زندگی انسان کے لیے رب کائنات کی طرف سے بہت بڑی عطا اور انمول عطیہ ہے۔اس کو حسیں انداز سے بسر کیا جاۓ تو روحانی خوشی اور سکون قلب ملتا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے روح کی بیداری اور زندگی میں انقلاب کیسے رونما ہوتا ہے؟
پاکیزہ خیالات٬مثبت سوچ٬صداقت٬امانت٬دیانت٬قناعت٬عقائد و ایمانیات٬اسلامی روایات اور حسن اخلاق سے نہ صرف انسان کی روح کو سکون ملتا ہے بلکہ زندگی میں ایک حسین انقلاب کیسے رونما ہوتا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے اس کا منبع کیا ہے؟اس کا جواب تو بہت خوبصورت اور دلکش ہے۔علم ایک ایسی دولت ہے جس سے انسان کے اندر کی دنیا بیدار ہوتی ہے تو روح بیدار ہوتی ہے۔جب روح بیدار ہوتی ہے تو انقلاب زندگی کی دہلیز پر دستک دیتا ہے۔اللہ کریم نے انسان کی پیدائش سے موت تک اسے مختلف مراحل سے گزرنے کا ایک سلسلہ قائم فرمایا ہے۔
پیدائش٬بچپن٬بلوغت سے علم حاصل کرنے کا ایک تسلسل شروع ہوتا ہے۔تعلیم کے حصول کے لیے درسگاہوں کا رخ کرتا ہے اور دامن علم کے موتیوں سے بھرنا شروع کرتا ہے۔اس ضمن میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ علم روشنی ہے اس سے انسان کی خوابیدہ صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں اور انسان مقام شوق کا سفر طے کرتا ہے۔قرآن مجید اللہ کریم کی مقدس کتاب ہے۔یہ علم و حکمت کا مخزن اور رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے۔عصر نو کے تقاضے بھی یہی ہیں کہ روح کی بیداری کے لیے تعلیم حاصل کی جاۓ۔کتابیں جو با مقصد اور علم کا محور و مرکز ہوں ان کا مطالعہ کیا جاۓ۔کتب بینی کی روایت زندہ کرنے کی ضرورت ہر مرحلہ پر رہتی ہے۔مادہ پرستی کے رجحان میں اضافہ سے انسان میں اضطرابی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
"ہوس نے ٹکڑےٹکڑے کر دیا نوع انساں کو " کے مصداق بے چینی کا عنصر زندگی میں زیادہ ہوتا ہے۔جب انسان خواہشات کے بوجھ تلے دب جاتا ہے تو زندگی پریشاں نظری کا شکار ہو کر رہ جاتی ہے۔رونقیں ماند پڑ جاتی ہیں۔بے قراری اور پریشانیوں سے زندگی اداس لگتی ہے۔اس مشکل صورتحال سے نکلنے کے لیے علم کی دولت کی تلاش لازم ہے۔علم کی روشنی کے بغیر انسان اندھیروں میں بھٹکتا ہے۔تعلیم کے زیور سے انسان اچھے اور برے میں تمیز کر سکتا ہے اور زندگی کا سفر خود بھی سکون سے طے کر پاتا ہے اور دوسروں کے لیے سکون کی فضا برقرار رکھ سکتا ہے۔تعلیم سے انسان میں اصول پسندی اور اخلاقیات کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔اس سے دوسروں کی عزت نفس اور حقوق کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے۔عبادات بھی اسی وقت قبول ہوتی ہیں جب علم کے مطابق بتاۓ گئے اصولوں اور ضوابط کے مطابق ادا کی جائیں۔آج انسانیت سکون کی تلاش میں سرگرداں ہے۔بقول شاعر:-
کیوں پھرتا ہے بن بن میں
ڈھونڈ اسے اپنے من میں
علم نافع کا حاصل کرنے سے انسان کا وقار اور مقام بلند ہوتا ہے۔آج نوجوان نسل کے اندر بے قراری اور اضطراب پایا جاتا ہے ۔تو دل کے اندر ایک تحریک پیدا ہوتی ہے۔کہ اقبالؒ نے اسے تو شاہین کے نام سے تشبیہ دی تھی۔جو کلام اقبال میں اب بھی موجود ہے۔بقول اقبالؒ:-
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
انسان کی زندگی غیرت و حمیت سے گزرے تو عزت و وقار بحال رہتا ہے۔رزق حلال سے ہی سب کچھ ممکن ہے۔تعلیم سے اچھی عادات اور اچھے رویے فروغ پاتے ہیں۔سماج اور معاشرہ کا سکون بھی افراد کے اچھے کردار کی بدولت بحال رہتا ہے۔منزلوں کی تلاش میں سرگرداں رہنے والے شام و سحر متحرک رہتے زندہ رہتے ہیں۔اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا مصمم ارداہ سے زندہ رہتے ہیں۔اسلامی عبادات اور اخلاقیات میں کس قدر اثر ہوتا ہے؟اس کا انسان کو اہتمام کرنا چاہیے۔انسان کی تخلیق تو عبادت الٰہی ہے۔اس لیے اپنی روح کو بیدار کرنے اور زندگی میں انقلاب لانے کے لیے علم کے ساتھ ساتھ عمل کرنا چاہیے۔
تبصرہ لکھیے