پنجاب میں ”مریم نوازکا پنجاب“ اصلاحاتی پروگرام جاری ہے جس کے تحت مختلف پروجیکٹس پرزور و شور سے کام جاری ہے۔انھی پروجیکٹس میں ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن بھی کیا جارہا ہے جس کے نتائج بازاروں اور سڑکوں کے وسیع ہونے کی صورت میں واضح دکھائی دے رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ناجائزتجاوزات کی بھر مار کی وجہ سے جہاں ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہورہی تھی وہاں ہی پیدل چلنے والوں کو بے حد مشکلات کا سامناکرنا پڑ رہا تھا۔ دکان داروں نے تو اپنی دکانوں کو نمایاں کرنے کے لیے اپنی دکان کے سامنے گزرتی فٹ پاتھ تک کو اپنی دکان میں شامل کیا ہوا تھا اور اپنی دکان کی مصنوعات سے لے کر اشتہاری بورڈ تک کو فٹ پاتھ پر رکھا ہوا تھا جس سے پیدل چلنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا. دکانوں کے باہر بڑے بڑے چھپر لگا کر دکان داروں نے اپنی دکان کی مصنوعات کو وہاں لٹکایا ہوتا تھا،اس کے علاوہ دکان داروں نے اپنی دکان کے سامنے موجود سرکاری اراضی کو اپنے حصہ میں ایسے شامل کیا ہوا تھا کہ وہاں اگر کوئی ریڑھی لگاتا یا پھر کوئی تھڑا لگاتا تو اس سے دکان دار باقاعدہ اس ریڑھی یا تھڑے کا کرایہ وصول کرتے تھے،دکانوں کے سامنے سرکاری زمین پر پختہ سیڑھیاں بنا کر اس کو بھی اپنی ملکیت کیا ہوا تھاجہاں یہ اپنی دکانوں کے کاؤنٹرز وغیرہ کو رکھتے تھے۔ ان سب تجاوزات کی بھر مار نے بازاروں اور سڑکوں کا حقیقی ایریا اتنا چھوٹا کردیا تھا کہ وہاں سے گاڑیوں کی آمدورفت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی آمدورفت بھی شدید متاثر ہورہی تھی۔
تجاوزات کی اس بھر مار کی وجہ سے جہاں آمدورفت کے مسائل بڑھ رہے تھے وہاں ہی آئے دن گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑے کے واقعات بھی بڑھتے جارہے تھے۔اوپر سے کاروباری حضرات کا غرور وتکبر اس حد تک تجاوز کرچکا تھا کہ وہ سیدھی بات ماننے کو بھی تیار نہیں ہوتے تھے۔ کئی بار دکانوں کے باہر لٹکی کسی چیز سے اگر کسی پیدل چلنے والے کی ٹکر ہوجاتی تو دکان دار حضرات نہ صرف گالم گلوچ سے اس پیدل چلنے والے کو نوازتے بلکہ کئی تو اپنے پیسہ اور جسمانی طاقت کے نشے میں بدمست اس پیدل چلنے والے سے ہاتھا پائی کر جاتے تھے۔ یہ قطعاًکوئی مفروضہ اور اپنے پاس سے گھڑی ہوئی بات نہیں ہے اس کا مشاہدہ میں کئی بار بازاروں میں کرچکا ہوں اور کئی بار میرے سامنے ایسے واقعات ہوئے ہیں۔خیر غرور وتکبرجیسا بھی ہو اللہ تعالیٰ اس کو کسی نہ کسی طرح نکال ہی دیتا ہے چاہے وہ ایک چیونٹی سے نکلے یا چاہے وہ کسی ننھے سے پرندے سے نکلے۔
ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن کایہ ایک پہلو ہے جو میں اوپر لکھ چکا ہوں اور اگر اس کو دیکھا جائے جانچا جائے یا پرکھا جائے توگورنمنٹ کا ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن قابل تعریف ہے اور ویسے بھی راستے روکنا یا راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنا کہ جس سے آمدورفت متاثر ہو نہ مذہبی طور پر درست ہے نہ قانونی طور پر اور نہ ہی اخلاقی طور پر۔گورنمنٹ کے اس اقدام کی سب تعریف کریں گے اور کرنی بھی چاہیے حتیٰ کہ دکان دار حضرات جو ناجائز تجاوزات کی وجہ سے نقصان میں مبتلا ہوئے وہ بھی اس اقدام کی تعریف کریں گے مگر اس کے ساتھ ایک اور پہلو بھی اس آپریشن کا ہے وہ پہلو میں لکھنے سے پہلے یا اس پر بحث کرنے سے پہلے یہاں ایک دکان دار کاحال بیان کروں گا:
اس دکان دارکی عمر کوئی پچاس پچپن سال کے لگ بھگ ہوگی(یہاں اس دکان دار کا نام لکھنا مناسب نہیں)۔آج سے پندرہ بیس سال پہلے یہ یہاں بازار میں ایک بڑی جیولری شاپ کا مالک تھا کام دھندا بہت اچھا تھا۔اللہ نے اولاد کی نعمت سے نوازا،کاروبار بھی اچھا چل رہا تھا کہ اچانک کچھ عرصہ بعد ہی پتا چلا کہ اس کے تینوں بچے ایک مہلک اور جان لیوا مرض میں مبتلا ہیں۔ پریشانی تو تھی ہی تھی ساتھ ہی کاروبار شدید متاثر ہوا کہ کاروبار کو نہ وقت دے سکا اور نہ ہی کاروبار کو اچھے سے چلا سکا۔عزیزو اقارب دوست احباب سب سائیڈ پر ہوگئے تو دکان ختم کرنی پڑی ہاں البتہ ایک دوست نے تعاون کیا اور اسے اپنی دکان کے سامنے بغیرکرایے کے ایک چھوٹا سا تھڑا لگانے کی اجازت دے دی مگر شرط یہ تھی کہ جب اس کادوست اپنی دکان پر نہیں ہوگا تو یہ اس کی دکان کی بھی دیکھ بھال بلامعاوضہ کرے گا۔
اس نے اپنے تھڑے پر دس دس بیس بیس روپے والے کچھ آئٹمز رکھے ہوئے تھے کہ نہ اس کے پاس اتنی انویسٹمنٹ تھی کہ وہ مہنگی چیزیں رکھ سکے اور نہ ہی اس پر کوئی کاروباری ڈیلر اعتبار کرکے ادھار دینے کو تیار ہے۔اب یہ اس تھڑے پر اپنی دیہاڑی لگاتااسی دوران اگر بچوں میں سے کسی کی طبیعت بگڑجائے تو یہ اس تھڑے کو اسی حالت میں چھوڑ کر گھرجاتا وہاں سے اپنے بچے کو کسی سواری میں بیٹھا کر ہسپتال لے جاتا،یہ اگر ہسپتال سے جلدی فارغ ہوجائے تو تھڑا بند کرنے بازارآجاتا اور اگر جلدی فارغ نہ ہوتو اس کا یہ چھوٹا سا تھڑا اسی طرح لوگوں کے رحم و کرم پر پڑا رہتا تھا۔تھڑے پر جو چیز بکتی ہے یہ اس سے ایک تو کم ہونے والا سامان منگواتا ہے، گورنمنٹ کو روزانہ کا پرچی ٹیکس بھی دیتا ہے اور جو تھوڑے بہت پیسے بچ جاتے ہیں ان سے گھر کا راشن یا کھانے پینے کا کچھ سامان لے کر جاتا ہے۔زندگی کے ماہ و سال وہ اسی طرح گزار رہا ہے کہ اس کی فیملی کا گزر بسر یہ تھڑ ا ہے اور اس تھڑے سے فروخت ہونے والے کم قیمت کم منافع آئٹمز ہیں۔
اب ہوا کیا کہ اس آپریشن میں اس کا تھڑا بھی ناجائز تجاوزات کی مد میں آکر ختم ہوا، کوئی دکان دار اسے اپنی دکان میں جگہ دینے کو تیار نہیں اور نہ وہ دے سکتا ہے کیوں کہ دکان داروں کی اپنی دکانیں ناجائز تجاوزات کے ختم ہونے سے اتنی بھر چکی ہیں کہ وہاں جگہ ہی نہیں، کوئی دکان دار اسے نوکری دینے کو بھی تیار نہیں کہ پہلے ہی پچھلے ڈھائی تین سال سے کاروبار اتنا شدید متاثر ہے کہ دکان داروں کے اپنے اخراجات پورے کرنا بھی مشکل ہورہے ہیں،جمع پونجی اس کے پاس ہے نہیں کہ یہ کچھ عرصہ اس کے بل بوتے پر گھر کے اخراجات کا سلسلہ چلا کر کسی اور جگہ کاروباری سرگرمیوں کو جاری رکھ سکے،ادھاراور امداد میں یہ اتنا پھنس چکا ہے کہ مزید ادھاراور امداد اسے کوئی دینے کے لیے تیار نہیں، دوست احباب اسے دیکھ کر گلی بدل جاتے ہیں جب کہ عزیزو اقارب تو پہلے ہی منہ پھیر چکے ہیں۔۔۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ کیا کرے اور کہاں اپنا کاروباری مسکن بنائے کہ اپنے گھریلواخراجات کو پورا کرسکے۔ گورنمنٹ نے ناجائز تجاوزات ختم تو کی ہیں مگر کیایہ یا اس جیسے دوسرے دیہاڑی دار غریب لوگوں کے لیے کچھ نعم البدل دیا ہے یا کچھ نعم البدل دینے تک کچھ امدادی سلسلہ فراہم کیا ہے؟ اگر تو سلسلہ کوئی ہے تو پھر تو ٹھیک ہے لیکن اگر نہیں ہے تو پھر گورنمنٹ کو پہلے یہ چاہیے تھا کہ ایک سروے کرکے ایسے غریب و لاچار تھڑے اور ریڑھی والوں کا ڈیٹا جمع کرتے پھر ان کو کچھ نعم البدل فراہم کرتے اس کے بعد اگر یہ پھر بھی ناجائز تجاوزات پر ہی انحصار کرتے تو ان کے خلاف نہ صرف آپریشن کیا جاتا بلکہ جرمانہ بھی کیا جاتا۔لیکن جب ان دیہاڑی دار غریب و لاچار لوگوں کو نعم البدل دیا ہی نہیں گیا اور ایک مخصوص وقت دے کر اعلان کیا گیا کہ ناجائز تجاوزات کو ختم کیاجائے گا تو اس قسم کے غریب و لاچار لوگ جو روزانہ کی فروخت پر ہی اپنے معاشی معمولات زندگی گزار رہے تھے وہ کیا کریں اور کہاں جائیں؟یہ نہ صرف سوال ہے بلکہ یہ سوال ایک مناسب حل کا بھی متلاشی ہے۔
دوپڑھے لکھے صاحبان سے جب اس بابت بات ہوئی تو وہ فرمانے لگے کہ گورنمنٹ کھوکھے بنا رہی ہے اورمزید اصلاحاتی پلان بھی کررہی ہے۔ گورنمنٹ کہاں کھوکھے بنا رہی ہے اور کیسا پلان بنا رہی ہے یہ ان پڑھے لکھے صاحبان کو خوب پتا ہو گا ، میرے شہر میں کہیں بھی ایساکوئی پروجیکٹ شروع نہیں ہوا ہے۔اللہ کرے کھوکھے بنیں او ر ایسے غریب و لاچار لوگوں کو مناسب کرایہ او رآسان اقساط پر یہ کھوکھے ملیں۔اللہ کرے کہ یہ کھوکھے غریب و لاچارلوگوں کوسیاسی سفارش اور رشوت کے بنا ملیں۔مگر سوال یہ ہے کہ جو بندہ روزانہ کی کمائی سے گھر کا خرچہ چلاتا ہے وہ ان کھوکھوں کے بننے تک کیا کرے گا؟ گورنمنٹ نے کیا انھیں بجلی اور گیس کے ظالمانہ بلوں میں چھوٹ دی ہے؟ کیا گورنمنٹ نے ان کے لیے فری راشن کا بندوبست کیا ہے؟ کیا گورنمنٹ نے ان کے لیے فری علاج معالجہ اور ادویات کا بندوبست کیا ہے؟ اگر تو نہیں کیا ہے تو گورنمنٹ کو اس پر عملی کام جلد از جلد کرناچاہیے تاکہ ان غریب و لاچار لوگوں کی دادرسی ہوسکے۔
اوپر لکھی گئی رودادصرف ایک تھڑے والے کی نہیں ہے،آپ بازار جائیں تو آپ کو ایسے بے شمار غریب و لاچار لوگ ملیں گے جوبازار میں کسی گھر کے سامنے تھوڑی سی جگہ پر تھڑا لگا کر دس روپے مال بیس روپے مال بیچ رہے ہوں گے سبزی بازار جائیں تو بے شمار ایسے سبزی فروخت ملیں گے جو روڈ پر چادر بچھائے یا ہتھ ریڑھی لگائے ایک سائیڈ پر تھوڑی سی سبزی رکھے اسے بیچ رہے ہوں گے۔یہاں بازار میں ہی آپ کوبڑے بڑے دکان داردکھائی دیں گے جنھوں نے نہ صرف ناجائز تجاوزات بنائی ہوئی ہیں بلکہ اپنی دکان کو فرنٹ سے اتنا وسیع وعریض کیا ہوا ہے کہ گھمان یہی ہوتا ہے کہ یہ حصہ بھی ان کی دکان میں شامل ہے، یہ اگر اس ناجائزتجاوزات آپریشن کی زد میں آئے ہیں تویہ کوئی گودام یا ایکسٹرا دکان لے کر وہ سامان جو اپنی دکان کے باہر رکھا ہوا تھا اس کو وہاں شفٹ کرسکتے ہیں مگرایسے غریب و لاچار لوگ جو دس دس بیس بیس روپے کی چیزیں بیچ کر دن گزار رہے ہیں وہ کیا کریں گے؟ان کے لیے نعم البدل ضروری ہے اور وہ بھی جلداز جلد۔
تبصرہ لکھیے