ہوم << اسرائیل: طاقت کے زور پر قائم ایک ناجائز ریاست - آصف رندھاوا

اسرائیل: طاقت کے زور پر قائم ایک ناجائز ریاست - آصف رندھاوا

اسرائیل کے وجود کے حوالے سے دنیا بھر میں ایک طویل عرصے سے بحث جاری ہے۔ بعض اسے قانونی ریاست سمجھتے ہیں جبکہ دیگر اسے ایک ناجائز اور غاصب ریاست قرار دیتے ہیں۔ اسرائیل کو کیوں ناجائز ریاست کہا جائے، اور کیسے اس کا قیام، بین الاقوامی قانون، اخلاقی اصولوں، اور آئینی تقاضوں کے سراسر خلاف تھا، اس پر ایک جامع تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔

1947 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 181 کے ذریعے فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ اس میں 55 فیصد علاقہ یہودی ریاست کو اور 45 فیصد عرب فلسطینی ریاست کو دینا تجویز کیا گیا جبکہ یروشلم کو بین الاقوامی زون قرار دیا گیا۔ اس قرارداد کو جنرل اسمبلی نے پیش کیا جو محض سفارش کی حیثیت رکھتی تھی اور اس کا نفاذ فریقین کی رضامندی پر منحصر تھا۔ عرب ریاستوں اور فلسطینی عوام نے اسے مسترد کر دیا جبکہ صہیونی تنظیموں نے اسے ایک وقتی قدم مان کر قبول کیا مگر جلد ہی اس سے تجاوز کرتے ہوئے طے شدہ حدود سے کہیں زیادہ زمین پر قبضہ کر لیا۔

1948 میں اسرائیل نے یکطرفہ طور پر آزاد ریاست ہونے کا اعلان کیا جس کے فوراً بعد سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا۔ اس واقعے کو نکبہ کہا جاتا ہے۔ پانچ سو سے زائد دیہات تباہ کیے گئے اور ہزاروں افراد قتل کیے گئے، جن میں دیریاسین جیسے سانحات شامل ہیں۔ یہ سب اقوامِ متحدہ کی قرارداد اور انسانی حقوق کے عالمی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی تھی۔

اسرائیل نے قیام کے بعد آج تک کوئی ایسا باقاعدہ آئین نافذ نہیں کیا جس میں واضح سرحدیں بیان ہوں۔ نہ اقوامِ متحدہ کی طے کردہ سرحدوں کو مکمل تسلیم کیا گیا اور نہ ہی 1967 میں قبضہ کیے گئے علاقوں سے دستبرداری اختیار کی گئی۔ اقوامِ متحدہ کی قرارداد 242 نے اسرائیل کو کہا کہ وہ قبضہ شدہ علاقوں سے نکلے مگر اسرائیل نے مسلسل انکار کیا۔

اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2(4) کے تحت کسی بھی ریاست کو دوسرے علاقے پر طاقت سے قبضے کی اجازت نہیں۔ بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے مغربی کنارے میں دیوار کی تعمیر اور یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ چوتھے جنیوا کنونشن کے مطابق مقبوضہ علاقوں میں اپنی آبادی منتقل کرنا ممنوع ہے، جو اسرائیل روزانہ کرتا ہے۔ لہٰذا اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں، جنیوا کنونشن، اور بین الاقوامی عدالتوں کے فیصلوں کو بارہا توڑا ہے، جو اس کے قیام اور توسیع کو قانونی جواز سے محروم کرتا ہے۔

ریاست کی قانونی تعریف مونٹی ویڈیو کنونشن 1933 کے مطابق چار شرائط درکار ہیں: مستقل آبادی، معیّن حدود، حکومت، اور بین الاقوامی تعلقات کی صلاحیت۔ اسرائیل کی حدود متعین نہیں، ہر سال نئی بستیوں کے ذریعے حدود پھیلائی جا رہی ہیں۔ حکومت صرف ایک نسل کو نمائندگی دیتی ہے، دیگر کو دباتی ہے، اور بین الاقوامی تعلقات صرف طاقت کے بل پر ہیں، اصول پر نہیں۔

ایک ریاست جو دوسروں کے گھروں پر قبضہ کرے، لاکھوں انسانوں کو مہاجر بنائے، نسل کشی کرے، محاصرہ کرے، پانی، بجلی، دوائیں بند کرے، مذہبی مقدسات کی بے حرمتی کرے، وہ نہ صرف غیر قانونی بلکہ اخلاقی طور پر بھی ناجائز ہے۔ اخلاقی ریاست انصاف، مساوات اور انسانیت کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے، نہ کہ توپ اور ٹینک پر۔

اقوامِ متحدہ نے درجنوں بار اسرائیلی اقدامات کی مذمت کی مگر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کی ویٹو پاور اور مسلم دنیا کی کمزوری اور انتشار ہے۔ اس دوہرے معیار نے ہی ایک ناجائز ریاست کو عالمی سطح پر تسلیم شدہ بنا دیا، مگر یہ تسلیم، انصاف کی نہیں، طاقت کی مہر ہے۔

قانونی اعتبار سے اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کے فیصلے پامال کیے، بین الاقوامی عدالتوں کے حکم نظر انداز کیے۔ اخلاقی اعتبار سے انسانی حقوق کی منظم پامالی، ظلم و جبر، قبضہ، بربادی اور نسل کشی کی۔ آئینی اعتبار سے کوئی واضح، حتمی اور جائز آئینی خاکہ موجود نہیں۔ لہٰذا اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے جس کا وجود طاقت سے ممکن ہوا، قانون سے نہیں — اور جس کی بقاء ظلم سے ممکن ہے، انصاف سے نہیں۔ امت مسلمہ، انسانیت اور انصاف پسند اقوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حقیقت کو بے نقاب کریں اور مظلوم فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت کو عالمی سطح پر اجاگر کریں۔