ہوم << مسابقت کہ موافقت - ابن فاضل

مسابقت کہ موافقت - ابن فاضل

ایک سیٹھ صاحب اپنی بالکل نئی سوک موٹر وے پر قریب اڑائے ہی لے جارہے ہیں، کہ دفعتاً ایک مرسڈیز ان کے پاس سے گذر جاتی ہے. ماتھے پر تیوری ابھرتی ہے دایاں پاؤں ریس کے پیڈل پر دباؤ بڑھاتا ہے. مقابلہ شروع ہوجاتا ہے. کچھ دیر میں ایک لینڈ کروزر بھی اس مقابلے میں شامل ہوجاتی ہے.

پھر ایک آڈی… پھر ایک پراڈو اور….. اورہوتے ہوتے دس بارہ نئی مہنگی اور عالی شان گاڑیوں کا یہ قافلہ ایک باقاعدہ ریس کی صورت اختیار کر لیتا ہے. انسانی فطرت کے عین مطابق ہر کوئی سب سے آگے نکلنا چاہتا ہے. اسی تگ ودو میں کچھ حضرات خلاف قانون بائیں طرف سے بھی اور ٹیک کرتے ہیں اور کچھ انتہائی کم. فاصلے سے کہ بمشکل حآدثہ کا شکار ہونے سے بچتے ہیں. یہ سب کے سب معروف معانی میں معاشرے کے کامیاب لوگ ہیں، کھاتے پیتے آسودہ حال اور ظاہر ہے کہ کسی قدر سمجھدار اور بااثر بھی.. جو اپنی تمام تر توانائیاں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں صرف کررہے ہیں.

اب آپ تصور کریں کہ یہ سب لوگ علیحدہ علیحدہ گاڑیوں میں سفر کرتے ہوئے ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کی بجائے کسی ایک بڑی گاڑی میں بیٹھے ہوں. اور مل کر اپنی ساری توانائیاں اس گاڑی کو جلد بحفاظت اور پر سکون طریقے سے منزل پر پہنچانے پر صرف کررہے ہوں تو ان کا سفر پہلے والی صورت کی نسبت کس قدر سہل خوشگوار اور کم خرچ رہے گا. بس یہی فرق ہے انفرادی اور اجتماعی سوچ کا. جب ہم اپنے لیے جیتے ہیں، صرف اپنا سوچتے ہیں تو ہماری توانائی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں ضائع ہوجاتی ہیں اور جب ہم اجتماعی سوچ کے ساتھ ایک دوسرے کا دست و بازو بنتے ہوئے مل کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو راستے سہل اور منزلیں قریب ہوجاتی ہیں.

دنیا میں جن معاشروں نے سبق سیکھ لیا ہے وہ شاہراہ ترقی پر بسرعت گامزن ہیں اور جن معاشروں میں لوگ باہم دست گریبان اور حسد وبغض کا چلن رکھتے ہیں، وہاں کے حالات بھی سب سے سامنے ہیں. یاد رکھیں معاشروں کی ترقی کا راز مسابقت نہیں موافقت میں ہے. گزارش بس یہی ہے کہ سپیڈ بریکر نہ بنیں، ایک دوسرے کی راہ میں روڑے اٹکانے کی بجائے مددگار بنیں، دل بڑا کریں، مثبت فکر اپنائیں اچھی باتوں کو سراہیں، خرابیوں کی اصلاح کریں نہ کہ نتقیص و نتقید. اسی میں سب کا بھلا ہے اسی میں پاکستان کا بھلا ہے.