ہوم << نوجوانوں کی بے سمتی: قصوروار کون؟ عبیداللہ فاروق

نوجوانوں کی بے سمتی: قصوروار کون؟ عبیداللہ فاروق

یہ نوجوان ہیں جو کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں، اس کے خوابوں کی تعبیر، اس کے عزائم کی روشنی، اور اس کے امکانات کا مرکز۔ مگر جب یہی نوجوان بے سمتی کا شکار ہو جائیں، تو سمجھ لیجیے کہ مستقبل کی عمارت کی بنیادیں کمزور ہو رہی ہیں۔ آج اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو ہمیں لاکھوں نوجوان نظر آئیں گے جو یا تو بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں، یا پھر ایک ایسی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں جس کی کوئی منزل ہی نہیں۔ وہ کشمکش میں مبتلا ہیں کہ آگے بڑھیں تو کس سمت؟ ہاتھ میں ڈگریاں ہیں، مگر نوکریاں نہیں، ذہن میں خواب ہیں، مگر راستے بند ہیں، دل میں عزم ہے، مگر کوئی راہنما نہیں!

یہ بے سمتی پیدا کیسے ہوئی؟ قصوروار کون ہے؟ کیا یہ نظام ہے جو نوجوانوں کو راستہ دینے میں ناکام ہو چکا؟ کیا یہ تعلیمی نصاب ہے جو صرف کتابی کیڑے پیدا کر رہا ہے مگر عملی میدان میں کچھ دینے سے قاصر ہے؟ یا پھر خود نوجوان ہی اپنی غفلت، سوشل میڈیا کی لت، اور سہل پسندی کے باعث گمراہی میں مبتلا ہیں؟

نظامِ تعلیم یا کارخانۂ ڈگریاں؟
ہمارے تعلیمی ادارے ایسے کارخانے بن چکے ہیں جہاں صرف رٹے لگانے، نمبروں کی دوڑ میں شامل ہونے، اور ڈگریاں حاصل کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ یہاں نہ تخلیقی سوچ پیدا کی جاتی ہے، نہ عملی مہارتوں پر زور دیا جاتا ہے، اور نہ ہی نوجوانوں کو ان کی حقیقی صلاحیتوں کے مطابق سمت دکھائی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب وہ عملی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو ان کے پاس صرف کاغذ کے ٹکڑے (ڈگریاں) ہوتے ہیں، مگر مہارت نہیں، اعتماد نہیں، اور سب سے بڑھ کر مقصد نہیں!

معاشرتی دباؤ اور والدین کی توقعات
ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کو ان کی اپنی پسند کا راستہ چننے کی آزادی کم ہی دی جاتی ہے۔ والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ ڈاکٹر بنے، انجینئر بنے، یا کوئی بڑی نوکری حاصل کرے۔ کسی کے لیے یہ قابل قبول نہیں کہ بچہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق کچھ کرے، چاہے وہ کوئی فنکار ہو، کوئی کاروباری شخصیت بننا چاہے، یا کوئی نیا راستہ اپنانا چاہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نوجوان اپنی اصل دلچسپی کھو بیٹھتے ہیں، اور جب ناکامی کا سامنا ہوتا ہے تو مایوسی اور بے سمتی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔

سوشل میڈیا اور مصنوعی دنیا کا جادو
آج کا نوجوان حقیقت سے زیادہ ورچوئل دنیا میں جیتا ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرتا ہے، فالوورز بڑھانے میں لگا رہتا ہے، اور ایک ایسی زندگی کا خواب دیکھتا ہے جو حقیقت میں ممکن نہیں۔ فیس بک، انسٹاگرام، اور ٹک ٹاک پر چمکنے والی زندگی حقیقت سے کوسوں دور ہے، مگر نوجوان اس میں اس قدر کھو چکا ہے کہ اسے اپنی اصل سمت کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔

حل کیا ہے؟
1. تعلیم کو عملی بنانا ہوگا: ہمارے نصاب میں ایسی تبدیلیاں لانا ہوں گی جو نوجوانوں کو محض رٹا لگانے کے بجائے عملی زندگی کے لیے تیار کریں۔
2. مہارتوں پر توجہ دینی ہوگی: ڈگریوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو ہنر سکھانا ہوگا، تاکہ وہ صرف نوکریوں کے پیچھے نہ بھاگیں، بلکہ خود روزگار کے مواقع پیدا کر سکیں۔
3. رہنمائی کا نظام مضبوط کرنا ہوگا: نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق سمت دکھانے کے لیے کیریئر کاؤنسلنگ کو فروغ دینا ہوگا۔
4. سوشل میڈیا کی لت سے نجات: سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کو فروغ دینا ہوگا، اور نوجوانوں کو وقت کے بہتر استعمال کا شعور دینا ہوگا۔
5. خود اعتمادی پیدا کرنی ہوگی: نوجوانوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ کامیابی کا راستہ صرف مخصوص پیشوں تک محدود نہیں، بلکہ ہر شعبے میں محنت، لگن، اور ایمانداری سے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔

اگر ہم آج کے نوجوانوں کو صحیح سمت نہ دکھا سکے، تو آنے والا کل مزید تاریک ہوگا۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم صرف نوجوانوں کی بے سمتی کا رونا روتے رہیں گے، یا انہیں راستہ دکھانے کے لیے خود مشعلِ راہ بنیں گے؟ کیونکہ اگر نوجوان بھٹک گئے، تو سمجھ لیجیے کہ قوم کا مستقبل بھی اندھیروں میں گم ہو جائے گا!