرہ انکے مرحوم والد صاحب کی طرف نکل گیا۔بٹ صاحب اپنے والد صاحب کی وفات کے بارے بتانے لگے کہ انکی وفات پر انہوں نے چار دن تک انکا سوگ منایا۔

پھر سب بھائیوں نے ملکر فیصلہ کیا۔۔۔۔۔۔ایک منفرد فیصلہ۔۔۔۔۔ ہمارے معاشرے کے لحاظ سے ایک عجیب فیصلہ۔۔ ان سب بھائیوں نے اپنی اپنی جیب سے پندرہ پندرہ ہزار روپیہ جمع کیا۔ انکی بہنوں نے اس میں دس دس ہزار روپیہ ملایا۔ اور انہوں نے ان پیسوں سے اپنے گاؤں کی ایک کچی گلی پکی کروا دی۔ اور اپنے گاؤں کے اسکول کا ایک کمرہ بنوا دیا۔ اس گلی میں بارشوں کے موسم میں اس قدر پانی اور کیچڑ جمع ہو جاتا تھا کہ لوگوں کا وہاں سے گزرنا محال ہو جاتا۔ بچے اور بوڑھے وہاں سے گزرتے ہوئے کئی بار پھسل کر کیچڑ میں جا گرتے۔ انکے کپڑے گندگی سے بھر جاتے۔ اور وہ کیچڑ میں لت پت ہو جاتے۔ اسی طرح اس اسکول میں کمرے کم ہونے کے باعث بچے گرمیوں میں دھوپ میں تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔

انکے ان کاموں پر گاؤں کے لو گ اس پورے خاندان کو دعائیں دیتے ہیں۔ اور انکے والد کی بخشش کی دعائیں مانگتے ہیں۔ مجھے بٹ صاحب کی یہ باتیں بڑی اچھی اور عجیب لگیں۔ میری نظروں میں بٹ صاحب کا قد کئی گنا بڑھ گیا۔مجھے بٹ صاحب کے سارے گھر والے بڑے عظیم لگے۔میں نے بٹ صاحب سے پوچھا کہ بٹ صاحب۔ اتنا عظیم خیال آپکے ذہن میں آیا کیسے۔ بٹ صاحب کہنے لگے کہ اس بات کا سارا کریڈٹ انکے ایک انکل کو جاتا ہے۔ انکے اس انکل کا ایک بیٹا فوت ہو گیا۔ انکے انکل کو اپنے اس بیٹے سے بہت زیادہ پیا رتھا۔ وہ اپنے بیٹے کی بخشش کے لیئے کوئی بڑا کام کرنا چاہتے تھے۔ اور انہوں نے وہ بڑا کام کیا۔

جی ہاں۔ کیونکہ انکے گاؤں میں پینے کے پانی کی بہت زیادہ قلت تھی اسلئے انہوں نے اپنے گاؤں میں اپنے بیٹے کے نام پر ایک پانی کا نلکا لگوا دیا۔ اب و ہ نلکہ پورے گاؤں میں بٹ صاحب کے نلکے کے نام سے مشہور ہے۔محمد شفیع بٹ کا کہنا تھا کہ اپنے چچا کو دیکھ کر انہیں بھی یہ تحریک ہوئی کہ وہ اپنے والد صاحب کی یاد میں کوئی ایسا کام کریں کہ لوگ ساری عمر انکے والد صاحب کے لئے دعائیں مانگتے رہیں اور انہیں بہت خوشی ہوتی ہے جب انکے گاؤں کے لوگ انکے والد صاحب کے لئے دعائیں مانگتے ہیں۔ تو قارئین۔ شفیع بٹ صاحب کے چچا اور انکے خاندان نے ہمارے معاشرے کی گندی،فرسودہ اور واہیات رسموں سے بغاوت کی ابتداء کر دی ہے۔

انہوں نے اپنے حصے کا کام کر لیا ہے۔ انہوں نے پہلا پتھر مار دیا ہے۔ اب کون ہے جو اس کام کو آگے بڑھائے گا؟۔۔۔ جو ان رسموں کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ جو یہ فیصلہ کرے گا۔ کہ اب وہ کبھی بھی پورے محلے یا گاؤں کو کھانا کھلانے پر ہزاروں روپیہ خرچ نہیں کرے گا۔۔۔۔۔۔۔بلکہ اس پیسے سے اپنی کسی غریب بیٹی کے جہیز کا سامان بنوا دے گا۔۔۔۔۔ کوئی گلی پکی کروا دے گا۔ کسی اسکول کا کمرہ بنوا دے گا۔

نوٹ:۔ماسی جیراں اور شفیع بٹ کا کردار ضلع چکوال کا ایک سچا کردار ہے۔ یہ دونوں کردار اب اللہ کوپیارے ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں کرداروں کو غریق رحمت کرے۔