آج کل Face Book پر ایک سوال چل رہا ہے؛
’’ جماعت اسلامی کو آئندہ انتخابات میں تنہا لڑنا چاہیے یااتحاد بنانا چاہیے؟‘‘
ہر چند کہ یہ سوال قبل از وقت ہے۔ مگر ہے تو ایک سوال۔تاہم اتحادوں کے متعلق ہماری رائے بھی وہی ہے، جو شاعر کی رائے اپنے محبوب کے متعلق تھی:
عمر بھر کا سہارا بنو تو بنو، دو گھڑی کا سہارا سہارا نہیں
اتحادبھی فقط آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لیے سردھڑ کی بازی لگادینے کو بنتے ہیں۔لہٰذا انتخابات ہونے تو دیجیے۔ اتحاد ضرور بنیں گے اوربننے کے بعد کسی کا سر جائے گا، کسی کا دھڑجائے گا۔ہم خدانخواستہ سیاسی یا انتخابی اتحادوں کے خلاف نہیں ہیں۔بھلا ہمیں خلاف ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ بعد کویہ اتحادی خود ہی ایک دوسرے کے خلاف ہوجاتے ہیں۔اور ہمارے یہاں ’اتحادی ساجھے‘ کی صرف ہنڈیا ہی چوراہے پر نہیں پھوٹتی، باہمی سر پھٹول کے باعث اتحادیوں کے سر بھی پھوٹ، پھوٹ پڑتے ہیں۔سو، اگر اِن سروں میں کچھ ہوتاتو اس طرح نہ پھوٹ جاتے جس طرح خالی مٹکے ایک دوسرے سے ٹکرانے کے بعد پھوٹ کر ٹھیکرے ٹھیکرے ہوجاتے ہیں۔ہمارے سیاست دان اگر واقعی ’سیاست دان‘ ہوتے تو آپس میں سر نہ ٹکراتے، اصلاحِ نظامِ انتخاب کے لیے دماغ لڑاتے۔مگر یہ حال فقط ہمارے ہی سیاست دانوں کا نہیں۔ یورپ اور امریکا میں بھی سیاست دان ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اگر نہیں ہوتے تو ایسے بنادیے جاتے ہیں۔ مغرب میں چوں کہ ہر چیز اداراتی (Institutionalize) کردی گئی ہے، چناں چہ وہاں سرٹکرانے کا ادارہ الگ ہے اور دماغ لڑانے کا ادارہ الگ۔ سرٹکرانے کے لیے پیشہ ور سیاستدان بنائے گئے ہیں اور دماغ لڑانے کے لیے علم سیاسیات کے ماہرین کے ’تھنک ٹینک‘۔ (اﷲ جانے یہاں اُن کی ’ٹینک‘ سے کیا مراد ہوتی ہے۔واٹر ٹینک؟ یا وار ٹینک؟)گویامغرب جو کچھ کرتا ہے علمی سوچ بچار کرنے کے بعد کرتا ہے۔ بقول جونؔ ایلیا:
اُس نے تو کارِ جہل بھی، بے علما نہیں کیا
یہ ’تھنک ٹینکس‘ اپنی اپنی’تھاٹس‘ کے مطابق جو کچھ کرنے کو کہہ دیتے ہیں، اُن کے’تھاٹ لیس‘ سیاست دان بس وہی کرتے اور وہی کہتے ہیں۔بش ہوں، اوباما ہوں یا اُن کی مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنما، اگر اُن کے کسی تھنک ٹینک نے اُن کو’تہذیبی تصادُم‘ کا نظریہ دے دیا اور مسلمانوں کو ’دہشت گرد‘ کہہ دیا،تو سب کے سب یہی ایک بات رٹتے رہیں گے۔ اُس وقت تک، جب تک کہ کسی تھنک ٹینک سے کسی نئی بات کی وحی اُن پر نازل نہ کردی جائے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب نائن الیون برپا کرنے کے لیے ٹوئن ٹاور سے طیارے ٹکرائے گئے تھے تو چھوٹے بُش میاں چوبیس گھنٹے کے لیے غائب ہوگئے تھے۔یہ تو بعد میں پتا چلا کہ غائب ہو نہیں گئے تھے، غائب کردیے گئے تھے۔ سو، اُن کے ’بازیاب‘ ہونے کے بعد خبر ملی کہ مذکورہ چوبیس گھنٹے اُنھوں نے صدارتی طیارے (یوایس وَن)میں گزارے۔اس دوران میں ’تھنک ٹینکرز‘ اُنھیں ’بریفنگ‘ دیتے رہے کہ اب اس کے بعد انھیں کیا کہنا اور کیا کرنا ہے۔اس حادثے کا الزام کس پر لگا نا ہے اور سزا کس کو دیناہے۔ پھر جو کچھ ہوا وہ سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔مگر کوئی بھی امریکی سیاست دان تھنک ٹینک کی ’تھنکنگ‘ سے سرمو انحراف کر سکا نہ اختلاف۔ مسلمانوں کے خلاف سب کے سب یک زبان رہے اور اب تک ہیں۔ہمارے یہاں اول تو کوئی تھنک ٹینک ہی نہیں۔ دوم اگر ہمارے کچھ’ تھنکرز‘ کچھ کہتے بھی ہیں تو ہمارے سیاست دان اُن کی سنتے ہی نہیں۔ ہمارے سیاستدان بھی امریکی تھنک ٹینک کی دی ہوئی لائن پر چلنے لگتے ہیں۔اور مفکرین اپنا ہی سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں کہ:
من چہ می سرایم و طنبورۂ من چہ می سراید
یعنی میں کس سُر میں گارہاہوں اور میرا طنبورہ کیاسُر بجارہاہے۔یہاں تو ہر سیاست دان کی اپنی اپنی ڈفلی ہے اور اپنا اپنا راگ ہے۔
راگ بیراگ اور طنبورے کے ذکر پر ایک دلچسپ قصہ یاد آگیا۔جو اوپر کی غیردلچسپ باتوں کے مقابلہ میں آپ کو خوش آئے گا۔ ایک بار ملک کے ایک مشہور عالمِ دین کو ریڈیو پر ایک پروگرام میں مدعو کیا گیا۔ پروگرام ریکارڈ کرانے کے بعد مولانا کو چائے پلانے کے لیے اسٹیشن ڈائریکٹر صاحب کے کمرے میں لے جایا گیا۔اسٹیشن ڈائریکٹر ذوالفقار علی بخاری تھے۔ یہ وہی صاحب ہیں جو زیڈ،اے بخاری کے نام سے مشہور ہوئے اورمشہورمزاح نگار احمد شاہ بخاری پطرس کے چھوٹے بھائی تھے۔وہ بڑے بخاری کہے جاتے تھے اور یہ چھوٹے بخاری۔ ایک بارریڈیو کی کسی محفل میں ان کے والد صاحب بھی مع جبہ و قبا و عمامہ تشریف لے آئے۔ شاہد احمد دہلوی نے کھسر پھسر کرتے ہوئے کسی سے پوچھا:
’’یہ کون صاحب ہیں؟‘‘
جواب ملا:
’’ارے تُم انھیں نہیں پہچانتے؟ یہ بخاری برادران کے والد ہیں‘‘۔
شاہد احمد دہلوی بے ساختہ بولے:
’’اچھا تو یہ ہیں صحیح بخاری‘‘۔
زیڈ،اے بخاری اپنے بڑے بھائی کے درجہ کے مزاح نگار تو نہیں تھے، مگر ’مزاح گو‘اعلیٰ درجہ کے تھے۔مزاح گو ہی نہیں،شاعر بھی تھے۔ریڈیو سے وظیفہ یاب ہونے کے بعد ریڈیو پاکستان سے دلچسپ اور پُرمزاح گفتگو پر مشتمل دس منٹ کا ایک پروگرام کرتے تھے جس کا نام تھا: ’’زیڈ،اے بخاری کے ساتھ دس منٹ‘‘۔ ایک بار مجید لاہوری نے بھی اُنھیں مشورہ دیاتھا کہ:
’’بخاری صاحب!آپ اپنی باتوں کا مجموعہ شائع کریں تو اُس کا نام ’حدیثِ بخاری‘ رکھیں‘‘۔
بخاری صاحب نے جھٹ جواب دیا:
’’ضرور!بشرطے کہ آپ بھی اپنے مجموعہ کلام کانام کلامِ مجید رکھیں‘‘۔
ہاں تو مولاناوالا قصہ یہ تھا کہ چائے پر مولانا نے غالباً گفتگو برائے گفتگو کی خاطر بخاری صاحب سے پوچھ لیا:
’’بخاری صاحب! طنبورے اور تان پورے میں کیا فرق ہوتاہے؟‘‘
بخاری صاحب یہ سوال سُن کر چکراگئے۔ فرق شاید اُنھیں بھی معلوم نہ تھا۔ مگر آدمی حاضر دماغ تھے۔ سنبھل کر پوچھا:
’’مولانا! اِس وقت آپ کی عمرکیا ہوگی؟‘‘
مولانا بھی یہ سوال سُن کر چکرا گئے کہ بھلا عمر پوچھنے کایہ کون سا موقع تھا۔ بہرحال اُنھوں نے بتایا :
’’ یہی کوئی پچہتر برس کے لگ بھگ تو ہوگی‘‘۔
بخاری صاحب بولے:
’’مولانا!جہاںآپ نے اپنی عمرعزیز کے 75سال طنبورے اور تان پورے کا فرق جانے بغیر گزاردیے، وہیں کچھ برس اوربھی گزار لیجیے!‘‘
پس ہمیں بھی اگر فیس بُک پر سوال اُٹھانے والوں کی عمر معلوم ہوتی تو شاید جواب دینے میں آسانی ہوجاتی!
تبصرہ لکھیے