جوانی انسانی زندگی کا نصف النہار ہوتی ہے۔ جوانی زیست کی بہار کہلاتی ہے۔ کمسنی، بچپنا کے بعد اگر انسان کو قدرت نے مہلت دی تو آگے جوانی اس کے لیے چشم براہ ہوتی ہے۔ اہم بات مگر یہ ہے کہ انسان اس جوانی کو اپنی زیست کے بہترین اور خوبصورت ترین دور کے طور پہ گزارے۔ جوانی ایسی یادگار ہو یا یوں کہیں کہ جوانی میں کچھ ایسی یادگار چیزیں چھوڑ جائے جو اس کے بوڑھاپے کا سرمایہ بنے۔ بلکہ بعد از موت بھی دنیا اسے یاد کرے۔
جوانی قوت، صلاحیت، محنت اور عزم و حوصلے کا دوسرا نام ہے۔ کسی بھی قوم یا ملک کی کامیابی و ناکامی، ترقی و تنزلی اور عروج و زوال کی داستان نوجوانوں سے ہی مزین ہوتی ہے۔ ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی ہو، اقتصادی ہو یا معاشرتی سطح کا ہو، اس کے پروردہ نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ دنیا کی جدید تاریخ پہ نظر ڈالیں تو یہ بھی اظہر من الشمس ہے کہ سماجی و سیاسی انقلابات میں نوجوانوں کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ روس کا سوشلسٹ انقلاب ہو یا انقلاب فرانس، مارٹن لوتھر کنگ کی نسل پرستانہ تفریق کے خلاف تحریک کی کامیابی ہو یا عرب بہار، ہر وقت ہر جا نوجوان ہی نظر آتے ہیں۔ گویا قوموں کی قسمتوں کے فیصلے نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں، بشرط یہ کہ نوجوان خود اپنی قوت کا اندازہ لگا سکیں اور اللے تللوں میں پڑنے کی بجائے کوئی مقصد حیات سامنے رکھیں۔ جب ہمارے نوجوان اعلی تعلیم یافتہ ہوں گے۔ ان کے دل جذبہِ ایمانی سے منور ہوں گے۔ سوچ ان کی وسیع اور نظریہ ان کا واضح ہو گا۔ جذبہ حب الوطنی ان کی شخصیت کا مرکزہ ہو گا تو وہ اپنی قوم کا سرمایہ بنیں گے اور ایسی قوم کو تابناک و روشن مستقبل پانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
معاشرے کے ہر فرد پہ کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ نوجوانوں کی کچھ زیادہ ہی سماجی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ معاشرے کے کچھ ضوابط ہوتے ہیں۔ کچھ اقدار ہوتی ہیں۔ ان کا پاس رکھنا سب کی ذمہ داری ہے۔ یہ انسان کی شرعی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنے معاشرے کو بگاڑ کی طرف جانے سے روکے۔ ایک ترقی و تہذیب یافتہ سماج کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ پھر نوجوانوں کو اور زیادہ شد و مد کے ساتھ ایک معیاری معاشرے کے قیام کے لیے اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ نوجوان ایک صحت مند اور پروڈکٹیو سماج کی تشکیل کی خاطر ان شعبوں کے لیے اپنی خدمات وقف کر سکتے ہیں
خود تعلیم حاصل کریں اور تعلیم کے فروغ میں ساتھ دیں
صحت کے مراکز کے لیے حکومت اور اداروں تک آواز پہنچائیں
فلاح و بہبود کے ادارے قائم کریں
بچوں کے لیے کھیلوں کے میدان بنا کے دیں
قدرتی آفات سے نمٹنے واسطے پیشگی حفاظتی اقدامات
معاشرے میں صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا شعار زیست بنائیں اور اس کی ترغیب دیں
جھوٹی خبروں اور افواہوں پہ کان مت دھریں۔ ان کی بیخ کنی کے لیے اقدامات کریں
مسائل کے حل اور معاشرتی ترقی کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال
سیاسی ذمہ داریاں
سیاست وہ شعبہ ہے جو باقی تمام شعبہ ہائے زندگی پہ اثر انداز ہوتا ہے۔ نوجوان بھلے سیاست میں حصہ لیں۔ سیاسی کارکن بننے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں بلکہ نوجوانوں کو سیاست میں حصہ لینا چاہیے۔ جو نوجوان لڑکے لڑکیاں عملی سیاست میں حصہ نہیں لیتے ان کے لیے بھی سیاسی شعور حاصل کرنا ضروری ہے۔ سیاسی حالات پہ نگاہ رکھنا بھی از حد ناگزیر ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ سیاست میں شائستگی کا خیال رکھا جائے۔ مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے کی بجائے بامعنی اور تعمیری تنقید کریں۔ اپنے معاشرے، حلقے اور علاقے کے جنوئن ایشوز کو اجاگر کریں۔ حکومت، سیاسی جماعتوں اور متعلقہ اداروں کے آگے مسائل اٹھائیں اور حل کرائیں۔ سیاست مثبت انداز میں کی جائے تو یہ خدمت خلق ہے اور عین عبادت ہے۔ سیاست ایک نظریے کے تحت کرنی چاہیے۔ تعمیر و ترقی کو سامنے رکھتے ہوئے کرنی چاہیے۔ آنکھیں بند کر کے کسی سیاسی لیڈر یا تنظیم کی ہر جائز ناجائز بات پہ لبیک کہنا باشعور نوجوانوں کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔ لھذا نوجوان سیاست برائے ترقی کریں۔ معاشرے کی خدمت کو ہدف بنا کے سیاست کے میدان کا شاہسوار بنیں۔ آپ کے اندر سیاسی تربیت کا ہونا کتنا ضروری ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اکثر جماعتوں کے لیڈر اپنے ورکرز کو سیاسی تربیت نہیں دیتے، کیوں کہ حقیقت یہی ہے کے ہمارے حکمران نا خود زیادہ پڑھے لکھے ہیں اور نہ قوم۔کے بچوں کو تعلیم دلانا اک۔کی ترجیح ہوتی ہے۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو دیکھیں تو اب سیاست کو "صرف ایک لیڈر کا نام" سمجھ لیا گیا ہے۔ جو کچھ لیڈر کہہ دے، وہی مستند مانا جاتا ہے، جو سیاست سے ناواقفیت اور لاشعوری کی علامت ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکمران خود تعلیم یافتہ نہیں اور نہ ہی عوام کو سیاسی شعور دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنی اور قوم کی بہتری کے لیے اپنے حصے کی شمع جلانی ہوگی۔ کسی بھی جماعت کا امیر، چیئرمین یا لیڈر مخالف جماعت کے کئے اچھے کام کو سراہنے کے بجائے اس پر تنقید ہی کرے گا۔ مثلاً اگر کوئی جماعت تعلیم کو فروغ دے رہی ہے۔ طلبہ کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے یا "لیپ ٹاپ اسکیم" لا رہی ہے تو دوسری جماعت کے لوگ اس پر اعتراض اٹھائیں گے۔ اب چاہے یہ پیسہ قوم کا ہی ہے لیکن یہاں فائدہ تو قوم کے بچوں کو ہی پہنچ رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک جماعت "صحت کارڈ" جاری کرے اور مریضوں کا مفت علاج کروائے تو دوسری جماعت اسے بھی تنقید کا نشانہ بنائے گی۔ غالبا ایسے ہی لوگوں کو سامنے رکھتے ہوئے مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ہمیں اپنے معاشرے اور اس قوم کی بہتری کے لیے خلوص دل کے ساتھ خود میدان عمل میں آنا ہوگا۔ اس سفر میں اپنے حصے کی شمع جلانا ہوگی۔ اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لئے ایک سمت کا تعین کرنا ہو گا۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے: وَ اَنۡ لَّیۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی۔(53:39)
تبصرہ لکھیے