ہوم << جوجانا چاہو ہزار رستے، سفرنامہ مولہ چٹوک - نسرین غوری

جوجانا چاہو ہزار رستے، سفرنامہ مولہ چٹوک - نسرین غوری

نسرین غوری مولہ چٹوک بلوچستان کے ضلع خضدار کی ایک تحصیل مولہ میں واقع ایک تفریحی مقام ہے جو پہاڑوں میں پوشیدہ آبشاروں پر مشتمل ہے، یہ صرف ایک جنت نظیر مقام ہے، اور بلوچستان ایسے جنت نظیر مقاموں سے بھرا پڑا ہے جو کم ایکسپوژر اور زیادہ غلط فہمیوں کے باعث زیادہ تر سیاحوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاحت کا مطلب صرف شمالی علاقوں کی سیاحت لیا جاتا ہے جبکہ ہمارے جنوبی علاقے جنت نظیر اور متفرق لینڈ اسکیپ سے مزین لیکن نگاہوں سے اوجھل ہیں۔
“معاف کیجیے گا”
دماغ بولا: ”اتنا مہنگا ٹرپ اور وہ بھی اتنی جلدی“
دل بولا: ”ایک ہی تو شوق ہے تمہارا“
”نہ تمہیں ڈیزائنرز لان کا شوق“
”نہ میک اپ کا خرچہ، نہ زیور کی حسرت“
”بس ایک سیر و تفریح ہی تو ہے“
”کیا ہوا جو ایک مہنگا ٹور کر لیا“
”جگہ بھی تو ایسی ہے کہ اپنے طور پر جانا مشکل ہے۔“
اور بس اسی آخری پوائنٹ پر آکر ہم مار کھا گئے ۔ وہ جو پنجابی میں کہتے ہیں نا کہ ”من حرامی تے حجتاں ہزار“، اسی مثال کے مترادف جب سے ہمیں پتا لگا تھا کہ موُلہ چٹوک کا
پروگرام بن رہا ہے، ہم دل ہی دل میں پروگرام میں شمولیت کے لیے بہانے اکٹھے کر رہے تھے۔ ابھی پچھلے مہینے بھی سکھر/خیر پور کا ٹور لگایا تھا اور اب اتنی جلدی دوبارہ جاتے
ہوئے کچھ ہینکی پینکی ہو رہی تھی۔ جو اپنی فیملی یا دوستوں کے ساتھ ٹرپ پر گیا ہوا ہو، اسے ٹوور آپریٹر ہمیشہ مہنگے لگتے ہیں اور ویسے بھی غربت کا تعلق پیسوں سے کم اور ذہنیت سے زیادہ ہوتا ہے، غریب لوگ کشادہ دامن بھی ہوجائیں تو ذہنی طور پر جوڑ توڑ میں ہی لگے رہتے ہیں اور ان کا بس چلے تو سچ مچ پیسے دانتوں سے پکڑ پکڑ کر خرچ کریں۔ اسی ذہنی غربت کے باعث ہم ٹوور آپریٹرز کے ساتھ ٹوورز پر جانے کے حق میں نہیں ہیں۔ کیونکہ ٹوور آپریٹر کے ساتھ جتنے پیسوں میں بندہ اکیلا سیر کر کے آتا ہے، اس میں دو ایک ہزار مزید شامل کر کے پوری فیملی اپنی گاڑی میں کہیں نہ کہیں سے ہو کر آسکتی ہے۔ سو ایسے ٹرپس کے بعد بندہ شرمندہ شرمندہ رہتا ہے کہ انھی پیسوں میں ساری فیملی انجوائے کر سکتی تھی ۔
پہلے ابا کو آفر کی کہ آپ ساتھ چلیں، ویسے بھی وہاں پانی ہے جس میں حضرات ہی ڈبکیاں لگا سکتے ہیں، تو آپ کا جانا زیادہ مناسب ہے، ابا صاف انکار کرگئے، کہ میں تو اتنے پیسوں میں چار پروگرام کر آؤں گا ۔ لو جی وہ بھی ہمارے ہی ابا نکلے۔ ان کے انکار کے بعد ہم دوبارہ سوچ بچار میں غرق، جائیں کہ نہ جائیں، پر آخری بہانہ اتنا تگڑا تھا کہ سوچا
دوبارہ پتا نہیں چانس بنے نہ بنے، شہر روغاں والا چانس بھی مس کر کے ابھی تک راہ تک رہے ہیں۔
ایک سہیلی کو پٹانے کی کوشش کی کہ کم از کم ٹرپ پر ایک خاتون تو ہمارے ساتھ ہو، جس نے ہمیشہ کی طرح اتنے نخرے دکھائے کہ اللہ کی پناہ، پر وہ سہیلی ہی کیا جو نخرے
نہ دکھائے۔ ایک اور جاننے والے صاحب نے دریافت کیا
”آر یو اِن فار مولہ چٹوک؟“
”ہاں جی بالکل اِن“
”میں بھی اِن“
اگلا سوال: ”فیس جمع کروادی؟“
”نہ جی، ہم تو اندر کے لوگ ہیں ابھی تک کسی نے مانگی ہی نہیں ہم سے :D“
”ہم تو باہر کے لوگ ہیں، اس لیے جمع کروادی“
پھر ہم نے بھی جمع کروادی کہ دل کہیں تو ٹھکانہ کرے اور دماغ کو بھی کچھ سکون پہنچے۔ کہیں دل، دماغ کے آگے دل ہی نہ مار جائے۔ پتا لگا کہ سہیلی نے بھی کچھ ایسا ہی کیا ہے۔
لیکن ہم پہلے ہی کنفرم کر چکے تھے کہ ہم اندھوں میں کانا راجہ، سوری رانی تو نہیں ہوں گے۔ پتا لگا ہمارے ایسے نصیب کہاں۔ تھوڑی دل اور زیادہ زمانے کی تسلی کے لیے ایک آدھ خاتون بطور تبرک پروگرام میں شامل ہوں تو کوئی حرج بھی نہیں۔ حفظ ماتقدم کے طور پر ہم نے ”ٹو آئی سی“ سے یہ بھی دریافت کر لیا تھا کہ ٹرپ پر منحوس میوزک والی کلاس کے کتنے لوگ ہوں گے۔ اورکسی غیر متوقع صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنا ٹیبلٹ تیار کر کے رکھ لیا۔
پچھلے ٹرپ پر منحوس میوزک کلاس نے ہمیں صحیح سے دم پخت کر دیا تھا۔ اب ہم رسک لینے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔ منحوس میوزک وہ ہوتا ہے جو بقول شخصے اگر دو ٹرک آپس میں ٹکرا جائیں جن میں سے ایک پر دودھ کےخالی ڈرم اور دوسرے پر مویشی لدے ہوں تو اس ٹکر کے بعد جو شور سا اٹھتا ہے اس سے کچھ کچھ ملتا جلتا ہوتا ہے، اور اس پر مزید یہ کہ اس کلاس میں کوئی بھی گانا، خواہ وہ کیسا بھی ہو، پورا سننا حرام ہوتا ہے۔ ہر تیس سیکنڈز کے بعد گانا تبدیل کرنا عین فرض سمجھا جاتا ہے۔ گانا بھلے ”چٹیاں کلائیاں“ یا ”بے بی ڈول میں سونے دی“ ہی ہو، پر اللہ کے بندو پورا تو سننے دو ، پر نہ ناں ، نہ ناں 😛
سہیلی سے طے ہوا کہ ہم ان کے میز بان ہوں گے اور ہمارے غریب خانے سے ہم دونوں کو کوئی نہ کوئی مقام روانگی پر ڈراپ کردے گا۔ وقت رخصت از کراچی حسب معمول بروز جمعہ آدھی رات طے تھا، عین وقت پر پتہ لگا کہ مقام رخصت تبدیل کر کے شمال سے جنوب کی سمت منتقل کر دیا گیا ہے۔ ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، کراچی کے جنوب سے ہماری کوئی خاص جان پہچان نہیں ہے اور وہ بھی آدھی رات کو جب ہمیں اپنے دیکھے بھالے راستے بھی پہچاننے مشکل ہوتے ہیں۔ ایمرجنسی میں دوبارہ طے ہوا کہ اب ہم میزبان نہیں بلکہ سہیلی کے مہمان بنیں گے اور انہیں چُک کے مقام روانگی پہنچیں گے، جہاں سے ہماری شہزادی المعروف ہماری پیاری ہائی روف دی لیڈر کے گھر پر دو دن آرام کرنے جائے گی۔ لشتم پشتم کراچی کے ایک سرے سے کراچی کے دوسرے سرے پر ان کے گھر پہنچے، سر سے پیر تک شرابور، کیونکہ ہماری ہائی روف خیر سے شاہی سواری ہے۔ یاد رہے شاہی سواری میں اے سی نہیں ہوتا تھا۔ سہیلی نے ہمیں چائے پانی وغیرہ پینے کی زحمت دیے بغیر بس ایک جھپی سے نوازا اور بولیں" چلو "۔ اور ہم چل پڑے ، اور دونوں مل کر کراچی میں کھو گئے۔ ادھر ادھر ٹکریں مارتے ہوئے بمشکل تمام اس ڈیٹ پوائنٹ تک پہنچے جہاں آج کم از کم 50 بندے اجتماعی لیکن امریکی ڈیٹ پر تھے۔
وقت کی پابندی ہماری گھٹی میں پڑی ہے نتیجہ ہر شادی میں وقت پر پہنچ کر بارات کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں یا پھر ہر ٹریننگ سیشن میں وقت پر پہنچ کر لیٹ آنے والوں کے حصے کی ڈانٹ سن رہے ہوتے ہیں. یہاں بھی مقررہ وقت پر پہنچ گئے اور بالترتیب دعا سلام خیریت نیک مطلوب کرنے کے بعد حسب عادت و معمول زور و شور سے بور ہونے لگے، باقی پبلک نے اپنے اپنے موبائل میں منہ دے لیا اور ہم سب کا منہ دیکھنے لگے کہ ہمارا ٹیبلٹ نیا نیا فوت ہوا تھا اور اب صرف گانے سنانے کے لائق ہی رہ گیا تھا۔ اور ہم ابھی سے اس کی بیٹری خرچ کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔
گھر سے چلتے ہوئے بہن نے کہا بھی کہ کچھ کھا لو بھوکی جارہی ہو، ہم نے سوچا کہ درمیان میں سہیلی کے گھر اسٹاپ اوور بھی ہے ، اس نے ہمیں سوکھے منہ تھوڑی ناں لوٹا دینا
ہے، لیکن گھر حلوہ تو باہر حلوہ ، اب پیٹ میں چوہے گلی ڈنڈا کھیلنے لگے تھے۔ سو کچھ پیٹ پوجا کا انتظام کیا، اور آئندہ کے لیے اسکارف کے پلو میں گرہ باندھ لی کہ چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہو رہی ہو، زلزلہ، آندھی، طوفان آ رہا ہو، گروپ ہمیں چھوڑ کر روانہ ہوجائے لیکن گھر سے پیٹ بھر کے نکلنا ہے۔ اسی دوران ہمارے تیسرے ساتھی بھی آچکے تھے۔
تقریباً نصف شب کے بعدباراتیوں کی آمد شروع ہوئی، ہمارا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ ایک کوسٹر کے لوگ ہوں گے، پر پتا لگا کہ دائیں بائیں جتنے بھی چہرے تھے وہ ہمارے ہی چہرے تھے یعنی ہمارے پروگرام میں شامل چہرے۔ یعنی واقعی پوری بارات کا ”سامان“ تیار تھا۔ دو چار جانے پہچانے چہرے ، زیادہ تر انجان چہرے۔ جو شاید جانے پہچانے ہوجانے تھے، لیکن یہ خیال ابھی قبل از وقت تھا۔
ویسے تجربہ یہ بتاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ 8 سے 10 افراد کا گروپ ہو تو سارے آپس میں تقریباً دوست بن ہی جاتے ہیں، اس سے زیادہ ہوں تو انجان ہی جاتے ہیں اور جیسے جاتے ہیں تقریباً ویسے ہی واپس بھی آجاتے ہیں، جتنے زیادہ گروپ ممبر ہوں اتنی زیادہ اجنبیت برقرار رہتی ہے۔ اور جتنی زیادہ خواتین ہوں اتنی ہی شدید اجنبیت ہوگی۔ شاید یہ بندے
بندے پر منحصر ہو ، لیکن ہم پر ہرگز منحصر نہیں۔ ہم خاصے روکھے ہیں اس معاملے میں اور اسی طرح خوش ہیں۔
اللہ اللہ کر کے سب جمع ہوئے، کوچ کا نقارہ نہیں بج سکا کیوں کہ آج کل نقارے آسانی سے دستیاب نہیں ہوتے۔ قبل از کوچ ہم ایک بندے کے حوالے کیے گئے کہ ان کے پیچھے پیچھے جائیں اور اپنی گاڑی پارک کر آئیں، اور ہم، ہم مسوم ، ایک بار پھر کھو گئے۔ اب اس میں ہمارا کیا قصور کہ جس سفید گاڑی کے پیچھے ہم چلے تھے ، موصوف اس گاڑی میں تھے ہی نہیں ، گاڑی کیسے تبدیل ہوئی جبکہ ہم نے ایک لمحے بھی گاڑی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دی، ہم آج تک حیران پریشان، جنگل بیابان ہیں۔
شکر خدا کا کہ بندے نے خود ہی ہمیں تلاش کرلیا، لیکن وہ چند منٹ بہت ہی بھاری تھے، نانی یاد آگئی قسم سے۔ ذرا تصور کریں کہ رات کے تقریباً ڈیڑھ بجے کلفٹن دو یا تین تلوار کے پاس ہائی روف میں تنہا خاتون اور وہ بھی عجیب و غریب قسم کے رنگ برنگے تفریحی حلیے میں۔ سنسان سڑک پر کسی رکشے یا ٹیکسی والے نے یا کسی پولیس والے نے ہی مزاج دریافت کر لیے ہوتے تو ہوگئی تھی عزت ، بلکہ عزت کا فالودہ ہوجانا تھا۔
(جاری ہے)
سفر نامے کا دوسرا حصہ یہاں پڑھیے
سفرنامے کا تیسرا حصہ یہاں پڑھیے

Comments

Click here to post a comment