ہوم << خطبائے مساجد سے چند گذارشات- عبدالمالک بگٹی

خطبائے مساجد سے چند گذارشات- عبدالمالک بگٹی

راقم الحروف مسجد کا امام و خطیب ہے، اور خوش قسمتی سے سارے مقتدی بھی پڑھے لکھے ملے اور اس وقت اچھے عہدوں پر ہیں . جب اس مسجد میں میری تقرری عمل میں آئی تو اس وقت میری فراغت کو ایک دو ہفتے ہی ہوئے تھے ۔ اور میری خوش بختی کی انتہا کہ ڈاکٹر عمر فاروق صاحب کی صورت میں مسجد کمیٹی کا صدر نصیب ہوا، جسمانی معالج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین مربی اور دیندار انسان ہیں۔

پہلے ہی دن  ڈاکٹر صاحب نے  چند نصحتیں کیں جو میرے لیے آنے والے وقت میں مشعل راہ ثابت ہوئیں اور بہت ہی نفع ہوا، خیال ہوا کہ ان نصائح کو اپنے ہم منصب حضرات سے  شئیر کروں تاکہ کسی کا فائدہ ہو ۔

پہلی نصحیت : کسی بھی مجمع میں گفتگو کرنے سے قبل یہ بات اپنے  ذہن میں اچھی طرح پختہ کریں کہ اس مجمع میں میری کیا حیثیت اور مقام ہے ؟ اور میرے سامنے بیٹھے ہوئے سامعین کا مقام و مرتبہ کیا ہے اور ان کی ذہنی سطح کیا ہے ؟ ان دو امور کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی معروضات پیش کریں۔  اس حقیقت کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے سامعین پر خطیب صاحب کی گفتگو اثر انداز نہیں ہوتا اور وہ اس سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ ہمارا خطیب صاحب کس تناظر میں گفتگو کررہے ہیں ؟ کیونکہ بسا اوقات خطیب اپنا مقام و مرتبہ بھول کر ایسی گفتگو کرتا ہے کہ سامع حیران ہو جاتا ہے کہ ہ خطیب صاحب کیسی بچوں والی باتیں کررہے ہیں۔ اور بسا اوقات سامعین کے مقام و مرتبہ کو ملحوظ خاطر نہ رکھنے کی وجہ سے تو وہ باتیں مجمع میں بیان کی جاتی ہیں جو وہاں نہیں کرنی ہوتی ۔

ابھی چند ہفتے قبل راقم السطور کو ایک سیاسی جماعت کے تربیتی کنونشن میں شرکت کا موقع ملا تو ایک مقرر صاحب نے پورا بیان ہی مدارس اور چندے کے خلاف داغ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی، اور ہم پریشان کہ ہماری تربیت سے ان چندوں کا کیا لینا دینا ۔

اسی طرح ایک جلسے میں مجھ راقم الحروف کو اسٹیج سیکرٹری صاحب نے بڑے القابات کے سابقے لاحقے لگا کر اسٹیج پر بلایا اور مجھے موضوع دیا کہ ختم نبوت کو دلائل سے ثابت کروں، میں خود پریشان کہ اس مجمع میں جو بمشکل سو دو سو نفوس پر مشتمل ہے اور سب کے سب وہ لوگ جن بیچاروں کا کلمہ تک درست نہیں ان کے سامنے کیسے ختم نبوت دلائل سے ثابت کروں؟

دوسری نصیحت: یہ ہے کہ کسی بھی دینی محفل میں شریک ہوں اور بات کرنے کا موقع ملے تو اس سے قبل اس بات کا ضرور تصور کیجئے کہ سامعین نے اپنا قیمتی وقت مجھے دیا ہے میں اس دس پندرہ منٹ میں ان کو کیا فایدہ دے سکتا ہوں اور جب گفتگو ختم ہو تو سوچ لیں کہ میری گفتگو نے عملی زندگی میں ان حضرات کو کہاں تک نفع پہنچایا ۔ اس تصور سے ہم اپنی گفتگو کو زیادہ معنی خیز اور مفید بنا سکتے ہیں۔

اور تیسری نصحیت: یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی کسی مسئلے پر گفتگو کریں تو یہ بات کو اچھی طرح ذہن نشین کریں کہ زیر بحث مسئلہ کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟؟؟؟ کیا اس کا درجہ فرض کا ہے؟؟ یا واجب، نفل یا مستحب کا درجہ رکھتا ہے؟؟؟ اور اسی طرح اس بات کی بھی تحقیق ہو کہ جس منکرات پر میں تنقید کررہا ہوں اس کا درجہ شریعت میں کیا ہے ؟؟؟ حرام ہے ؟یا کہ مکروہ تحریمی و تنزیہی کا درجہ رکھتا ہے؟

انہی درجات کے تفاوت کو مدنظر رکھ اسی جیسا لب و لہجہ اختیار کرنے کی کوشش کریں ہے۔ بسا اوقات ہم تارکین مستحب و نوافل پر اس طرح تنقید کررہے ہوتے ہیں جیسا کہ وہ فرض کا تارک ہو۔  اور بالکل اسی طرح مکروہ تنزیہی کے مرتکب پر حرام کام کے مرتکب کی طرح تنقید کررہے ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بات مخالفت تک بڑھتی ہے اور سامعین میں ایک قسم کے تشدد کا رجحان نشوونما پاتا ہے اور پھر معاشرے میں ہیجان اور بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ 

ان نصیحتوں پر عمل کرنے کے ثمرات ان شاءاللہ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان نصائح پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین