فاٹا میں قائم وفاقی انفراسٹرکچر پر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ صحت سے لے کر تعلیم تک، ہر ڈیپارٹمنٹ موجود ہے مگر فعال نہیں ہے. فاٹا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی، فاٹا ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی، فاریسٹ، ایری گیشن، فشریز، لائیو اسٹاک اینڈ ڈیری دیویلپمنٹ، ایگری کلچر، سوشل ویلفیئر، روڈز، اسپورٹس ڈیپارٹمنٹ، مائنرل اینڈ ٹیکنکل ایجوکیشن، فنانس ڈیپارٹمنٹ، لا اینڈ آرڈرسے لے کر ایڈمنسٹریشن اینڈ انفراسٹرکچر تک تمام ادارے اور ان کے ملازمین موجود ہیں جبکہ فوج الگ سے خدمات سرانجام دے رہی ہے، پولیس کی جگہ خاصہ دار اور لیوی کے نام سے فورس ہر قبائلی ایجنسی میں موجود ہے، ایم این اے اور سینٹیرز بھی وفاق میں موجود ہیں، اگر کمی ہے تو صرف صوبائی اسمبلی اور لوکل گورنمنٹ کی جس کا قیام کوئی مشکل نہیں. اس کے باوجود چند لوگ اس پورے نظام کو لپیٹ کر فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے لیے لابنگ کررہے ہیں، جبکہ فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کے لیے آئین میں سب سے زیادہ گنجائش موجود ہے تو پھر قبائل کی آواز کو کیوں نظرانداز کیا جا رہا ہے؟ قبائل آج بھی خود مختاری اور الگ نظام اور الگ پہچان کے ساتھ الگ صوبے کی شکل میں زیادہ اطمینان محسوس کریں گے. گلگت بلتستان صوبہ بن سکتا ہے تو فاٹا کیوں نہیں؟ قبائلی عمائدین نے جرگے کیے، فاٹا کے 6 قبائلی علاقوں اور 7 ایجنسیوں کے عمائدین کے جرگے میں متفقہ طور پر فاٹا اصلاحات بل کو مسترد کرتے ہوئے فاٹا کو گلگت بلتستان کی طرح علیحدہ صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ جرگے میں کہا گیا کہ چند پارلیمینٹیرین قبائلی عوام کی نمائندگی نہیں کرتے۔ خیبر پختونخوا پہلے ہی متاثرہ صوبہ ہے، اگر فاٹا کو بھی اس میں ضم کردیا گیا تو مسائل میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
فاٹا کا صوبہ بننا کیوں ضروری ہے؟ بادشاہ خان

تبصرہ لکھیے